وزیراعظم ’تُن دینے‘ سے رد فساد کریں گے


لگ یہی رہا تھا کہ وزیراعظم کو نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ آیا مہمان صحافی کیا کر رہا۔ وہ بھائی لہراتا ہوا پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ آگے نوازشریف راحیل شریف اور سینیر افسران جا رہے تھے۔ بھائی صاحب اپنے بے بی کیمرے سے ریکارڈنگ کر رہے تھے۔ کوئی انہیں روک بھی نہیں رہا تھا کہ وزیراعظم کا مہمان ہے۔ افسران بول بھی کم کم ہی رہے تھے۔ یہ سوات کا دورہ ہو رہا تھا۔ جہاں وزیراعظم اپنے دوست صحافی کو ساتھ لے گئے تھے۔

جب بریفنگ سٹارٹ ہونے لگی تو صحافی تب بھی ریکارڈنگ کر رہا تھا۔ بریفنگ کے دوران افسر نے کہا کہ سر جن لوگوں کو ہم پکڑتے ہیں وہ عدالت سے رہا ہو جاتے ہیں ان کے کیس فیصلہ ہی نہیں ہوتے۔ یہ سن کر نوازشریف نے پیچھے مڑ کر کہا شاہ جی کیمرہ بند کرو عدالت کی بات ہو رہی ہے۔ ایسے مواقع کے لیے ہمارے وزیراعظ کا پسندیدہ لفظ ہے تن دیو۔ پشاور سکول کا واقعہ ہوا تو فوجی عدالتیں پھر بھی بنانی پڑی تھیں۔

آگے چلتے ہیں۔

ٹی ٹی پی نے ایک تصویر جاری کی ہے نجیب احمد سواتی کی۔ یہ تصویر اس دعوے کے ساتھ جاری کی گئی ہے کہ یہ ملا فضل اللہ کے صاحبزادے ہیں۔ نجیب احمد کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے بنوں میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی پر خود کش حملہ کیا جس میں وہ مارے گئے۔ یہ ایک اہم ڈویلپمنٹ ہے جو یہ بتاتی ہے کہ شدت پسند فائنل راؤنڈ کے لیے ہر حد پر جانے کو تیار ہو گئے ہیں۔ شدت پسند اب کھل کر لڑنے مرنے کو نکل آئے ہیں۔ ان کی ساری تنظیمیں اکٹھی بھی ہو گئی ہیں۔ جماعت الاحرار البتہ الگ ہی سرگرم ہےاور اسی نے آپریشن غازی شروع کر رکھا ہے۔

شدت پسندوں کی یہ کارروائی ایک قسم کا ٹیسٹ بھی تھا۔ وہ نئی فوجی قیادت کو میدان عمل میں آزمانا چاہ رہے تھے۔ جنرل باجوہ نے ایک بیان جاری کیا کہ خون کے ہر قطرے کا حساب لیا جائے گا۔ افغانستان میں امریکی کمانڈر سے بات کی اور دو تین گھنٹوں کے اندر ہی پاک افغان باڈر پر شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو ٹارگٹ کیا گیا۔ افغانستان حکومت کے اعتراض کو پاکستان اور امریکہ دونوں نے مسترد کر دیا۔

وزیر اعظم آرمی چیف نے مختلف قسم کے مشترکہ اجلاس کیے۔ پالیسی طے کی گئی جس میں آرمی چیف کے پاس تمام اختیارات ہوں گے اور دہشت گردی کا صفایا ہو گا۔ پنجاب میں رینجرز کو بلا لیا گیا ہے۔ وزیراعظم فیصلے لے کر سکون سے ترکی کے دورے پر چلے گئے ہیں۔ آپریشن رد فساد کا آغاز ہو گیا ہے۔

یہ سب کچھ ہوا ہے اس میں بہت کچھ قابل غور ہے۔ ڈرتے ڈرتے عرض ہے کہ حکومت نے سیاسی قیادت کی حمایت یا مخالفت کا انتظار کیے بغیر فیصلہ کر لیا ہے۔ فوجی عدالتیں قائم کرنے پر اتفاق ہوتا ہے یا نہیں۔ آپریشن شروع ہو گیا ہے اور جاری بھی رہے گا۔ آپریشن کا نیا نام پالیسی شفٹ بھی ظاہر کر رہا ہے۔ یہ بھی بتا رہا ہے کہ اس کی اونر شپ بدل گئی ہے طریقہ کار بھی تبدیل ہو گا۔

یہ فرق جاننا ہے تو بس آپریشن ضرب عضب کو سمجھنا ہی کافی ہو گا۔ جب بہت زیادہ قانونی آئینی اختیارات دیے گئے تو آپریشن کا رخ بدل کر سیاسی قیادت کی جانب ہو گیا تھا، کم از کم کراچی میں۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن پیچھے جاتا دکھائی دیتا رہا اور کرپشن کے خلاف آپریشن کی باتیں زیادہ زور سے ہونے لگیں۔ اب ایسا نہیں ہو گا۔

آپریشن رد فساد میں بارڈر مینیجمنٹ، اسلحہ سے پاک پاکستان، بارودی مواد پر کنٹرول اور سلیپنگ سیلز کا خاتمہ اہم مقاصد ہیں۔ لگ یہ رہا ہے کہ افغانستان میں موجود شدت پسندوں کی پناہ گاہوں کا بھی خاتمہ ہو گا۔ اس کے لیے کچھ شرائط کے ساتھ امریکی حمایت بھی حاصل ہے۔

پاکستان کی سیاسی پارٹیوں سے ایک غلطی ہو گئی ہے۔ فوجی عدالتوں کی مخالفت کر کے وہ فیصلہ سازی کے عمل سے بھی باہر ہو گئی ہیں۔ مسلم لیگ نون اپنی پولیس مقابلوں والی سوچ کے ساتھ فوج کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو گئی ہے کہ تسی تن دیو۔ دھماکوں کی حالیہ لہر کے بعد سو بندہ ٹھکانے لگا دیا کوئی بولا؟ صرف شدت پسندوں کی چیخیں ہی سنائی دی ہیں۔ آپریشن کریں اور کام مکائیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments