’’ مار دیا جائے کہ چھوڑ دیا جائے ‘‘۔۔۔ اچھے جہادی اور ریاستی سرگوشیاں


\"\"
ریاست کے خلاف بر سر پیکار جہادی نیٹ ورکس کو نیست و نابود کرنے کے حتمی ہدف کے حصول کی طرف ایک ابتدائی قدم

یا

ہمیشہ کی طرح جانا پہچانا غلط سمت میں غلط آغاز

حافظ سعید کی گرفتاری کو ان دونوں میں سے کچھ بھی قرار دیا جا سکتا ہے

لیکن، اہم بات یہ ہے کہ اس گرفتاری میں کچھ اور بھی قابل غور ہے۔۔ مثلاً یہ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ یہ گرفتاری ریاست کی سرپرستی میں اچھے جہادیوں کے ساتھ مذاکرات کے طویل عمل کا آغاز بھی ہے۔

رازداری کی دھند میں لپٹے اور مخصوص ذاتی دلچسپی کے محرکات کے زیر اثر یہ مذاکرات ایک عبقری ذہنیت کے ساتھ تصور پاکستان کو نئے زاویے سے دیکھنے کی بجائے مصلحتوں کے تبادلے کا شکار ہونے کی وجہ سے پائیدار امن کی بجائے مصیبتوں کے نئے دروازے کھولنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

ایسا کیوں ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلے آئیے پہلے ہم برے جہادیوں کے خلاف ریاستی اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں۔۔ برے جہادیوں نے اپنی باقی تمام خرابیوں کے ساتھ ساتھ تین چیزوں کا ادارک کرنے میں ٹھوکر کھائی کہ طویل جنگ میں دشمن پر اپنی افادیت، بچے رہنے کی صلاحیت اور حمکت عملی کی فوقیت کو ثابت کرنا کتنا ضروری ہوتا ہے۔

حکمت عملی کی غلطی تو اسی بات سے واضح ہے کہ ایک محدود عددی طاقت کے ساتھ برے جہادیوں نے اپنے سے کئی گنا عددی برتری کی حامل ریاست کو الٹنے کی کوشش کی۔۔۔ اگرچہ سالہا سال تک ریاست کا موقف گومگو کا شکار رہا لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار رہی کہ برے جہادیوں نے اپنے سے کئی گنا وسائل کی مالک ریاست سے قبل از وقت ایسا پنگا لیا جو ریاست کے لیے اس کی بقا کا مسئلہ بن گیا۔

اس مقام سے آگے، برے جہادیوں کی بقا ان کی محدود عددی طاقت، معاشرے میں عدم رسوخ، مستقل بھرتی فراہم کرنے والے مدارس اور تنظیموں کی عدم دستیابی، کی وجہ سے قریباً نا ممکنات میں سے تھی۔

اور پھر اس طرح برے جہادیوں کی مکمل افادیت، یعنی اگر جہادی تائب بھی ہو جاتے تو انہیں معاشرے اور ریاست میں کہاں کھپا کر استعمال میں لایا جا سکتا تھا ؟ بظاہر کہیں نہیں۔

برے جہادیوں کی افادیت اور با مصرف ہونے کی صرف ایک صورت ہو سکتی تھی اور تھی افغانستان، کیونکہ برے جہادیوں کی اچھی خاصی تعداد پشتون تھی اور ان میں سے جو پنجابی بھی تھے ان کے لیے افغان جہاد اور افغانستان نا آشنا بہرحال نہیں تھے۔

افغانستان میں ان جہادیوں کو کھپانے کے امکان میں الگ رکاوٹیں تھیں۔ اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تو خود افغان طالبان کا توانا پھلتا پھولتا وجود تھا جو اپنے کام خوش اسلوبی سے انجام دے رہے تھے، مزید یہ کہ افغانستان میں امریکہ اور مغرب کو اپنے مفادات، سرمایہ کاری اور اثر و رسوخ کے تحفظ کے پیش نظر ایسا کوئی اقدام سرے سے ہی ناقابل قبول ہوتا۔۔ انسانی فطرت ہے کہ مرض الموت میں مبتلا مریض بھی خود کشی پر آمادہ نہیں ہوتا۔۔

فکرمندی کی اصل بات یہ تو ہے کہ اچھے جہادیوں کے کیس میں یہ تمام عوامل موجود ہی نہیں ہیں۔

سویلین اور عسکری ادارہ جاتی رجحانات کی تاریخ کے پیش نظر اس بات کا شدید خطرہ ہے کہ یہ خفیہ مباحث اس بحث پر منتج ہوں کہ ان جہادیوں کو معاشرے کا حصہ بنایا جائے یا ان کی مکمل طور پر بیخ کنی کر دی جائے۔

ریاستی نقطہ نظر کی روایتی تنگ نظری کو دیکھتے ہوئے ان زیر لب بڑبڑاہٹ نما سرگوشیوں اور خود کلامیوں کے حتمی نتیجے کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

ریاست خود کو کشمیر اور انڈیا کے خلاف لڑنے والوں کا مقروض سمجھتی ہے کیونکہ وہ اگست سنتالیس میں آزادی کے وقت ادھورے رہ جانے والے کام کو مکمل کر رہے ہیں جو کہ ریاستی اداروں کی نظر میں بہرحال ایک عظیم اور مقدس مقصد ہے۔۔ ریاست اس قسم کے عظیم قرض کو بے اعتنائی کے ساتھ نظر انداز نہیں کر سکتی۔

کشمیر کو حاصل کرنے اور انڈیا کو نیچا دکھانے والی سوچ سے مغلوب طبقہ کے لیے مستقل طور پر پیش نظر رہنے والے اور نظر انداز نہ کئے جانے والے عوامل میں سے اچھے جہادیوں کی چند خصوصیات یہ ہیں کہ:

۔ انہوں نے کبھی ہم پر (اندرون ملک) حملے نہیں کئے؛

۔ انہیں جب بھی حکم دیا گیا اس کی تعمیل ہوئی گویا ’’خالی نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی‘‘ اور ان جہادیوں نے کبھی بھی ’’واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا‘‘،

۔ اور یہ کہ یہ اچھے جہادی ہی وہ اثاثہ ہیں جو ’’ کٹھکتا ہے دل یزداں (انڈیا) میں کانٹے کی طرح‘‘

خواہشات، سراب اور خوش فہمیوں کو حقائق سمجھنے کی لت پڑ جائے تو اس نشے سے پیچھا چھڑانا آسان نہیں رہتا

انڈیا کو زیر کرنے اور کشمیر کو فتح کرنے والی ذہنیت کے نزدیک اس لچک دار حمکت علمی میں بقا کی ضمانت ہے اگرچہ یہ اچھے جہادی اپنی افادیت کھو بھی چکے ہوں

اس حکمت عملی میں وقت کی ساتھ مناسب تبدیلی بھی آئی ہے، اب انڈیا کے خلاف نوے کی دہائی والی بھرپور اور مسلسل مسلح گوریلا کارروائیوں کی بجائے وقفے وقفے سے مختلف علاقوں میں اکا دکا مگر چکاچوند کر دینے والی کارروائیاں نظر آتی ہیں۔

یہ بدلی ہوئی حکمت عملی ایک پکڑ میں آئے بغیر اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اصل کام جاری رکھنے کے عبقری منصوبہ کا حصہ ہے۔ مثلاً مساجد، مدارس اور فلاحی تنظیموں کا نظام جہاں نئے خون بھرتی کرنے کے کام آتا ہے وہیں اس کے ذریعے تنظیم کا اثرو نفوذ اور اس کے لیے ہمدردی کے جذبات معاشرے اور سماج کی متعدد تہوں تک بھی پھیل جاتے ہیں۔ ایسے اثر و نفوذ والی تنظیم کو کسی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے لگائے جانے والے نشتر کی چبھن کی طرح خود سماج کی تہوں میں چیر پھاڑ کا بھی باعث بنتی ہے، بلکہ ایسے جیسے کہ چارے کو نگل کر شکار ہونے والی مچھلی سے گوشت کاٹے بغیر نگلے ہوئے کانٹے کو نکالنا ممکن نہیں رہتا۔ اس صورت حال میں یہ حکمت عملی خوف ناک شکل اختیار کر لیتی ہے کہ فلاحی کارروائیوں کا کانٹا نگلنے والے معاشرے کے جیتے جاگتے انسان ہوتے ہیں اور کانٹے کے ساتھ کھنچنے والا گوشت بھی ابن آدم ہی کا ہوتا ہے۔

چنانچہ اچھے جہادیوں کی کم ہوتی ہوئی افادیت نے بھی اگرچہ انہیں کارروائی کی بجائے گفت و شنید کا حق دار تو بنا دیا، ایسی گفت وشنید جس میں ماضی کا قرض اور حال کے حقائق دونوں کی اہمیت مسلمہ ہے۔

حکمت عملی، بچ رہنے کی صلاحیت اور ماضی قریب تک مسلمہ افادیت، ان تینوں عناصر کی کسی بھی ترتیب میں اس سوال کے مقابل رکھ کر دیکھ لیجیے کہ اچھے جہادیوں کا کیا کیا جائے؟

جوں جوں یہ گفت و شنید آگے بڑھتی جائے گی، بالآخر دو ہی چوائسز رہ جائیں گی۔

یا تو ان گروہوں اور تنظیموں کو مکمل طور پر تحلیل کر دیا جائے، ان کا تنظیمی ڈھانچہ مکمل طور پر توڑ دیا جائے، ان کے سربراہان کو بے قیادت اور ان کی صفوں کو نہتا کر دیا جائے۔۔۔ یا۔۔۔۔ انہیں معاشرے کے دھارے میں ایسے ملایا جائے کہ دیومالائی طور پر کل کے جہادی آج کے فلاحی اور سیاسی کارکن کے طور پر سماج کی خدمت میں مصروف ہو جائیں۔

اگر آپ ایک عام شہری ہیں یا ایک ایسے عام شہری جس کی ترجیح ایک خاص قسم کا پاکستان ہے تو آپ کے لیے دونوں میں سے کسی بھی چوائس کی قیمت اور فوائد کا تخمینہ لگانے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے۔

ایسی تنظیموں کی مکمل تحلیل، اگرچہ اپنے آغاز میں بھاری قیمت کی طلب گار ہو گی لیکن یہ چوائس بالآخر پاکستان کو واپس اس شاہراہ پر ڈال دے گی جس پر ان مقاصد جن کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اچھے جہادیوں کے ساتھ کیا کیا جائے کی بحث عام شہری نہیں بلکہ ریاست اور مقتدرہ کر رہے ہیں اور ریاست کے جمع تفریق کے فارمولے بہرحال عام شہری سے مختلف ہی ہوتے ہیں۔

ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ’’ مار دیا جائے یا چھوڑ دیا جائے‘‘ کے درمیان انتخاب بار بار اور بدل بدل کر کرنا ایک ایسی عیاشی ہے جو اس کھیل میں دستیاب ہونا قریباً ناممکن ہے۔

اندازہ لگائیں کہ اس موضوع پر گفتگو کا آغاز کرنا ہی کس قدر مشکل ہے کہ اس نا گزیر گفتگو کا آغاز کرنے میں نوے کی دہائی میں شروع کئے جانے والی پرتشدد تحریک جس نے علاقائی عدم استحکام کو بڑھایا پر دو عشرے، نائین الیون جیسے المیہ پر ڈیڑھ عشرہ اور ممبئی حملے کے بعد قریباً پورے دس سال لگے۔

آج ہم جس شاہراہ کے جس دوراہے پر کھڑے ہیں وہاں ہم نے اچھے جہادیوں کی مکمل بیخ کنی کی بجائے انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے راستہ کو اپنایا تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کل کلاں ہمیں اچھے جہادیوں کی مکمل بیخ کنی کرنے والا راستہ پھر دوبارہ دستیاب ہی نہیں ہوگا۔ اور بالآخر اچھے جہادیوں کی قومی دھارے میں شمولیت ریاست کے وجود اور بقا کے لیے ایک ایسے خطرہ کی شکل اختیار کرسکتی ہے جو برے جہادی بھی باوجود کوشش اور خواہش کے نہ بن سکے۔

مبینہ اچھے جہادیوں کا حل تلاشنے کی بحث جتنی زیادہ خفیہ اور جتنی زیادہ عوامی کی بجائے ریاستی سرپرستی میں ہو گی، اس کے نتائج ہم سب کے لیے اتنے ہی زیادہ مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔

_______________________

سیرل المیڈا کا یہ کالم ڈان میں شائع ہوا جسے \’ہم سب\’ کے لئے سلمان یونس نے ترجمہ کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments