مثالی مرد نہیں، مثالی انسان کی ضرورت ہے


\"\"  \”ہم سب \” پر سکندر خان صاحب کا مضمون پڑھنے کا موقع ملا۔ مضمون کا عنوان تھا۔ \”غیرت مند نہیں، مثالی مرد کی اشد ضرورت۔\”

عنوان نے متوجہ کیا اور باقی چیزیں چھوڑ چھاڑ کر مضمون کو کھولا۔ لفظ \”غیرت \” کے لغوی اور اصطلاحی معنی پر سکندر خان نے اچھا لکھا تھا۔ فرماتے ہیں

 \”میری ناتواں رائے میں غیرت کا لفظ اردو لغت میں سے نکال دینا چاہئے یا کم ازکم غیر پسندیدہ، متروک اور عامیانہ الفاظ کی فہرست میں شامل ہو تا کہ ہماری آنے والی نسلیں اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو قتل کرنے پہ فخر کی بجائے موجودہ دور کی جہالت میں نہ پیدا ہونے پر متشکر ہوں۔ لغت میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ روز مرہ طرز بیان اور طرز کلام میں بھی تصرف و موافقت کی ضروت ہے۔ مثلاً ‘غیرت مند مرد’ کا بدل ‘مثالی مرد’ سے کر دینا چاہئے۔\”

برابر بات ہے۔ سماج نے \”غیرت\” کا ایک لفظ بنایا اور عورت کو انسان کی صف سے نکال کر ایک چیز کی حیثیت دے دی۔ اور وہ بھی کم تر حیثیت۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ سماج نے ایک اور فیصلہ لیا۔ \”فخر \” نامی ایک لفظ بنایا اور مرد کی ذات سے اس کو جوڑ دیا۔ گویا سماج میں خاندان یا فرد کے فخر کا پیمانہ بنی مرد ذات۔ جیسے کہ لڑکا پیدا ہونا۔ لڑکے کی تعلیمی میدان میں کامیابیاں۔ اس کی نوکری یا شادی کا موقع بھی سماج میں خوشی اور فخر کا سبب بنایا گیا۔ زندگی میں کتنے ولیموں میں آپ نے شرکت کی ہوگی لیکن کبھی ایسا نہ ہوا ہوگا کہ ان میں سے ایک بھی کسی عورت کے نام پر ہو۔ حالانکہ عورت اسی طرح انسان ہے جیسے کہ مرد۔ اور شادی جیسی مرد کے لئے خوشی کا سبب ہے ویسے ہی عورت کے لئے۔ جیسے آپ بیٹے یا بھائی کی شادی میں خوش ہو کر دعوت ولیمہ کرتے ہیں تو بیٹی کے نام کا ولیمہ کیوں نہیں؟ مگر یہ ناممکن ہے کہ کسی بیٹی یا بہن کی خوشی اپنی خوشی سمجھی جائے، اس میں شریک ہوا جائے۔ ارے ولیمہ کرنے کی کیا بات؟ اکثر تو شادی کارڈ میں عورت کا نام \”بنت فلاں \” لکھا ہوتا ہے۔ ویسے اس کے نام لکھنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ دیکھا نہیں شادی کے بعد عورت کا نام اور قبیلہ ہی بدل جاتا ہے۔ عورت کا وجود کے ساتھ خاندان ہی نہیں بلکہ سماج کی ذلت خاص کردی گئی۔ اس کی پیدائش سے بلوغت تک کو معاشرہ ناپسندیدہ کاموں میں شمار کرتا ہے۔ اس کی تعلیم کو عار سمجھا جاتا ہے۔ اس کا نوکری کرنا بھی اتنا پسندیدہ نہیں۔ اس کے گھر سے نکلنے کے اسباب بھی متعین کر دیے گئے۔ بغیر کسی وجہ کے گھر سے نکلی تو گویا قیامت اتر آئی۔ اوراگر بے وقت نکلی تو فاحشہ کا طوق گلے میں۔ یعنی عورت کے لئے \”عورت\” فائدہ کے بجائے نقصان کا سبب ہے۔ یہ لفظ اسے خاندان اور سماج سے نہیں بلکہ انسانیت کے مقام سے ہی علاحدہ کردیتا ہے۔ پیدا ہوتے ہی وہ معاشرتی جبر اور ظلم کی حقدار ہوجاتی ہے جو کہ مرتے دم تک اسے بھگتنا ہوتا ہے۔ اور یاد رہے کہ سماج نے صرف عورت کے بارے حدبندی قائم نہیں کر رکھی بلکہ یہ بھی لاگو کر رکھا ہے کہ عورت کے کردار میں کوئی بدلاؤ اسے قبول نہیں۔ اس بارے میں سوال اٹھانے والوں کو معاشرہ عزت دار ہونے کے حق سے محروم کردیتا ہے۔ لیکن سکندر صاحب نے یہ سب جانتے ہوئے بھی سوال اٹھایا ہے جو مجھے اچھا لگا۔ لیکن معاف کیجئے جن باقی باتوں کا آپ نے اپنی تحریر میں تذکرہ کیا ہے ان کی بنیاد میں کسی کو مثالی مرد تسلیم نہیں کر سکتا۔ ایک اور بات۔ ہم مثالی مرد بننے کے بجائے مثالی انسان بننے کا فیصلہ کیوں نہیں لیتے؟ یقین جانیں مثالی مرد سے مثالی انسان ہونا بدرجہا بہتر ہے۔ اس کے لئے بس یہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنی عورت یا بیٹی کو جائیداد میں اسی قدر حصہ دیں جتنا کہ اپنے بیٹے کو۔

ہماری بہن اور بیٹی بھی اپنی مرضی سے گھر سے باہر آنے جانے کا حق رکھتی ہیں جیسا کہ ہم رکھتے ہیں۔

وہ اپنی مرضی سے پڑھائی کر سکے اور اپنے ارادے سے کسی بھی فیلڈ میں جاب کرے۔

وہ اپنی پسند سے سے شادی کرسکے نا کہ خاندان کے دباؤ پر۔

وہ گھر میں ہونے والے فیصلوں میں اتنا اختیار رکھے جتنا کہ مرد۔

کسی بھی جگہ اس کی حیثیت ایک آزاد اور خود مختار انسان کی ہو ناکہ طفیلی۔

اس کو حق رہے کہ وہ شادی کے بعد اپنا نام برقرار رکھے۔

اس کو حق رہے کہ شادی کا بندھن جب اس کے لئے بوجھ بن جائے وہ اس سے بآسانی نجات حاصل کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments