کیا ہر خرابی کی جڑ جنرل ضیا الحق ہے؟


\"\"

کوئی بڑے سے بڑا مسئلہ ہو، ناگہانی آفت ٹوٹ پڑے یا کسی بھی قسم کا صدمہ اٹھانا پڑے، خدا پرستوں کا سب سے بڑا آسرا خدا ہوتا ہے۔ خدا کی مرضی تھی، خدا بہتر کرے گا، خدا جانتا ہے کوئی مصلحت ہو گی، یہ سب کہہ کر اور دل سے مان کر صبر آ جاتا ہے۔

اسی طرح جب بھی کوئی بم دھماکہ ہوتا ہے، یا دہشت گردی کی بات ہوتی ہے، یا کہیں اسلحہ پکڑا جاتا ہے یا بنیاد پسندی کے فروغ کی بات ہوتی ہے تو لے دے کر ایک نام ضیا الحق کا بچتا ہے۔ ان پر یہ تمام ملبہ ڈال کر سب ہاتھ جھاڑتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔ بات بھی درست ہے۔ ضیا دور کے مظالم اور اس عرصے میں ہوئے بنیاد پرستی کے فروغ سے ہم سب واقف ہیں۔
لیکن ضیا دور ختم ہوئے پچیس برس گذر چکے ہیں۔ جو ایک صدی کا چوتھائی حصہ بھی کہلایا جا سکتا ہے۔ تو یوں کہہ لیجیے کہ چوتھائی صدی بعد بھی ہمیں دہشت گردی کی ہر واردات ضیا دور کی یاد دلاتی ہے۔ بہترین ہو گیا۔ اس دور کے بعد جتنی بھی حکومتیں آئیں یا مارشل لا نما ماحول بنا، سب اپنی اپنی جگہ مظلوم تھے۔ کسی کو وقت سے پہلے رخصت کر دیا گیا، کسی کو لاشوں کے تحفے ملے، کسی نے جیلیں اور جلا وطنیاں بھگتیں، کوئی سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر واپس گیا تو پاسپورٹ کی وقعت دنیا کے آخری نمبروں پر تھی اور ہے، اور کوئی ابھی تک سڑکوں کے جال میں عوام کو پھنسا رہا ہے۔

ان پچیس برس میں جتنی بھی حکومتیں رہیں چاہے وہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی، ان کی ترجیحات کیا رہیں۔ کیا ان میں سے کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ دہشت گردی اور بنیاد پرستی کی بلا منہ کھولے ہمارے دروازے پر بیٹھی ہے؟ پاک افغان بارڈر بند کرنے کی بات ابھی سال دو سال پہلے شروع ہوئی اور کبھی بند ہوا کبھی کھل گیا۔ مزید تفصیل چاہئیے تو بھائی فیض اللہ خان کی کتاب دیکھ لیجیے۔ کس سہولت سے آنا جانا ہوتا ہے، اور ہو رہا ہے، تمام وضاحت موجود ہے۔ کیا اس تمام عرصے میں کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو اس خطرے کو محسوس کر پاتا؟

\"\"
مدرسوں کی بات ہی چھوڑئیے، نصابی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ وہ کتابیں جو سرکاری اور پرائیویٹ تمام اداروں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ تعلیم کا بنیادی مقصد ہمارے پاس اپنے بچوں کو اپنے دماغوں کے مطابق ڈھالنا رہ گیا ہے۔ اس کا ثبوت ہمیں ہر دو صفحات کے بعد چیختا ہوا نظر آتا ہے لیکن توجہ نہیں دی جاتی اور نہ کوئی اسے بدلنا چاہتا۔ ہمارے دماغ وہی ہیں جن کی سہولت کاری نے آج یہ دن دکھایا ہے۔

پرتشدد احتجاجی مظاہرے، مذہبی اور مسلکی نفرتیں، مار پیٹ، توڑ پھوڑ یہ سب ہمیں پچھلے تیس چالیس برس سے ہوتا نظر آ رہا ہے لیکن کبھی ایک بار بھی اس کی وجہ ختم کرنے کی طرف ہمارا دھیان نہیں جاتا، وجہ ہماری بنیادی تعلیم ہے۔ جو ضیا دور کے پچیس چھبیس برس بعد بھی ویسی کی ویسی ہے۔ بنیادی تعلیم اگر صرف یہ سکھاتی ہے کہ صرف ”ہم“ ٹھیک ہیں تو ہر فرد انفرادی طور پر خود کو ٹھیک سمجھتا ہے اور جب اسے دس پندرہ لوگوں میں بیٹھنا پڑے جو مختلف سوچ کے ہوں تو وہ کبھی ایڈجسٹ نہیں کر پاتا۔ یہ ایڈجسٹ نہ کر پانا ہی تمام فساد کی جڑ ہے۔

صرف ہم ٹھیک ہیں کی معمولی مثال وہ بیس اضافی نمبر ہیں جو ہمارا تعلیمی نظام ہر حافظ قران بچے کو دیتا ہے۔ حفظ کرنا ذہانت کی بات ہے، ایسے دماغ کو سراہئیے لیکن اگر کوئی مسیحی یا سکھ یا ہندو اپنی کتاب کا حافظ ہے یا متبادل مذہبی معاملات پر عبور رکھتا ہے تو ایسے کوئی بھی نمبر ہمارا تعلیمی نظام پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یا اسلامیات کے متبادل اخلاقیات کا مضمون پڑھانے کی مثال دیکھ لیجیے۔ یعنی غیر مذہب والے اپنی مذہبی کتاب نہیں پڑھ سکتے، میٹرک ہو، ایف اے ہو، بی اے ہو، کوئی انتخاب ہو سکتا ہے تو وہ اخلاقیات کا مضمون ہے۔ اور یہ ہمارے آئین کے آرٹیکل بیس سے متصادم ہے جو تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ کیا ان پچیس برس میں آرٹیکل بیس یا بائیس نے کسی کے دماغ پر دستک نہیں دی؟

تمام کالعدم جماعتیں نام بدل کر گھومتی ہیں، باوجود سخت ترین چیکنگ اسلحے کی برسات ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہی، رکشوں کے پیچھے تک فرقہ وارانہ نعرے کھلے عام لکھے نظر آتے ہیں، ہم لٹھ لے دہشت گرد ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کوئی پولیس، کوئی فوج اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک ریاست کی پالیسی غیر مبہم اور واضح نہ ہو جائے۔ پچیس برس میں یہ سب کچھ سنبھالا نہیں جا سکا جب بھی کچھ ہوا الزام ضیا پر دھرا اور کان لپیٹ کر آگے بڑھ گئے۔ اے پی ایس کا سانحہ، چارسدہ میں قتل عام، کوئٹہ والا دھماکہ، یہ سب ابھی ہوئے ہیں۔ ان سب زخموں پر ابھی کھرنڈ تک نہیں آئے تھے کہ دوبارہ یہ سلسلہ دراز ہو گیا، ان کا ذمہ دار بھی ضیا دور ہے؟

سوال یہ ہے کہ سوائے ضیا دور کی خرابیوں کا ورد کرنے کے، ہم نے پچیس چھبیس یا ستائیس برس میں کیا سیکھا؟ خود سے کیا کوشش کی، قوم کی سطح پر کیا کوشش ہوئی، حکومتوں نے کیا کیا، ہئیت مقتدرہ کی پالیسیاں کس حد تک کامیاب ہوئیں؟ اب ریاست کے لیے اس سوال سے جان چھڑانا مشکل ہے۔

جواب میں ایک لمبی فہرست گنوائی جا سکتی ہے لیکن حاصل وہی تصویر ہے جو سہون شریف کے ایک ملنگ کی ہے۔ لال چادر میں اس کی لاش بنچ پر پڑی ہے۔ ساتھ ایک اور بزرگ لال صافہ گلے میں ڈالے بیٹھے ہیں۔ میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں، میری دھرتی لالوں لال!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments