مذہبی فتوے اور سیاسی محرکات (عورت کی حکمرانی کی بحث)


محمد عمار خان ناصر (مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ)

محترمہ بے نظیر بھٹو 88ء میں پہلی مرتبہ برسر اقتدار آئیں تو ہمارے ہاں اسٹیٹس کو کی سبھی قوتوں کے لیے یہ تبدیلی ناقابل قبول تھی۔ چنانچہ 77ء کے قومی اتحاد کی طرح اس موقع پر بھی پیپلز پارٹی کی مخالف تمام جماعتوں کو آئی جے آئی کے عنوان سے متحد کیا گیا اور مذہبی قوتوں نے حسب دستور اس تحریک میں بھی اپنا حصہ مذہب یعنی ’’عورت کی حکمرانی کے عدم جواز’’ کے عنوان سے ڈالا۔ (اس ساری صف بندی کے پیچھے اصل قوتیں کون تھیں، وہ اب بچہ بچہ جانتا ہے)۔ میری عمر کوئی تیرہ چودہ سال ہوگی، چونکہ والد گرامی آئی جے آئی میں، نیز عورت کی حکمرانی کے خلاف تحریک میں ایک متحرک کردار ادا کر رہے تھے، اس لیے اس پورے دور کی کافی تفصیلات مجھے یاد ہیں۔ راولپنڈی صدر میں جامعہ اسلامیہ میں پورے ملک سے لگ بھگ پانچ ہزار علماء کا جو کنونشن منعقد ہوا تھا، میں بھی اس میں والد گرامی کے ساتھ شریک ہوا تھا۔

عورت کی حکمرانی کے خلاف مذہبی فتاویٰ کی مہم اور اخبارات اور رسائل وجرائد میں دونوں طرف سے ہونے والی زور دار مناظرانہ بحثیں بھی ابھی تک یاد ہیں۔ روزنامہ جنگ لبرل حلقوں کا نمائندہ فورم تھا اور علامہ کوثر نیازی، مولانا سعید الرحمن علوی، جاوید جمال ڈسکوی، ڈاکٹر یوسف گورایہ اور دوسرے بہت سے حضرات (جو اب سب مرحوم ہو چکے ہیں، اللہ مغفرت فرمائے) اسلام کی رو سے عورت کی حکمرانی کے جواز کے حق میں لکھ رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن بالفعل بے نظیر حکومت کے ساتھ کھڑے تھے اور ان کا یہ تبصرہ اخبارات میں شہ سرخیوں میں شائع ہوا تھا کہ عورت کی حکمرانی کے مسئلے میں مخالفین کی ’’سوئی ایک جگہ پر اٹک گئی ہے’’۔ دوسری طرف سے اس محاذ پر سرگرم حضرات میں مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب، مولانا یوسف لدھیانوی شہید اور والد گرامی کی تفصیلی تحریریں منظر عام پر آئیں۔ میں نے یہ ساری چیزیں پڑھیں اور طالب علمی کے بالکل ابتدائی دور میں سچ مچ یہ تاثر لیا کہ یہ کفر اور اسلام کی بحث ہے اور عورت کی حکمرانی کی صورت میں فی الواقع خدا کا ایک عذاب اس قوم پر مسلط ہو گیا ہے۔

اس مناظرے میں مولانا اشرف علی تھانوی کا ایک فتویٰ بھی کافی زیر بحث رہا جس میں جمہوری نظام حکومت میں عورت کی حکمرانی کے جواز کی بات کہی گئی ہے اور دیوبندی علماء کا حلقہ اس کی توجیہ یا تاویل کے مشکل سوال سے نبرد آزما ہوتا رہا۔ بعض نے کہا کہ یہ مولانا کا پہلے دور کا فتویٰ ہے جس سے انھوں نے بعد میں رجوع کر لیا تھا (اگرچہ مولانا نے آخری عمر میں اپنے جن مرجوع عنہ مسائل کی فہرست مرتب کی، اس میں اس کا کوئی ذکر نہیں)۔ بعض نے کہا کہ مولانا نے جمہوری نظام میں عورت کی حکمرانی کے جواز کی جو بنیاد بیان کی ہے، وہ حقیقتاً‌ پاکستان کے جمہوری نظام میں نہیں پائی جاتی۔ اورجناب مولانا تقی عثمانی نے تو یہ تک فرما دیا کہ مولانا تھانوی نے سرے سے جمہور کے موقف سے کوئی اختلاف کیا ہی نہیں، لوگ ان کی بات کا غلط مطلب بیان کر رہے ہیں۔

خیر، کافی سال گذرنے کے بعد اس بحث کو فقہ اسلامی میں براہ راست پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملا تو معاملے کی نوعیت بہت مختلف دکھائی دی۔ لیکن زیادہ حیرت تب ہوئی جب یہ پتہ چلا کہ محترمہ بے نظیر کے خلاف ’’شرعی’’ بنیادوں پر تحریک چلانے والے تمام مذہبی حلقے اس سے پہلے ایوب خان کے صدارتی انتخابات کے موقع پر اس سے بالکل مختلف رجحان یا موقف اپنا چکے تھے۔ جناب مولانا مفتی محمد شفیع علیہ الرحمہ کے متعلق معلوم ہوا کہ انھوں نے فاطمہ جناح کی حمایت میں باقاعدہ فتویٰ دیا تھا جو بڑے پیمانے پر مسلم لیگ کی طرف سے تقسیم کیا گیا۔ مولانا مودودی نے ’’ترجمان القرآن’’ میں تفصیلی علمی بحث کی کہ موجودہ صورت حال میں اصل سوال عورت یا مرد کی حکمرانی کا نہیں، بلکہ جمہوریت اور آمریت میں سے ایک کے انتخاب کا ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام کی مجلس شوریٰ میں بھی ایوب خان یا فاطمہ جناح کی حمایت کے دونوں آپشنز پر غور کیا گیا اور رائے منقسم نکلی۔ مولانا غلام غوث ہزاروی کا رجحان ایوب خان کی حمایت کی طرف جبکہ مفتی محمود مرحوم کا فاطمہ جناح کی طرف تھا، لیکن بحث ومباحثہ کے بعد بالآخر فاطمہ جناح کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن جب کر لیا گیا تو پھر یہ ایک ’’اجتہادی’’ مسئلہ نہ رہا اور فاطمہ جناح کی حمایت کرنے پر پبلک میں مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے لتے لینے کو وقت کا اہم ترین دینی فریضہ تصور کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments