طالبان، میڈیا اور ہیری پوٹر کے ڈیمینٹور


جے کے رولنگ کی ہیری پوٹر سیریز کی کتابیں دنیا بھر میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کر چکی ہیں۔ ہیری پوٹر کی اس جادوئی دنیا میں مختلف طلسمی مخلوقات کا بیان بھی ہے۔ ان میں سے ایک ڈیمینٹور ہے۔ ڈیمینٹور زمین پر موجود غلیظ ترین مخلوقات میں سے ہیں۔ ان کا جسم ایک گلی سڑی لاش جیسا ہوتا ہے۔ چہرے پر آنکھوں کی جگہ مردہ کھال ہوتی ہے۔ وہ ایک سیاہ لبادہ اوڑھتے ہیں جن میں ان کا چہرہ پوشیدہ ہوتا ہے۔ وہ مایوسی اور تباہی میں پھلتے پھولتے ہیں۔ وہ امن، امید اور خوشی کو اپنے ارد گرد سے ختم کر دیتے ہیں۔ جب وہ کسی انسان کے قریب پہنچتے ہیں تو اس سے ہر خوشگوار جذبہ اور ہر اچھی یاد چھین لیتے ہیں۔ جب وہ کسی انسان کے نزدیک پہنچتے ہیں تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف تاریکی چھا گئی ہے۔ اس کا سینہ جکڑا گیا ہے۔ خوفناک ترین یادیں اسے گھیر لیتی ہیں۔ وہ زمین پر گر جاتا ہے۔ اس وقت ڈیمینٹور اس پر چھا جاتا ہے، اپنا چہرہ اس کے قریب لاتا ہے اور اپنے سر سے لبادہ ہٹا کر اس انسان کے لبوں سے اپنا منہ ملاتا ہے اور اس کی روح چھین لیتا ہے۔ وہ انسان پھر کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا اور کومے میں چلا جاتا ہے اور زندہ لاش بن جاتا ہے۔

طالبان کا بھی یہی مقصد ہے۔ وہ بھی ہمیں اتنا زیادہ خوفزدہ کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھیں۔ خوف سے دبک جائیں۔ ہماری ہر خوشی ختم ہو جائے۔ تاریک ترین یادیں ہمیں گھیر لیں۔ ہم زمین پر گر جائیں اور وہ ہماری روح چھین کر ہمیں ایک زندہ لاش بنا ڈالیں۔

آرمی پبلک سکول کا حملہ ہو یا چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی کا۔ داتا دربار میں دہشت گردی ہو یا لعل شہباز قلندر کے مرقد پر۔ اسلام آباد کچہری پر حملہ ہو یا مردان پر۔ پشاور میں حملے ہوں یا کوئٹہ کے ہسپتال میں۔ مقصد ایک ہی ہے۔ ہم خوفزدہ ہو جائیں۔ جب کوئی گھر سے نکلے تو ہم سہمے رہیں کہ وہ لوٹے گا کہ نہیں۔ جب ہمارا بچہ سکول جائے تو ہم اس کی سلامتی کی دعائیں مانگتے رہیں۔ ہم سڑکوں بازاروں میں جانے سے کترائیں۔ ہر اجنبی چہرے سے ہمیں خوف آئے۔ مسجد میں یا جنازے میں نماز پڑھتے ہوئے ہم سہمے رہیں۔ طالبان کا یہی مقصد ہے۔ وہ خوف کے ہتھیار سے ہمیں زیر کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہم مقابلہ کرنے کا سوچیں بھی نا اور چپ چاپ ان کے تمام مطالبات مان لیں۔ ان کو اپنا حکمران تسلیم کر لیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ جس قوم میں حوصلے کی جگہ مایوسی جگہ پا لے وہ طاقتور ہو کر بھی ہتھیار ڈال دیتی ہے۔

بدقسمتی سے ہمارا بریکنگ نیوز کا بھوکا میڈیا زیادہ ریٹنگ پانے اور چند ٹکے کمانے کی خاطر اس مشن میں طالبان کی بھرپور مدد کر رہا ہے۔ دہشت گردی جیسے حساس موضوع پر وہ لائیو کوریج کر کے دہشت گردوں کی مدد کر رہا ہے۔ طالبان کے سوشل میڈیا پیجز تک اس میڈیائی بریکنگ نیوز کو اپنی کامیابی کے اعلانات کے ثبوت میں پیش کر رہے ہیں۔

آج صبح لاہور میں ڈیفینس کے علاقے میں دھماکہ ہوا جس میں 9 افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہوئے۔ دھماکا اس قدر شدید تھا کہ قریبی عمارتوں اور دکانوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور پارکنگ میں کھڑی متعدد گاڑیاں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ پہلے پولیس اور کاؤنٹر ٹیرر ازم کے حکام نے اسے بم دھماکہ قرار دیا جس میں دس کلوگرام تک بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا۔ یہ بھی کہا کہ گولیوں کے خول ملے ہیں اور یہ تحقیق ہو رہی ہے کہ دھماکہ ٹائم بم سے ہوا یا پھر ریموٹ کنٹرول سے۔ پھر رات گئے پولیس اور سی ٹی ڈی نے اپنے صبح کے موقف سے رجوع کرتے ہوئے اسے گیس سلینڈر کا دھماکہ قرار دے دیا۔

ایسے حساس معاملے پر پولیس اور سی ٹی ڈی کے یہ بار بار بدلتے ہوئے موقف بوکھلاہٹ کا اظہار کر رہے ہیں اور شہری ان پر اعتبار کرنے کو تیار دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ خاص طور پر متاثرہ علاقے کے رہائشی اسے تخریب کاری قرار دے رہے ہیں۔

جس وقت پورا لاہور سہما ہوا تھا اسی وقت 29 نیوز چینلوں پر خبر چلنے لگی کہ گلبرگ کے ایک ریستوران میں بھی دھماکہ ہو گیا ہے۔ اس سے شہریوں میں واضح طور پر وہ خوف پھیلتا دکھائی دیا جو کہ دہشت گرد پھیلانا چاہتے ہیں۔ جب پورا شہر خوف کے دبیز کہر میں ڈوب گیا تو یہ خبر اچانک ٹی وی سکرین سے ہٹ گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیمرا کے مطابق اسے سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی کے متعلق بھی شکایات موصول ہوئی ہیں کہ اس نے بھی یہ خبر چلائی تھی۔ پیمرا نے ان 29 ٹی وی چینلوں کو غلط خبر چلا کر دہشت پھیلانے پر نوٹس جاری کیا ہے مگر پی ٹی وی کو اپنے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ میڈیا کس کی مدد کر رہا ہے، حکومت کی یا دہشت گردوں کی؟ خوف پھیلانا دہشت گردوں کا ہدف ہے اور آج کے دن میڈیا نے دوبارہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ خوف پھیلانے کے کاروبار کا حصہ ہے۔

ہمارے یہ بریکنگ نیوز چینل بھی ہیری پوٹر کے ڈیمینٹور کی طرح مایوسی اور تباہی میں پھلتے پھولتے ہیں۔ وہ امن، امید اور خوشی کو اپنے ارد گرد سے ختم کر دیتے ہیں۔ جب وہ کسی انسان کے قریب پہنچتے ہیں تو اس سے ہر خوشگوار جذبہ اور ہر اچھی یاد چھین لیتے ہیں۔ جب وہ کسی انسان کے نزدیک ہوتے ہیں تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف تاریکی چھا گئی ہے۔ اس کا سینہ جکڑا گیا ہے۔ خوفناک ترین یادیں اسے گھیر لیتی ہیں۔ وہ زمین پر گر جاتا ہے۔ اس وقت میڈیا کا ڈیمینٹور اس پر چھا جاتا ہے، اپنا چہرہ اس کے قریب لاتا ہے اور اپنے سر سے لبادہ ہٹا کر اس انسان کے لبوں سے اپنا منہ ملاتا ہے اور اس کی روح چھین لیتا ہے۔ وہ انسان پھر کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا اور کومے میں چلا جاتا ہے اور زندہ لاش بن جاتا ہے۔

کیا یہ ردِ فساد بھی کیا جائے گا؟ کیا حکومت کو اب ٹی وی چینلوں کو اس بات کا پابند کرنا پڑے گا کہ وہ بریکنگ نیوز دینا چھوڑ دیں اور ہر گھنٹے یا دو گھنٹے بعد ہی نیوز بلیٹن دیا کریں؟ کیا میڈیا خود کچھ عقل کرے گا یا ڈیمینٹور کا رول ادا کرتا رہے گا؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments