نواز شریف کابینہ، آئن سٹائن اور جو کا دلیہ


\"waqarوزیر اعظم نواز شریف کے چہرے پر خفگی کے آثار تھے ۔ کمرے میں داخل ہوئے تو پارٹی رہنما ادب سے کھڑے ہو گئے ۔

وزیر اعظم نے برہمی سے پرویز رشید کی جانب دیکھتے ہوئے کہا، کیا افتا د ٹوٹ پڑی ہے پرویز صاحب رات دو بجے سب کو اکٹھا کرنے کی اور میں آپ سے فون پر پوچھ رہا ہوں کہ مسئلہ کیا ہے وہ بھی آپ نہیں بتا رہے۔

پرویز رشید نے گلہ صاف کیا اور کہا ، سر معاملہ ہی کچھ ایسا حساس ہے ۔بات یہ ہے کہ ۔۔ وہ ۔۔وہ

’کھل کر بولیں پرویز صاحب ‘ وزیر اعظم نے خفگی سے کہا

سر آپ کو معلوم ہے بہاولپور اور دادو میں ہماری دو مشاہدہ گاہیں Laser Interferometer Gravitational-Wave Observatory کے نام سے قائم ہیں۔

مجھے بھی رات کو بارہ بجے رانا تنویر حسین نے فون کیا اور بتایا کہ وہ…. وہ…. ہم نے کشش ثقل کی لہریں ریکارڈ کیں ہیں ۔

کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ وزیرا عظم کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہیں تھیں۔ انہوں نے فورا سامنے رکھی پانی کی بوتل اٹھائی اور بغیر گلاس میں انڈیلے بوتل سے ہی پانی پینے لگے۔ پارٹی رہنماﺅں کو وزیر اعظم کی پریشانی کا اندازہ ہو چکا تھا، وزیر اعظم نشت و برخاست میں روایتی رکھ رکھاﺅ کے عادی تھے۔ ان سے اس طرح کی حرکت کی امید نہیں کی جا سکتیں تھیں۔ اور اسی بے دھیانی میں وہ پوری بوتل پانی کی پی گئے۔ بوتل کو پکڑے وزیر اعظم کے کانپتے ہاتھ معاملے کی حساسیت کا اندازہ دے رہے تھے۔

وزیر اعظم نے پانی پینے کے بعد پرویز رشید کی جانب دیکھا۔ پھر رانا تنویر حسین کی جانب سپاٹ چہرہ لیے گھورا۔

وزیر اعظم کے منہ سے صرف اتنا ہی جملہ نکل پایا، ’تم کو معلوم ہے تم لوگ کیا کہہ رہے ہو‘

رانا ثنا ءاللہ نے کہا ، سرمشاہدہ تو ہم نے 14 ستمبر 2015 کو کر لیا تھا لیکن….

لیکن کیا؟ اور تم لوگ مجھے اب بتا رہے ہو۔ وزیر اعظم کے لہجے میں سختی تھی۔

خواجہ سعد رفیق نے گلا صاف کیا اور کہا، آپ کی طبیعت سے واقف ہیں۔ ہم اس وقت تک آپ کو نہیں بتانا چاہ رہے جب تک ہمیں سو فیصد یقین نہ ہو جائے۔

وزیر اعظم نے رانا تنویرحسین کی طرف مڑتے ہوئے پوچھا، ’تفصیلات کیا ہیں ‘

سر دو بلیک ہولز ہیں؟ رانا تنویر حسین نے بتایا

اممم گڈ ، کیا حجم ہے ان بلیک ہولز کا؟ نواز شریف نے پوچھا

سر ایک 36 سولر ماس اور دوسرا 29 سولر ماس کا تھا؟ رانا تنویر حسین نے جواب دیا۔

میاں نواز شریف کے چہرے پر ایک بار پھر تشویش نمایا ں ہونے لگی

لمبائی چوڑائی کتنی تھی ان بلیک ہولز کی؟ میاں نواز شریف نے پوچھا

سر ایک سو پچاس کلومیٹر یعنی صرف ایک سو پچاس کلومیٹر میں 36 اور 29 سورجوں کی کمیت

\"maxresdefault\"میاں نواز شریف کے چہرے پر پہلی بار ایک طنزیہ مسکراہٹ آئی اور کہا، رانا صاحب بنیادی سائنس پڑھانے کی کوشش نہ کریں تھوڑی شد بد ہم بھی رکھتے ہیں۔ اب تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ تو بہت چھوٹے بلیک ہولز ہیں۔

خواجہ آصف کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے۔ اچانک بولے، میاں صاحب کیا ہمیں سکیل پر توجہ دینی چاہیے ؟ ہماری توجہ کا مرکز تو نتیجہ ہو نی چاہیے اور نتیجہ ایک معجزے سے کم نہیں۔ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کی یہ آخری بات بھی سچ ثابت ہوئی۔ سر ہم Theory of every thing کی جانب جا رہے ہیں ۔ سر روشنی کی لہروں کے بعد اب کشش ثقل کی لہروں سے ہم کیا ہے جو نہیں جان پائیں گے۔ میاں صاحب انسان کے چاند پر قدم رکھنے سے کہیں بڑا قدم ہے یہ…. سر یہ گلیلیوکے کارنامے جتنا کارنامہ ہے ، کائنات کے راز سامنے ہوں گے سر اور بات یہ ہے سر کہ ….

بس کر دیں خواجہ صاحب ۔۔وزیرا عظم نے ٹوکا، آپ سائنس کے حوالے سے بہت جذباتی ہیں۔ اور میں ان جذبات کی قدر کرتا ہوں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ واقعی اتنا ہی بڑا کارنامہ جیسا آپ نے بیان کیا ہے لیکن مجھے آپ یقین تو دلائیں کہ واقعی ایسا ہو چکا ہے۔ ہماری مشاہدہ گاہ میں لیزر لائیٹ کے سفر کرنے کا کتنا فاصلہ ہے؟

رانا تنویر حسین نے بتایا کہ ساڑھے چار کلومیٹر ہے

وزیر اعظم نے کہا کیاایسا ممکن ہے کہ ہم اس خبر کو فی الحال راز رکھیں کیونکہ آپ کو معلوم ہے کہ جیسے ہی یہ خبر دنیا کو دی گئی تو خوشی سے ایک ہنگامہ کھڑا ہو جائے اور خدا نہ کرے کہ بعد میں یہ بات غلط ثابت ہو۔ میرا خیال ہے کہ آپ مشاہدہ گاہ کے بازوﺅں کی لمبائی بیس کلومیٹر تک لے جائیں۔ بجٹ کی پرواہ نہ کریں۔ یہ انسانیت کے لیے بہت بڑی جست ہے ہم اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ میں اس لیے بھی محتاط ہوں کہ پہلے امریکہ میں ایک دفعہ ایسی غلط فہمی ہو چکی ہے جس میں بعد میں پتہ چلا کہ وہ کشش ثقل کی لہریں نہیں بلکہ کائناتی گرد تھی۔

پورے کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ آخر رانا مشہود نے اس خاموشی کے وقفے کو توڑا اور کہا، سر آپ سائنس سے واقفیت رکھتے ہیں۔ سائنسی قوانین سکیل پر منحصر نہیں ہوتے۔ ہم دس کی طاقت منفی اکیس کی سطح پر کام کر رہے ہیں جو پروٹان سے ہزاروں گنا کم سطح ہے۔ آپ کے اس فیصلے سے ہمارے سائنسدانوں میں مایوسی پیدا ہو گی، آپ جس طرح کا یقین چاہتے ہیں ہم دلانے کو تیار ہیں لیکن مہربانی کر کے بین الا قوامی پریس کانفرنس بلانے کا اہتمام کریں۔

میاں نواز شریف کچھ دیر سوچتے رہے۔ پھر میز پر جھکتے ہو ئے پوچھا، یہ جس کہکشاں کے بلیک ہولز ہیں وہ کہکشاں یہاں سے کتنی دور ہے ،

بلال یا سین نے فورا جواب دیا، میاں صاحب 1.2 ارب نوری سال کے فاصلے پر….

اللہ اکبر، میاں صاحب کے منہ سے نکلا، پھر پوچھا۔ جب یہ ٹکرائے تو کیا رفتار تھی ؟

سر تقریبا ایک لاکھ میل فی سیکنڈ ۔۔بلال یاسین نے ہی جواب دیا

او کے اب ذرا سوچ کے جواب دینا، میاں صاحب نے کہا…. یہ بتاﺅ کہ ان دو بلیک ہولز جو میرے خیال کے مطابق چھوٹے تھے ، ان کے ٹکرانے سے اتنی توانائی پیدا ہو سکتی ہے کہ1.2 ارب نوری سال کا سفر کر کہ ہماری زمین تک کشش ثقل کی لہریں پہنچ سکیں، مطلب میرے کہنے کا یہ ہے پرویز رشید صاحب کیا اس بلیک ہول نے وقت اور مکان کی اس چادر میں اتنا انتشار پیدا کیا ہو گا؟

پرویز رشید نے کہا، جی ہاں سر 29 اور36 سورجوں کی کمیت کے حامل یہ بلیک ہولز جب ٹکرائے تو حسابی اعتبار سے 65 سورجوں کی کمیت والا ایک بڑا بلیک ہول بننا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ نئے بننے والے بلیک ہول کی کمیت 62 سورجوں کی کمیت کے برابرہے، باقی تین سورج کی کمیت کے برابر توانائی ان کے ٹکرانے سے خارج ہوئی جس نے وقت اور مکان کی چادر میں اتنا انتشار پیدا کیا کہ زمین تک 1.2 ارب سال بعد اثرات آئے ۔

میاں صاحب نے ستائشی نظروں سے پارٹی راہنماﺅں کی جانب دیکھا۔ ان کے چہرے پر تناﺅ کی کیفیت کم ہو چکی تھی۔ انہوں نے رانا تنویر سے پوچھا، ’ ہمارے ڈیٹیکرز نے جو سگنل ریکارڈ کیا ہے اس کی طوالت کتنی ہے؟

رانا صاحب نے بتایا کہ اس کی مدت منفی دو سیکنڈ ہے

گڈ گڈ گڈ ، ٹھیک ہے بین الاقوامی پریس کانفرنس کا اہتمام کریں پرویز رشید صاحب ، لیکن مجھے پہلے تھوڑا وقت دیں میں عمران خان اور خورشید صاحب کو بتا دوں کیونکہ ا س پروجیکٹ میں سب سے زیادہ دلچسپی عمران خان صاحب لے رہے تھے ۔ بلکہ پچھلے دنوں میرے علم میں آیا کہ کہیں درہ آدم خیل کے پاس وہ ایک مشاہدہ گاہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ دوسرا کوئی اہم حکومتی سطح کی خبر آپ نے میڈیا کو دینی ہو تو دے دیں ، کیونکہ آپ کو پتہ ہے پرویز صاحب ایک دفعہ ہم نے یہ خبر دے دی تو پھر ہمارے اخبارات اور ٹیلی ویژن چینل تین دن اسی ایک خبر پر ہی کام کریں گے

پرویز رشید نے کہا، نہیں سر ایسی کوئی خبر نہیں ہے ، ہمیں اب یہ خبر دے دینی چاہئے ، لیکن پہلے آپ خان صاحب اور خورشید شاہ صاحب سے بات کر لیں۔

میاں صاحب کے چہرے پر طمانیت نظر آ رہی تھی ۔ خوشگوار موڈ میں کہنے لگے، اچھا ہوا یار، جب کراچی جاتا ہوں قائم علی شاہ شکوہ کرتے ہیں کہ کشش ثقل کی لہریں کب دریافت ہوں گی، ہم مر گئے تو دریافت ہو بھی گئیں تو کیا فائدہ….

کمرے کی فضا ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعروں سے گونج رہی تھی، میاں صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے سب کو چپ کرایا اور سختی سے کہا، پرویز رشید صاحب اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ خبر بہت زیادہ پاکستانیت کے شیرے میں نہ نچڑ جائے ، یہ دریافت پوری انسانیت کے لیے ہے اور تمام انسانیت کے لیے یہ فخر کا مقام ہے ، مجھے کہیں تعصب نظر نہیں آنا چاہیے ۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دیں۔ مجھے کو ئی چھچھوری حرکت نظر نہ آئے۔

(پس نوشت: میں ہڑ بڑا کر اٹھا، دل کی دھڑکن تیز تھی ، بیوی نے پوچھا خیریت ہے کیا ہوا، میں نے کہا ۔۔۔نہیں نہیں ۔۔بس ایسے ہی خواب دیکھ رہا تھا۔ کہنے لگی ہزار دفعہ کہا ہے جو کا دلیہ ناشتے کی چیز ہے ، رات کو نہ کھایا کریں ۔ گیس کرتا ہے ۔ جب آپ جو کا دلیہ رات کو کھاتے ہیں ایسے ہی بڑ بڑاتے رہتے ہیں۔

میں نے کہا سنو، آئندہ میں ہر رات جو کا دلیہ ہی کھا کر سویا کروں گا۔ یہ کہہ کر میں نے کروٹ کی اور آنکھیں میچ کر وزیرا عظم کی پارٹی راہنماﺅں سے میٹنگ کو پلکوں کے اندروں سجانے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن میٹنگ کے شرکاءدوبارہ آنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ میری آنکھ کھل چکی تھی اور سر کے نیچے تکیہ آنسوﺅں سے گیلا ہو رہا تھا)

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
11 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments