پٹھان جنگجو کے عروج و زوال کے بارے میں ونسٹن چرچل کے تاثرات


مالاکنڈ اور سوات کے بارے میں چرچل کی کتاب ’دا سٹوری آف مالاکنڈ فیلڈ فورس‘ میں 1897 میں رقم کیے گئے تاثرات۔ لگتا ہے کہ سو سال میں کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔

اس ریاستی معاشرے میں جائیداد اسی کی ہے جس کے پاس زیادہ طاقت ہے۔ اس معاشرے کا ہر فرد سپاہی ہے۔ ایک فرد جو کبھی کسی خان کا ملازم تھا، اس نے اسلحے کی طاقت سے ایک دن خود نوابی حاصل کر لی یا کم از کم وہ اپنے گاؤں کا حاکم بن بیٹھا۔ ازمنہ وسطی کی تاریخ میں مراعات یافتہ طبقہ بھی یورپ میں ایسے ہی کرتا رہا ہے۔

ایسے حالات میں ایک اولوالعزم پٹھان کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے کہ وہ زوال سے اٹھ کر اقتدار میں آ جائے۔ پہلے پہل وہ نہایت محنت اور جانفشانی سے اپنے اس کھلیان پر کاشت کرتا ہے جو کہ اس کے خاندان کے پاس اس وقت سے ہے جب سے انہوں نے اس کے سابقہ مالک کو اس سے بے دخل کیا ہے۔ وہ چپکے چپکے کچھ پیسے جمع کرتا ہے۔

\"\"

ان پیسوں سے وہ  کسی نڈر چور سے رائفل خریدتا ہے جس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر فرنٹیئر گارڈ ہاؤس سے یہ چھینی تھی۔ اب وہ ایک ایسا آدمی ہے جس سے سب خوف کھاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر پر ایک مینارہ تعمیر کرے گا۔ اس سے دشمنوں پر نظر رکھی جائے گی اور گولیاں برسائی جائیں گی۔ پھر وہ اپنے گاؤں میں بہت ہی فخر سے گھومے گا۔ ارد گرد کے دیہات میں اس کی دھاک بیٹھ جائے گی۔ آہستہ آہستہ اس کا رعب بڑھتا جائے گا۔ اس کی حکومت اپنے گاؤں پر قائم ہو چکی ہے۔ اس کے بعد اس کا حکمرانی کرنے کا شوق بھی بڑھتا جائے گا۔ اس کے لیے وہ اپنے پڑوسیوں کو اکٹھا کر کے قریبی خان کے قلعہ پر حملہ کرے گا۔ حملہ کامیاب رہے گا، خان قتل ہو جائے گا یا جان بچا کر فرار ہو جائے گا اور قلعہ اس حملہ آور کے ہاتھ آ جائے گا۔ اس کے ساتھی اس کو فاتح کا خطاب دیں گے۔ تب وہ ایک مکمل سردار بن جائے گا۔ قلعے کے رہائشی اس کے ساتھ معاملات طے کر لیں گے۔ اپنی زمین کے بدلے وہ نئے خان کا جنگ میں ساتھ دیں گے۔

\"\"

اس کے بعد وہ وحشی سردار بن کر اپنے ہی ساتھیوں کو ظلم کا نشانہ بنائے گا تو اس کے ستم رسیدہ ساتھیوں یا ملازموں کو کوئی اور خان بندوقوں سمیت خرید لے گا۔ اگر وہ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے گا تو مزید مسلح لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لے گا۔ اپنے پڑوسی دو یا تین خانوں کو فتح کرے گا۔ وہ اب علاقے کی طاقتور ترین شخصیت بن چکا ہے۔

بہت سی، شاید تمام، ریاستیں اسی انداز میں بنی ہیں اور شاید یہی مدارج ہیں جن سے کوئی تہذیب اپنے ابتدائی مراحل میں گذرتی ہے۔ لیکن ان وادیوں میں لوگوں کی جنگجویانہ فطرت اور تسلط سے نفرت مزید ترقی سے روک دیتی ہے۔ ہم نے ایک بہت قابل، جز رس، بہادر شخص دیکھا جو کہ اپنے زور بازو سے طاقت پاتا گیا، لوگوں کو ساتھ ملاتا اور اپنا شریک بناتا گیا، اور اس نے معاشرے کی پیچیدہ اور باہمی مربوط حالت پر مستحکم بنیادیں قائم کیں۔ وہ ابھی تک کامیاب ہے۔ لیکن اب اس کی کامیابی میں ہی اس کی تباہی ہے۔ اس کے خلاف ایک اتحاد تشکیل پاتا ہے۔ ارد گرد کے سردار اور ان کے ماننے والوں کو دیہاتیوں کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ جاہ طلب پٹھان اس تعداد کے باعث تباہ ہو جاتا ہے۔ فاتحین کا مالِ غنیمت پر جھگڑا ہوتا ہے اور کہانی ویسے ہی ختم ہو جاتی ہے جیسے یہ شروع ہوئی تھی، یعنی خون خرابے اور جھگڑے میں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments