طالبان کامیاب رہے ہیں


\"\" طالبان جاری ہفتے میں دہشت، ڈر، خوف اور ناکام ریاست کا احساس پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

اب وہ مزید کاروائیاں کر سکے تو انہی چند دنوں میں کریں گے تاکہ اس دہشت و خوف کی فضا کو قائم رکھا جا سکے ورنہ پھر منظر سے غائب ہو کر زیر زمین چلے جائیں گے اور چھوٹی چھوٹی ٹارگٹڈ کاروائیاں جاری رکھیں گے جو عموما رپورٹ بھی نہیں ہوتیں۔

اس عرصے میں ہمارے حکمران (ملٹری و سول ) ان کے جسم کی کوئی ہڈی نہیں چھوڑیں گے جسے تباہ کرنے کا کوئی دعوی نہ کر سکیں۔

طالبان دو تین ماہ بعد پھر نکلیں گے ، پھر اسی طرح سارے انتظامی ڈھانچے کو روند کو اپنے اہداف حاصل کر کے چلے جائیں گے … یوں یہی معمول جاری رہنے کا اندیشہ ہے۔

ہیئت مقتدرہ کیا سوچ رہی ہے اگر کسی سے کوئی ڈھکی چھپی بات ہے تو کیا کہا جائے وگرنہ معاملہ یہی ہے کہ اسٹریٹجک اثاثوں والا نظریہ ہنوز رائج ہے یعنی دشمن ملک کے اندر نہیں بلکہ ملک سے باہر افغانستان یا انڈیا یا ایران میں ہے۔….. سول اداروں کی سربراہی چوہدری نثار کے پاس ہے جو دفاع پاکستان کونسل کا وزیر دفاع زیادہ لگتا ہے نہ کہ اس ملک کا وزیر داخلہ۔

دکھ ختم نہیں ہوں گے جب تک سول سوسائٹی کے تمام شعبے (صرف این جی اوز نہیں ) دہشتگردی کے خلاف بیانیہ پر متفق نہ ہو جائیں جو بظاہر ناممکن لگ رہا ہے کیونکہ لگ یہی رہا ہے کہ دشمن اس حملے میں ایک اور خطرناک وار بھی کر گیا ہے دیوبندیت اور بریلویت پر مبنی فرقہ ورانہ تفریق کا۔

میری نظر میں دہشتگردی کا سبب دیوبندیت یا وہابیت نہیں بلکہ وہ ریاستی سرپرستی ہے جو چند مذہبی جماعتوں کو حاصل رہی ہے جن کا تعلق دیوبندی و اہل حدیث مکتب فکر سے ہے- ریاستی سرپرستی کا طاقتور احساس اور معاشرہ میں کارروائیوں کے لئے کھلا چھوڑ دینا (جو کہ 2001 سے پہلے کی عمومی صورتحال ہے ) کسی بھی گروہ یا جماعت کو شدت پسند اور جنگجو بنا سکتا ہے- ریاست نے ہی شدت پسند و انتہا پسند بیانیہ کی آبیاری کی۔ جب تک ریاست ایسی تمام سرپرستانہ قسم کی سرگرمیوں سے باز نہیں آتی اور انتظامی امور میں شر پسند کاروائیوں کے خلاف بے لچک پالیسی پر کاربند نہیں ہوتی یہ دہشت گردی جانے والی نہیں۔

ضروری ہے کہ ہوش مندی کا دامن نہ چھوڑا جائے۔ غصے و ہیجان پر مبنی بے بصیرت ردعمل کا انجام بھی اچھا نہیں نکلنا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشتگردی کے اسباب پر کھلے دل و دماغ سے بار بار غور کیا جائے اور انفرادی و سماجی بنیادوں پر درست رسپانس کیا جائے۔ ریاست پر جب تک سول سوسائٹی کی طرف سے بھرپور دباؤ نہیں آئے گا اس وقت تک ریاست بذات خود سٹریٹجک اثاثہ قسم کی مہم جوئیانہ نفسیات اور دفاع پاکستان کونسل طرز کی بلیک میلنگ سے نکلنے والی نہیں۔ ہم میں سے ہر فرد کو کم از کم اپنے بچاؤ کی ہی تدبیر کرنی ہو گی کیونکہ خدا نخواستہ اگلا نشانہ ہم یا ہمارے عزیز و اقارب بھی ہو سکتے ہیں۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments