ہم نے دہشت گردوں کو کیا پیغام دیا؟


 ایک دھماکہ ہوتا ہے اور عزم بلند ہونے کے دعوے بھی نعروں کی سی گونج رکھتے ہیں۔

سوال تو سنجیدہ ہے کہ آخر کتنا لہو چاہیئے ایندھن کی طرح! بچے ، بڑے، بوڑھے – خواتین/مرد سبھی کا خون تو چکھا جا چکا!

بہت عرصہ گذرا، میریٹ ہوٹل (کراچی) کی پارکنگ میں بم دھماکہ ہوا۔ بم ایک کالی پیلی ٹیکسی میں رکھا گیا تھا۔ پہلا جو حکم نامہ صادر ہوا وہ اس روڈ پر کالی پیلی ٹیکسی کے داخلے پر پابندی سے متعلق تھا۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر یہ حکم دھشت گردوں کو پیغام دینے کے لیئے تھا کہ ہم سو رہے ہیں یا ہم عوام کو یہ یقین دلانے کے لئے تھا کہ ہم جاگ رہے ہیں! چند ہی روز بعد ایک اور دھماکہ ہوا۔ اس مرتبہ بم ہائی روف گاڑی میں رکھا گیا تھا۔ آگے تو آپ سمجھتے ہی ہیں.

ایک ناکے پر دیکھتے ہیں کہ آپ عام رواجی سی حیثیت میں رہتے ہوئے، \”معمولی\” سی گاڑی میں گذرتے ہوئے فضول سی فنکارانہ صلاحیتوں کا استعمال کریں اور پھر آپ کو روک کر سنتری بادشاہ سوال و جواب کی عدالت لگا لے گا، اور اس بیچ گذرتی گاڑیوں کے اوپر توپ بھی رکھ کر کوئی گذر جائے۔ دھیان بٹانے کے لیئے تھوڑا سا غیر معمولی انداز میں گرما گرمی کو ہوا دے دیجیئے۔ اور بس.۔ ماجرا فرض سے نکل کر انا کے گرد چکر لگائے گا۔ اور اس بیچ سلیمانی ٹوپی ہر ایک کو میسر ہو گی.

 اب یہ سب مجھ جیسے ادنیٰ طالب علم کے لئے سوچنا ممکن ہے تو پھر مضبوط حکمتِ عملی کے ساتھ لڑنے والے دہشت گردوں کے لیئے کیوں نہیں! وہ جنگل جہاں بیج سے تناور درخت تک کے تمام مراحل آپ سے مخفی نہ ہوں۔ جس دھوئیں کے پیچھے چنگاری پر آپ کو پوری دسترس رہی ہو، جس سوال کو جواباً آپ ہی نے پیش کیا ہو، اس سوال کا آج آپ کے پاس جواب نہ ہو، عجب ہے…..

یا تو آپ جواب جانتے نہیں ہیں، یا جواب بذاتِ خود آپ پر بہت سے سوال اٹھاتا ہے۔

لیکن ہم کیوں پستے ہیں۔ اسکولوں سے ہسپتالوں تک، مسجد، گرجا، مندر، غربا کے دعا کے در، گھر بازار، یہاں تک کے محافظوں پر حملے ہوتے ہوں۔ ملک کے دفاعی گڑھ میں دہشت گرد گھس آتے ہیں۔ اور ہم؟ ہم عوام کس کو مسیحا سمجھیں؟ اور مسیحا کیوں؟ ووٹ دیتے ہیں حکمرانوں کو۔ پھر نوٹ دیتے ہیں کہ وہ ادارے بنائیں۔ مفت میں تو نہیں مانگ رہے۔ بھیک تو نہیں ہے۔۔۔

آخر اب تک ہونے والی کارروائیوں میں دہشت گردوں کی حکمتِ عملی اتنی مؤثر کیوں لگتی ہے. وہ پہاڑوں، غاروں، بیابانوں اورملکی حدود سے چھپتے چھپاتے، ہمارے شھروں تک آ پہنچتے ہیں یا پھر ہمیں میں سے کسی کو آلہ کار بنانے، اس پر اتنی بڑی سرمایہ کاری کرنے اور رازدار بنانے کا رسک لیتے ہیں۔ دوسری طرف ہم ایک ملک، جمہوری روایت کا پاسبان، رسمی ادارے، جائز سرمایے کے ساتھ مشکل میں…

سوال تو اٹھتے ہیں۔ اٹھنے بھی چاہیئں۔ سوچنا سمجھنا تو پڑے گا۔ آج ممکن بنایئں گے تو بہتر ورنہ کل کتابوں میں ملیں گے۔

ایک اندوہ ناک واقعہ ہوا ہے۔ کچھ کنٹینر سے، کچھ جہازوں سے، کچھ بدمست ہاتھیوں سے اور کچھ اپنی انا کے دعوں سے، نیچے اتر آئے۔ مِل بیٹھے۔ سر جوڑ لئے.۔ پھر ہم نے ایوانِ بالاں اور زیریں میں نم دیدہ آنکھیں دیکھیں۔ بھاری بوجھ تھا۔ ہرگز قبول نہ تھا لیکن فوجی عدالتیں بنیں۔ یہ کڑوی گولی ملکی قیادت نے مل کر بنائی اور جمہوری اقدار کی بنیادیں کھوکھلی ہونے کے خوف کے باوجود، ہمیں اپنی شناخت قائم رکھنے کے لیئے یہ گولی نگلنا پڑی (جیسے انفیکشن میں اینٹی بایوٹک کھانی پڑتی ہے، مگر ایک وقتِ مقررہ کے لیئے!)۔ لیکن اس کڑوی گولی کے کورس کی تکمیل تک نہ تو کوئی اصلاحات لائی گئیں نہ ہی مستقل حل کے لئے مل کر جدوجہد کی گئی۔ انا، ہاتھی اور جہاز کے سوار یہ جا وہ جا۔۔۔ اور کنٹینر والوں نے ایک اور دھرنے کے لئے کمر باندھ لی۔ کسی کا سفر خراب ہوا تو کسی کا حشر۔۔۔ حتیٰ کہ دستور کے مطابق چھٹیاں بھی زیرِ بحث رہیں۔۔۔ ملکی تاریخ میں اہم موڑ آئے لیکن! لیکن بس وہ نہ ہوا کہ ہمیں دوبارہ کڑوی گولی (اینٹی باییوٹک) کا کورس کرنے سے نجات ملتی، ہماری قوتِ مدافعت کو بہتر بنایا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments