پرانے تکیے، آلودہ خواب اور بڑھتی اُلجھنیں


\"\"آج کل میرے شہر میں وائرل انفیکشن کا راج ہے۔ ایک ایک کر کے گھر کے سب بیمار ہوئے، باری باری ٹھیک ہوتے رہے، پھر یہ کہ میری بھی باری آئی۔ دو تین روز سے سر اور بدن جکڑا رہا؛ اس دوران بچے شکوہ کرتے رہے کہ ابو آپ گھر کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے، یہی وجہ ہے کہ ہم بیمار ہوئے اور آپ بھی۔ بیگم سے کہا، جھاڑ جھنکار میں ہاتھ بٹا دو، اُس نے ٹکا سا جواب دیا کہ مجھ سے دو دو کام نہیں ہوتے؛ نوکری بھی کروں اور گھر کو بھی دیکھوں۔

آپ سے سچ کہوں، تو جیسا ہمارا الیکٹرونک میڈیا ہو گیا ہے، نہ تو اس کی کسی خبر کا بھروسا ہے، نہ تجزیوں پر اعتبار۔ یوں ایک عرصہ ہوا، میں نے ٹیلے ویژن دیکھنا چھوڑ‌ دیا ہے۔ بہت سی خبریں تو سوشل میڈیا سے موصول ہو جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کا معیار ایک سا ہے، یعنی جتنے منہ اُتنی باتیں، جتنے چینل اُتنی افواہیں۔ کبھی کبھی جاننے کی ہڑک اٹھے تو انٹرنیٹ پر ملکی اور عالمی اخبارات کی سرخیاں دیکھ لیتا ہوں۔ آج ہی بی بی سی اردو پر ایک سائنسی تحقیق کے متعلق پڑھا، کہ اپنے تکیے کو زیادہ سے زیادہ دو سال بعد تبدیل کر لینا چاہیے۔ آپ کی ناک میں سوزش رہتی ہو، آنکھوں سے پانی بہتا ہو، تو اس کی وجہ پرانا تکیہ ہے۔ انسانی بدن کے مردہ خلیے، اور غبار ان تکیوں میں شامل ہو کر انھیں مضر صحت بنا دیتے ہیں۔ میں نے فورا بیگم سے کہا، ”یہ دیکھو! مجھے پہلے ہی شک تھا میری بیماری کی وجہ تمھارے جہیز کے تکیے ہی ہیں، لیکن تم مان کر نہیں دے رہیں تھیں۔ اب تو بی بی سی نے بھی بتا دیا ہے۔“ بیگم نے بی بی سی کو غیر مستد قرار دیتے حوالہ دیا کہ ستر اکہتر میں یہ نشریاتی ادارہ پاک بھارت جنگ سے متعلق جھوٹی خبریں دیتا رہا ہے۔

یہ ہر ایک سے نہیں کہی جا سکتی لیکن آپ سے کہ دیتا ہوں، کیوں کہ یہ بات فقط میرے دل میں رہی، تو میرا دل غم سے پھٹ جائے گا۔ ایک مدت ہوئی بیگم سے اختیار کی جنگ لڑ رہا ہوں۔ اگر گھر کے معاملات دیکھنے لگوں، تو وہ کہتی ہے، ”آپ کو اتنی سمجھ نہیں ہے، کہ درست اقدام کر سکیں، چناں چہ میں ہی فیصلہ کروں گی، کہ کیا ہونا ہے اور کیسے ہونا ہے۔“ پھر وہ یہ بھی جتلاتی ہے کہ ”میں نہ ہوتی تو یہ گھر کب کا بکھر گیا ہوتا۔ ہاں آپ کی دو ٹکے کی عزت رکھنے کے لیے خان دان بھر میں مشہور کردیتی ہوں، کہ اس گھر پر آپ ہی کا راج ہے۔“ جب میں غیرت میں آ کے خارجہ امور دیکھنے لگوں تو اُسے شک رہتا ہے، میں کسی اور لڑکی کے چکر میں نہ پڑ جاوں۔ اس لیے وہ حکم لگاتی ہے، ”بیرونی معاملات میں ہی دیکھوں گی۔ ہاں ہانڈی روٹی چولھا آپ دیکھیں۔“ اب احوال یہ ہے کہ گول روٹی، اور چٹ پٹے پکوان بناوں تو بیگم آئے گئے سے اپنے سگھڑپن کا کریڈٹ لے جاتی ہے، لیکن کبھی گیس کی کمی بیشی سے روٹی جل جائے، یا نمک مرچ کا تناسب بگڑ جائے، تو کہتی ہے، ”کچن میں تو نہیں دیکھتی۔“ کریڈٹ کوئی بھی لے، یہ شکوہ نہیں، فکر یہ ہے ان جراثیموں کا کیا کروں جو گھر کے اندر پلتے ہیں، جتنی مشقت کروں سب اکارت جاتا ہے۔ پہلے ناک بند تھا، کل سے چھینکیں آ رہی ہیں، ہر چھینک پر رب کا شکر ادا کر رہا ہوں، کیوں کہ چھینکوں نے سارے بدن کی جکڑن دُور کر دی ہے۔ گھر میں اختیار کس کا ہونا چاہیے، یہ جکڑن اپنی جگہ ہے۔

اب ان پرانے تکیوں کو بدلنے کا وقت آ چکا ہے؛ یہی نہیں پردے، چادریں، کمبل، اور لباس جنھیں مدت سے مصفا نہیں کیا گیا، دھوپ نہیں لگوائی گئی۔ ان میں سے کچھ کو پھینک دینے کی ضرورت ہے، کچھ کو دھونے کی، ہوا لگوانے کا موسم، اور کچھ کو اُدھیڑ کر نئے سرے سے بنانے کا وقت آ چکا ہے؛ لیکن مشکل یہ ہے، کہ میری بیوی مجھے اس کا اختیار ہی نہیں دے رہی۔ وہ کہتی ہے، میری اس گھر سے وفا داری مشکوک ہے، کیا خبر میں کب کس حسینہ سنگ نکل جاوں۔ بہ جائے اس کے کہ وہ مجھ پر اعتماد کرے، اور ہم مل کر جراثیموں کا قلع قمع کریں، وہ اپنی توانائیاں میری جاسوسی پر ضائع کرتی رہتی ہے۔ جہیز میں لائے سامان کو وہ اپنی اسٹریٹجک ڈیپتھ کہتی ہے۔ کبھی میں جوش خطابت میں کہ دوں کہ گھر کا آئینی سربراہ میں ہوں، تو وہ میرے سالوں کو بلا لیتی ہے۔ یہ ہٹے کٹے ہیں؛ کھاتے بھی خوب ہیں، کیا نہیں ہے ان کے پاس؛ شاہانہ طرز زیست، جائداد مال و دولت ہے تو گویا جاہ و جلال و وقار بھی انھی کا؛ ہذا من فضل ربی کی عملی تفسیر ہیں۔ اگر کوئی کمی رہ جاتی ہے، تو ان کے نیفے میں لگا لائسینسی اسلحہ، وہ کمی بھی پوری کر دیتا ہے۔ میں سالوں سے ہمیشہ عاجزی سے بات کرتا ہوں، ”سالا صاحب یہ گھر میرا بھی تو ہے؟“ وہ ترنت جواب دیتے ہیں، ”اس گھر کو گھر بنانے والی ہماری بہن ہے، وہ نہ ہوتی تو تم کب کا ناش مار چکے ہوتے۔“ میں کپکپاتے ہوئے اختلاف کروں، ”یہ گھر ہم سب کا ہے، میرا بھی اور میری بیوی کا بھی؛ ہمارے بچوں کا۔ میں تو اتنی سی گزارش کر رہا ہوں، کہ میرے بچے مجھ سے بدظن ہو رہے ہیں، کہ یہ گھر، بیماری کی آماج گاہ بن چکا ہے، اور میں اس کے خاتمے کے لیے کچھ نہیں کر پا رہا۔ خدارا! مجھے صفائی کا موقع دیں۔ آپ کی بہن نے کھڑکیاں روشن دان میخیں ٹھونک ٹھونک کر بند کر دیے ہیں، اس کے تئیں ہمارے پڑوسی اچھے نہیں‌ ہیں، ان کی بچیاں فیشن کی ماری ہیں، کہیں ہمارے دین دار گھرانے کو گم راہی میں نہ مبتلا کر دیں۔ صحن کی دیواریں اتنی اونچی کروا دی ہیں کہ بعض اوقات سورج بھی اُس کی اوٹ سے ہو کر نکل لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھر کے پردوں سے ناگوار بو اٹھتی ہے، گھر معطر کیسے ہو؛ بتائیے۔ اگر میں پرانا تکیہ بدلنے کی بات کروں، تو بیگم وہ تکیہ چھین کر لے جاتی ہے، کہ یہ اس کے جہیز کا ہے۔ سوفوں میں پلنگ میں پسو ہیں، کھٹمل ہیں۔ جوئیں بچوں کے سر سے ہوتی اب میرے سر کا لہو پی رہی ہیں۔“ میرا چھوٹا سالا ایسی باتیں سن کر زور زور سے ہنسنے لگتا ہے۔ ”بس اتنی سی بات ہے؟ ہم کامبنگ آپریشن شروع کر دیتے ہیں۔“

جب حالات اس نہج پر پہنچتے ہیں، جوئیں نکالنے والی کنگھی، فینائل، تیزاب کی بوتلیں فراہم کر دی جاتی ہیں۔ comb یعنی کنگھا لے کر بچوں کے سر میں کامبنگ آپریشن کیا جاتا ہے۔ آپ کو پتا ہوگا یہ جوئیں نکالنی والی کنگھی دیرپا نہیں ہوتی۔ باریک دانتوں والی یہ کنگھی ایک آدھ ”کامبنگ“ ہی میں ناکارہ ہو جاتی ہے۔ موٹی موٹی دو چار جوئیں تو پکڑ میں آ جاتی ہیں، لاروے انڈے بچے اس کامبنگ سے ختم نہیں ہوتے؛ کچھ عرصے بعد وہی انڈے لاروے خون خوار جووں کا روپ دھار لیتی ہیں۔ مسئلہ یہ جوئیں نہیں ہیں۔ کھٹمل نہیں ہیں؛ پسو نہیں ہیں؛ وہ تکیے ہیں، جن پر سر رکھ کر ہم سو جاتے ہیں۔ اُن جراثیموں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، جو ہمارے خوابوں کو آلودہ کرتے ہیں۔ مولوی صاحب کہتے ہیں، کہ اپنے سگے اسلامی بھائیوں سے بھی زیادہ پڑوسی کا حق ہے۔ ہمیں پڑوسی سے پیار محبت کا تعلق رکھنا چاہیے، خواہ وہ دوسرے مذہب سے کیوں نہ ہو۔ پھر یہ بھی ہے کہ نفرت کی یہ دیواریں نیچی ہوں گی، تو کسی سمت سے تازہ ہوا بھی آئے گی، روشنی جراثیموں کی موت ہے؛ دیواریں ہٹیں گی تو کرن آئے گی۔ لیکن یہ بات بیگم کو کون سمجھائے، کہ اس مکان کو گھٹن کا مرکز بنا کر، ہم اپنی نسل کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ تازہ ہوا سے دماغ کو فرحت ملتی ہے؛ ذہن صحت مند نہیں ہوگا، تو بدن بھی کم زور پڑ جائے گا۔ ہمارے بچے پہلے صرف مجھی کو الزام دیتے تھے، کہ میں گھر کو چلانے کا اہل نہیں؛ اب وہ بڑے ہو رہے ہیں، وہ بھی عالمی اخبارات، انٹرنیٹ ورلڈ سے واقف ہوتے جا رہے ہیں۔ انھیں سمجھ آتا جا رہا ہے، کہ کل تک ہم جن پر تکیہ کرتے آئے، وہ بوسیدہ تصورات ہیں۔ ہم گھر والے کچھ کچھ تنہائی کا شکار تو ہیں ہی، اور اگر اپنے گھر کی دیواریں مزید اونچی کرتے چلے گئے تو مزید تنہائی مقدر ہوتی چلی جائے گی۔ گھٹن بڑھے گی؛ سورج کو روکیں گے، تو جراثیم پلیں گے، جوئیں، پسو،کھٹمل جوان ہوتے رہیں گے۔ ہمارا لہو کسی کی قسمت سنوارنے کے لیے بہتا ہے، تو بہ جانے دیں؛ یہ اتنا ارزاں تو نہیں، کہ جووں پسووں کھٹملوں کی خوراک بنے۔

مجھے اختیار ملے تو میں پڑوسیوں سے بہ تر تعلق قائم کروں، دیواریں ہٹیں، تو سانس ہم وار ہو۔ گھر کے ناراض لوگوں کو قریب لاوں، کہ وہ اس گھر کوسنوارنے میں مدد گار ہوں۔ غلطیاں سبھی سے ہوئی ہیں، غلطیاں سبھی سے ہوتی ہیں۔ ہم گھر والے ایک دوسرے کی نیتوں پر شک کرنا چھوڑ دیں؛ کیوں کہ ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں؛ یہ کشتی ڈوب گئی تو ہم سب ڈوبیں گے۔ ایسی کوششوں سے ماحول پر چھایا یہ غبار چھٹے تو دہشت ناک مستقبل کے جراثیم ہلاک ہوں؛ آیندہ نسلوں کے لیے گھر، محلہ، شہر گلاب رنگ ہو جائے۔ کاش! بیگم یہ سمجھ لے کہ بھائیوں کے ڈراوے سے گھر نہیں بنتے۔ ایک وہی خیر خواہ نہیں ہے؛ اس کے سوا بھی ہیں، جو اس گھر کی خیر مانگتے ہیں۔ یہ گھر تو سبھی کا ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments