دہشت گردی میں عربی کا حصہ


\"\"

پندرہ فروری 2017 کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ کا اجلاس ہوا۔ اس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی رکن نعیمہ کشور خان صاحبہ کا تجویز کردہ ’عربی کی لازمی تعلیم کا بل‘ زیر بحث لایا گیا۔

گو کہ یہ بل پیش کرتے ہوئے فروری 2015 میں کشور صاحبہ نے یہ بتایا تھا کہ عربی کی لازمی تعلیم کے نتیجے میں طلبہ کو قرآن و سنت سمجھنے میں آسانی ہو گی، مگر شاید 2017 آتے آتے عربی کے روحانی اثرات میں تبدیلی آ گئی کیونکہ اس بل پر بحث کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کی ممبر محترمہ پروین مسعود بھٹی نے انکشاف کیا کہ دہشت گردی اس وجہ سے بڑھ رہی ہے کیونکہ طلبا عربی نہیں پڑھ رہے۔ ’ہم نے انگریزی زبان پر توجہ مرکوز کرنا شروع کر دی، اور والدین نے اپنے بچے انگریزی میڈیم سکولوں میں ڈال دیے اور اپنے بچوں کو عربی زبان سکھانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اسی وجہ سے دہشت گردی بڑھ رہی ہے‘۔

پروین صاحبہ حق بات کہہ رہی ہیں۔ کون سا ایسا ذی شعور پاکستانی انتہاپسند ہے جو یہ نہیں مانتا کہ عربی بولنے والی القاعدہ اور داعش مجاہد ہیں اور انگریزی بولنے والے بش اور اوباما دہشت گرد ۔ اور یہ انگریز چالاک اتنے ہیں کہ نائن الیون خود ہی کروا ڈالا اور الزام یہ لگایا کہ عربی بولنے والے ڈیڑھ درجن لوگوں نے یہ جہاز ہائی جیک کر کے دہشت گردی کی ہے۔ اگر یہ عربی بولنے والے سعودی شہری اپنے ملک میں ہی رہتے تو ایسا کیوں کرتے؟ یہ تو امریکہ جا کر انگریزی سیکھنے کی وجہ سے وہ دہشت گرد بنے تھے۔ اگر پاکستان بھی قبائلی علاقوں میں مقیم عربی بولنے والے القاعدہ کے مجاہدین سے امن معاہدہ کر لیتا تو ان کی تعلیم کی برکت سے آج طالبان بھی پشتو کی بجائے عربی بولا کرتے اور ملک سے دہشت گردی کی لعنت کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے عربی بولنے والے خودکش دھماکوں یا دوسری کارروائیوں میں خود کو ہلاک کر بیٹھے اور یوں ان علاقوں میں دہشت گردی ایک عفریت کی صورت اختیار کر گئی۔

پروین صاحبہ کی بات معقول ہے مگر ایم کیو ایم کے سید علی رضا عابدی بلاوجہ ہی بول پڑے کہ عربی بولنے والے بھی تو دہشت گرد ہو سکتے ہیں اور دہشت گردی پھیلا سکتے ہیں۔ ان کے ذہن میں عراق اور شام کی جنگجو تنظیمیں ہوں گی یا پھر ممکن ہے کہ ان کا اشارہ علاقہ غیر میں مقیم عرب مجاہدین کی طرف ہو جو عربی نہ بولنے والے پاکستانی عوام کے خلاف جہاد کرتے رہیں ہیں۔ اب ایم کیو ایم کے بارے میں تو سب کو ہی پتہ ہے کہ وہ پچھلے چند ماہ سے سند یافتہ غدار ہے اور میڈیا ٹرائل میں اس کا غداری کا جرم ثابت ہو چکا ہے۔ اس لئے جسے وہ دہشت گرد کہہ رہے ہیں وہ کیسے دہشت گرد ہو سکتا ہے؟

تحریک انصاف کی نفیسہ خٹک نے کہا کہ عربی کو ابتدائی تعلیمی درجوں سے لازمی قرار دینے سے ملازمت کے مواقع میں اضافہ ہو گا اور ایک بڑی تعداد میں لوگ ملازمت حاصل کر سکیں گے۔

نفیسہ خٹک صاحبہ کی بات برحق ہے۔ ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ عوام کس طرح عربی پڑھانے والے مدارس میں اپنے بچوں کو داخل کرانے کے لئے لائنیں بناتے ہیں اور بھاری فیسیں لینے واللے نجی سکولوں کی بجائے مدارس میں بچہ داخل کراتے ہیں کیونکہ مدارس کے تحصیل یافتہ بچوں کو فوراً پانچ دس ہزار روپے کے اعلی مشاہرے پر اسی مدرسے میں استاد یا قریبی مسجد میں امام رکھ لیا جاتا ہے جبکہ انگریزی میڈیم میں پڑھنے والے جوتیاں چٹخاتے پھرا کرتے ہیں اور یخ بستہ کمروں میں بیٹھے بیکار کرسی گھمایا کرتے ہیں۔

کمیٹی کے چیئرمین جناب رانا حیات خان صاحب نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ عربی تعلیم سے ملازمت کے مواقع میں اضافہ نہیں ہو گا۔ بلکہ انہوں نے قوم کے علم میں اضافہ فرمایا کہ علامہ اقبال کہہ گزرے ہیں کہ ’پڑھو عربی بیچو تیل‘۔

رانا صاحب نے درست بات کی ہے۔ اب عربی جاننے کی وجہ سے ہی یہ عرب ممالک تیل بیچ بیچ کر اتنا کما رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں عربی سے نابلد ایران، روس اور امریکہ کو دیکھ لیں کہ ان کی تیل کی ایکسپورٹ کتنی محدود ہے۔ اگر وہ بھی عربی پڑھ لیتے تو اپنا تیل بیچا کرتے۔ پاکستانی بھی عربی سیکھ لیں گے تو خوب تیل بیچا کریں گے۔ حکما بتا چکے ہیں کہ سرسوں کا دیسی تیل بھی افادیت اور قیمت میں پیٹرولیم سے کم ہے۔

رانا صاحب کے بیان پر تحریک انصاف کے اسد عمر کو طرارہ آیا۔ کہنے لگے کہ اسلام آباد کی 85 فیصد مساجد وہ چلاتے ہیں جو کہ اس کی تبلیغ نہیں کرتے جو کہ قرآن پاک میں لکھا ہے۔ اس لئے قرآن کی زبان اور اس کا ترجمہ طلبا کو پڑھایا جانا چاہیے۔

تحریک انصاف کے سینئیر لیڈر کی بات کی تردید کرنے کی جرات تو کوئی نہیں کرے گا ورنہ انہوں نے الزام لگا دیا تو پاناما میں نام آ جائے گا۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اسلام آباد کی ان 85 فیصد مساجد سے انگلش میڈیم اماموں اور خطیبوں کو نکالا جائے اور ان کی بجائے عربی بولنے والے ملازم رکھے جائیں۔

وفاقی دارالحکومت کی انتظامی وزارت کی سیکرٹری نرگس گھلو اس پر لاچار ہو گئیں۔ کہنے لگیں کہ ہمارے پاس اتنے اساتذہ ہی نہیں ہیں جو کہ عربی کو لازمی کورس کے طور پر پڑھا سکیں۔ یہ بھی کہا کہ سندھ جیسے جن صوبوں میں مقامی زبانیں بھی پڑھائی جاتی ہیں، ان کے طلبا پر اضافی بوجھ پڑے گا۔ عربی کو جماعت ششم سے اختیاری مضمون کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ ہے کہ طلبا کی اکثریت اسے اختیار کرنے سے انکاری ہے۔

جہاں تک اساتذہ کا تعلق ہے تو واقعی مدارس سے فارغ التحصیل عربی بولنے والوں کی کھپت اتنی زیادہ ہے کہ وہ کم مشاہرے پر استاد کی سرکاری ملازمت قبول نہیں کریں گے کیونکہ وہ نجی شعبے میں عربی جاننے کی وجہ سے ہی لاکھوں روپے ماہانہ کماتے ہیں۔ جہاں تک طلبا کے عربی کو اختیاری مضمون کے طور پر نہ لینے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہودی سازش ہی ہو سکتی ہے تاکہ پاکستان ایک غریب ملک رہ جائے اور دیسی سرسوں کا تیل نہ بیچے۔ سندھ میں انتہا پسندی کی جڑ بھی یہی ہے کہ طلبا عربی کی بجائے انگریزی کو اختیار کر رہے ہیں۔

ویسے ہمیں کچھ کچھ خیال آ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور کی اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد سے تو تعلیم ایک صوبائی معاملہ ہے اور وفاق کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن قومی اسمبلی کی اس بحث کو انگریزی دہشت گردی کے سد باب کی ایک اچھی کوشش کے طور پر سراہا جانا چاہیے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments