بچوں کا جنسی استحصال – علامات اور تحفظ


انتباہ :یہ تحریر بچوں پر جنسی تشدد کے حوالے سے آگہی اور شعور پیدا کرنے کے لیے شائع کی جا رہی ہے۔ اس تحریر کا مقصد بچوں کے جنسی استحصال جیسے حساس موضوع پر خاموش رہنے کے چلن کی حوصلہ شکنی کرنا اور معلومات فراہم کرنا ہے۔ یہ معلوماتی تحریر بچوں کو جنسی تشدد اور استحصال سے بچانے کی ایک کوشش ہے۔والدین سے گزارش ہے کہ 14 برس سے کم عمر بچوں کو اس تحریر کے مندرجات خود سمجھانے کی کوشش کریں۔

بچوں کا جنسی استحصال گو کہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن آج کل جس تواتر سے اس قبیح فعل سے متعلق خبریں گردش میں ہیں یہ ضرور لمحہ فکریہ ہے۔ خاص طور پہ اس صورت میں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ رہا ہے جس پہ بات کرنے سے ہمیشہ گریز کا رویہ اپنایا گیا ہے۔ خود والدین اور بچوں کے مابین غیر ضروری جھجک اور شرم بھی اس کی اہم وجہ رہے ہیں، لیکن یہی عدم واقفیت بچوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر دس میں سے ایک لڑکی جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہے، لڑکوں میں اس کی تعداد لڑکیوں کے مقابلے میں قدرے کم ہے۔ پاکستان میں یہ اعدادوشمار اس لیے بھی گمبھیر ہیں کہ یہاں رپورٹ کیے گئے واقعات کی تعداد ان کی اصل تعداد سے کہیں کم ہے۔

بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، جنسی حملے، جنسی ہراسانی اور جنسی عمل کی ترغیب دینے کے لیے اشارے کرنا جنسی استحصال میں شامل ہیں۔ بعض اوقات یہ ذلیل اور ناشائستہ حرکات بدترین جنسی استحصال پر منتج ہوتی ہیں اور بچے نا چاہتے ہوئے بھی اس عمل کا حصہ بننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بچوں میں نفسیاتی، جسمانی عوارض کا پیدا ہوجانا، ان کی ذہنی صلاحیتوں کا مفلوج ہوجانا بچوں میں جنسی استحصال کے بعد پیدا ہونے والے عام اثرات ہیں جب کہ انتہائی صورتوں میں بچے اپنی جان تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ بچوں کی تربیت اور ان کو پروان چڑھانا محض یہی نہیں کہ ان کے لیے اچھی خوراک اور لباس فراہم کیا جائے یا کسی اچھے تعلیمی ادارے میں داخل کروادیا جائے، بلکہ ان کی ہر آن تربیت اور تحفظ بھی والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ یہ ننھے مسافر جو خدا نے ہمیں عطا کیے ان کو ان کی منزل پہ بعافیت اور کامیابی سے پہنچانا بھی اہم فریضہ ہے۔

بچوں کے جنسی استحصال میں خاموشی اہم کردار ادا کرتی ہے جس کے پیچھے بھی کئی ایک عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ بالخصوص خوف ایک ایسا عنصر ہے جو بچوں کو زبان بندی پر مجبور کیے رکھتا ہے۔

بچوں کے جنسی استحصال کی درج ذیل صورتیں عام ہیں:

1۔ جسمانی اعضا کو چھونا:

بچوں کو غیر ضروری طور پر لپٹانا، بھینچنا اور چومنا، ہاتھ پھیرنا اور جنسی اعضا کو دبانا شامل ہیں۔ والدین کو اس صورت میں انتہائی ہوشیار اور آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے، رشتے داروں، گھریلو ملازمین، دوست احباب اور اجنبیوں کے ساتھ تعلقات اور ان کی گھر میں آزادانہ آمدورفت کے سلسلے میں محتاط رہنا چاہیے کیوں کہ بچوں سے جنسی زیادتی کے زیادہ تر واقعات میں قریبی رشتہ دار یا شناسا افراد ذمہ دار پائے گئے ہیں۔

2۔ جنسی عمل سے متعلق نازیبا گفتگو:

اس صورت میں بچوں سے جنسی نوعیت کی گفتگو کی جاتی ہے، بیہودہ لطائف، گالیوں اور لفظوں کا گفتگو میں استعمال کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ عموماً بچوں کے ساتھ مختصر تنہائی میسر آنے کی صورت میں یا پھر ٹیلیفون اور فیس بک پر ان باتوں کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ایسی گفتگو میں جنسی عمل کی ترغیب دینے کی کوشش بھی شامل ہے۔

3۔ پورنوگرافی یا برہنگی:

نابالغوں کو برہنہ یا جنسی افعال پر مشتمل تصاویر اور ویڈیوز (پورنوگرافی) دکھانا یا پھربچوں کے سامنے اپنے جنسی اعضا کی نمائش بھی جنسی استحصال کی ایک صورت ہے، اس ضمن میں انٹرنیٹ پر پورن سائٹس تک نابالغ افراد کی رسائی روکنا بھی ضروری ہے۔

4۔ جلق یا خود لذتی:

بچوں کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر مجرم اپنے جنسی اعضا سہلواتا ہے، ناسمجھ بچے کے لیے یہ ایک خوفناک تجربہ ہوتا ہےلیکن لالچ یا خوف کا قوی احساس اس کو زبان بندی پر مجبور کر سکتا ہے۔

5۔ جنسی زیادتی یا ریپ:

بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا ان کے جنسی استحصال کی انتہائی صورت ہے۔  عموماً وہ والدین جو بچوں کو اپنے ہی گھرمیں اکیلا یا ملازمین کے پاس چھوڑ کر، یا کسی رشتے دار یا پڑوسی کے گھر چھوڑ کر جانے کے عادی ہوتے ہیں ان کو انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ اقامت گاہوں میں مقیم اور مدرسوں میں زیر تعلیم طلبا کی بڑی تعداد بھی مدرسین اور ساتھی طلباء کے ہاتھوں ریپ کانشانہ بنتی ہے۔ اس مذموم حرکت کے اثرات بہت خوفناک ہوتے ہیں، مجرم اس صورت حال کے بعد راز کھلنے کے خوف سے بچوں کے قتل سے بھی گریز نہیں کرتے۔

6۔ برہنہ تصاویر یا فحش ویڈیوز بنانا:

عادی مجرم بعض اوقات بچوں کو ڈرانے دھمکانے اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے ان کی ناشائستہ تصاویر یا ویڈیوز بنا لیتے ہیں، اس طرح وہ بچوں کو مجبور کرتے ہیں کے وہ ان کے ساتھ ساتھ دوسروں کی ہوس کا نشانہ بھی بنیں یا دیگر بچوں کو بھی ورغلا کر ان کے چنگل میں لے آئیں۔ اس کے علاوہ یہ تصاویر اور ویڈیوز انٹرنیٹ وغیرہ پر بھی پوسٹ کی جاتی ہیں۔

7۔ کم سن بچوں کو جسم فروشی پر مجبور کرنا:

کم سن بچوں کو جسم فروشی پر مجبور کرنا جنسی استحصال کی بدترین شکل ہے۔ عام طور پر بچوں کو اس مقصد کے لیے اغوا کیا جاتا ہے اور بعدازاں انہیں جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔

چند عام مفروضے جو غلط ہیں

1۔ ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا

بچوں کاجنسی استحصال ایک عام برائی ہے جسے تسلیم کرنے سے اکثر انکار کیا جاتا ہے کیو ں کہ زیادہ تر متاثرین یا تو خاموشی اختیار کرلیتے ہیں یا پھر جنسی استحصال کی مختلف صورتوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ ہمارے بچوں کو جنسی استحصال کی صورتوں میں سے کسی ایک یا زائد کا ایک یا ایک سے زائد بار سامنا کرنا پڑا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ سلسلہ کافی عرصے سے چلا آرہا ہو۔

2۔ ایسا عام طور پر اجنبی کرتے ہیں

جنسی استحصال اور ہراسانی کے زیادہ تر واقعات میں عموماً وہ لوگ ملوث پائے گئے ہیں جو بچے یا اس کے والدین کے جاننے والے تھے، جیسے رشتے دار، والدین کے دوست، اساتذہ، پڑوسی، ملازمین وغیرہ۔ بعض افسوسناک وقعات میں والدین یا ان میں سے کوئی ایک بھی اس میں ملوث پایا گیا ہے۔ اگر مجرم خاندان کا حصہ ہو تو اسے تنہائی کے مواقع زیادہ ملنے کی صورت میں یہ استحصال اپنی انتہا کو پہنچ سکتا ہے۔ وہ افراد جن سے احترام کا رشتہ ہو یا والدین ان پر بھروسہ کرتے ہوں وہ بھی بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا سکتے ہیں جیسے استاد، والدین کے دوست اور رشتے دار وغیرہ۔ ایسے واقعات کا ایک سبب والدین کی حد سے بڑھی ہوئی لاپرواہی یا دوسروں پربےجا اعتماد ہے۔ خاندان کے ارکان یا قابل بھروسہ افراد کی جانب سے جنسی استحصال اور ہراسانی کا سامنا کرنے والے بچے عموماً خاموش رہتے ہیں اور اس حوالے سے بات کرنے سے گھبراتے ہیں۔

3۔ جنسی تعلیم سے بے راہروی پھیلتی ہے

جنسی عمل سے متعلق نامکمل یا منفی معلومات بھی اس صورت حال کی پردہ پوشی کا سبب بن سکتی ہیں۔ بچوں کو جنسی استحصال کی مختلف صورتوں، جنسی بیماریوں اور محفوظ جنسی عمل سے سے آگاہ کرناجنسی استحصال کی روک تھام میں بے حد معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔

4۔ ایسا لڑکوں کے ساتھ نہیں ہوتا

یہ تاثر غلط ہے کہ جنسی استحصال کا شکار صرف لڑکیاں ہوتی ہیں، اگرچہ بچیوں کے ساتھ ایسے واقعات کی شرح نسبتاً زیادہ ہے تاہم لڑکوں کو بھی جنسی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

5۔ اس کی وجہ بے پردگی یا مخلوط اجتماعات ہیں

جنسی استحصال اور ہراسانی کا تعلق لباس، جسم ڈھانپنے یا مخلوط اجتماعات سے نہیں بلکہ اس کی عمومی وجوہ نفسیاتی بیماریاں، جنسی گھٹن اور پدرسری روایات ہیں۔

6۔ ایسا کرنے والے نفسیاتی مریض ہوتے ہیں

یہ بات درست ہے کہ بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے بعض افراد پیڈوفیلیا کا شکار ہوتے ہیں لیکن ایسا ضروری نہیں۔ بہت سے جنسی استحصال کرنے والے افراد عام حالات میں بالکل نارمل ہوتے ہیں۔

والدین یا سرپرستوں کا رویہ:

اس صورت حال میں والدین کا رویہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ عموما والدین کی لاپرواہی، عدم توجہی، اور بچوں کے ساتھ غیردوستانہ برتاؤ ایسے واقعات کو سامنے لانے اور ان کے سدباب میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ بچے توجہ کے متلاشی ہوتے ہیں، وہ اچھی یا بری نیت کا فرق نہیں جان پاتے اور جب کسی قدر ادراک کے قابل ہوتے ہیں تو بات کافی آگے بڑھ چکی ہوتی ہے۔ والدین کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کی نہ صرف حرکات و سکنات کا بغور مشاہدہ کریں بلکہ ان سے بات چیت بھی کریں۔ اگر بچے اس قسم کے شبہات کا اظہار کریں یا کسی پر ایسا الزام عائد کریں، کچھ مخصوص لوگوں کے سامنے آنے سے گریز کرتے ہوں یا ربط و ضبط کی صورت میں احتراز یا خوف کا مظاہرہ کریں تو اسے ہرگز نظر انداز نہ کیا جائے۔ والدین بچوں کو اعتماد میں لیں اور ان پر اپنے رویے سے واضح کریں کہ وہ ان کی رائے کو اہمیت دیتے اور ان کی بات کا یقین رکھتے ہیں۔ جنسی استحصال کا شکار بچوں کو اس واقعے کا ذمہ دار قرار دینا انہیں احساس جرم میں مبتلا کر سکتا ہے۔ فی زمانہ بچوں کے جنسی استحصال اور بچوں پر جنسی زیادتی جیسے جو واقعات تواتر سے سننے میں آرہے ہیں اس کے تدارک کے لیے بالخصوص والدین کو بہت ضبط اور سمجھ داری کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔

اہم علامات:

بچے جن کا جسمانی، جذباتی یا جنسی استحصال ہورہا ہو یا ہوتا رہا ہو اس کا بروقت پتا لگانے کے لیے والدین کو درج ذیل علامات کے تناظر میں بچوں کا مشاہدہ کرنا ہوگا۔

جسمانی علامات:

وزن میں اچانک اور بڑی تبدیلی واقع ہونا، بالعموم کمزور ہوتا جانا۔

اٹھنے بیٹھنے یا چلنے میں دشواری کا سامنا

زیرجاموں کا داغ دار، خون آلود یا پھٹا ہوا ہونا

تناسلی اعضا کے بیرونی حصوں میں زخم، سوجن یا نیل وغیرہ کی موجودگی

اعضائے تناسل میں درد خارش یا جلن ہونا

سر درد یا معدے پیٹ اور پیڑو کے اطراف درد کی شکایت ہونا

پیشاب میں انفیکشن وغیرہ

جنسی طور پر منتقل ہونے والی انفیکشنز بالخصوص 14 سال کی عمر سے

حمل ٹھہر جانا (لڑکیوں میں خصوصاً 14 سال کی عمر سے)

رویہ جاتی علامات:

جنسی استحصال کی واضح یا دبے دبے لفظوں میں شکایت کرنا

عمر کی مناسبت سے زائد جنسی نوعیت کی معلومات کا ہونا

نامناسب جنسی رویہ جیسے اپنے یا دوسروں کے جنسی اعضا کے حوالے سے بہت زیادہ تجسس کا مظاہرہ یا اعضائے جنسی کو بار بار چھونا وغیرہ

سوتے میں ڈر جانا یا بستر پر پیشاب کر دینا

سونے یا کھانے پینے کے معمولات میں خرابی

بھوک کی اشتہا میں تبدیلی واقع ہونا

بہت گندا رہنا یا ضرورت سے زائد نہانا دھونا

مخصوص لوگوں سے ملتے ہوئے اپنے آپ میں سمٹ جانا، احتراز یا گریز کا رویہ اپنانا

اپنے چھوٹوں کی حفاظت کے لیے ایک دم محتاط ہو جانا اور ان کے معمولات کو نظر میں رکھنا

جذباتی ہیجان اور رد عمل:

معمولات زندگی سے لاتعلقی

ڈپریشن

خودکشی کی کوشش یا خود کو نقصان پہنچانے پر مائل ہونا( خصوصاً نوبلوغت میں ایسا رویہ بھی سامنے آیا ہے)

خود کو جسمانی ایذا دینا جیسے، ہاتھ پاؤں وغیرہ کو بلیڈ سے کاٹ لینا

تعلیمی اعتبار سے تنزلی جیسے اسکول سے غیر حاضری یا پڑھائی میں عدم دلچسپی

احساس جرم میں مبتلا نظر آنا

مراجعتی رویے جیسے انگوٹھا چوسنا، انگلیاں چٹخانا، اضطراب کا شکار نظر آنا

الجھن کا شکار رہنا، بہت چڑچڑا اور غصیلا ہوجانا یا بہت تنہائی پسند ہوجانا

مذکورہ بالا علامات کے موجود ہونے کی صورت میں بچوں کو بٹھا کر ان سے پیار محبت سے بات کی جائے، یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ درج بالا علامات میں سے بیشتر کسی جسمانی یا نفسیاتی عارضے کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہیں لازمی نہیں کہ ان کی تہہ میں جنسی استحصال کے واقعات ہی ہوں لیکن ان علامات کے نظر آنے پر بچوں سے نرمی سے بات کرنا ضروری ہے۔ جنسی استحصال کی شکایت پر والدین بچوں پر الزام لگانے سے گریز کرتے ہوئے بنا کسی کا نام لیے مختلف لوگوں کے بارے میں ان کی رائے جاننے کی کوشش کریں، ان کے رحجانات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ دوران بات چیت بچے کے رویے کا بغور مشاہدہ کرنا ہوگا۔ اگر بچے کترا رہے ہوں، کسی الجھن کا شکار ہوں یا خوف زدہ محسوس ہوں تو ان کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ بچے ایک ہی نشست میں سب کچھ نہیں بتا دیں گے، بلکہ والدین کو پہلے اپنے اور بچے کے درمیان دوستی اور اعتماد کی فضا ہموار کرنا ہوگی۔ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ باہمی دلچسپیوں کے امور پر بات کی جائے تا کہ وہ آپ پر اعتماد کر سکیں۔

ڈانٹ پھٹکار، مار کے خوف یا شرم و جھجک کے باعث عموماً بچے ایسی باتیں شیئر نہیں کر پاتے اور اندرونی گھٹن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بچوں کو ہمیشہ بڑوں کی تابع داری اور احترام ہی سکھایا جاتا ہے، اکثر اوقات بچوں پر مار پیٹ اور ڈانٹ دپٹ کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خوف کی زیادتی ان کو زبان بندی پر مجبور کرتی ہے یا پھر وہ کسی نوع کے جنسی استحصال کی شناخت ہی نہیں کر پاتے۔ مدرسوں اور اقامتی اداروں میں زیرتعلیم بچے بچیوں کی ایسی شکایتوں کو محض تعلیم سے فرار کی ایک کوشش پر محمول کیا جاتا ہے اور اسی کا یہ خوفناک نتیجہ ہے کہ آج مدرسوں میں اساتذہ کے ہاتھوں بچوں کے جنسی استحصال اور جنسی زیادتی کے واقعات کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

معاشرہ بچوں کو جن اعلیٰ اخلاقی اصولوں کی تربیت دیتا ہے ان میں سے اکثر بڑوں کی ہر زیادتی کے جواب میں بچوں کو خاموش رہنا سکھاتے ہیں۔ اجنبیوں کو راستہ بتانا، اہل محلہ کو سودا سلف لا کر دینا پسندیدہ افعال ضرور ہیں لیکن بچوں پر کیے جانے والے مجرمانہ حملوں کی بڑھتی تعداد یہ درس دیتی نظر آتی ہے کہ بچوں کو اب مزید خاموش رہنا نہ سکھایا جائے۔ اجنبیوں سے بات چیت سے گریز اور تعلقات میں احتیاط کا برتاؤ سکھایا جائے۔ بچوں کے استحصال کے بہت سے واقعات میں دکاندار اور سیلزمین بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ بچوں کو ٹافیوں یا کسی دوسری مرغوب چیز کا لالچ دے کر دکان کے اندرونی حصوں میں لے جانا اور بہانے سے ان کے اعضائے جنسی کو چھونا اور ربط ضبط بڑھا کر جنسی تعلقات قائم کر لینے اور افشائے راز کے خوف سے بچوں کے قتل کی صورتیں بھی پائی گئی ہیں۔

والدین کو عام زندگی میں بھی اپنے اور بچوں کے درمیان فاصلوں کو سمیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے، خاص طور پہ بچوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے انھیں مناسب لفظوں میں ان کے جسم کا شعور دیا جائے۔ شرم و حیا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کو واضح طور پہ سمجھایا جائے کہ ان کے جسم کے حساس مقامات کون سے ہیں جن کی حفاظت لازمی ہے۔ بچوں میں اعتماد اجاگر کرنا کہ کسی قسم کی جنسی زیادتی کی صورت میں خاموش نہ رہیں، بلکہ سب سے پہلے والدین کو بتائیں، یا ان کی عدم موجودگی میں کسی دوسرے عزیز کو یا عدم شنوائی کی صورت میں تیسرے چوتھے جو بھی افراد میسر آئیں ان کو ضرور بتائیں۔

قانونی چارہ جوئی:

بچوں پر دست درازی ثابت ہونے کی صورت میں قانونی چارہ جوئی ازحد ضروری ہے، خاموشی اختیار کرنا دراصل مجرم کی پشت پناہی کے مترادف ہے۔ ہمارے معاشرے میں جرم اور مجرم کا خوف اور اس سے بھی بڑھ کے بدنامی کا خوف ایسا محرک ہے جو والدین کو زبان بندی پر مجبور کرتا ہے۔ بعض اوقات اس جرم کے قانونی پہلوؤں سے ناواقفیت بھی خاموشی کا سبب بنتی ہےاسی طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کا حوصلہ شکن رویہ بھی رکاوٹ بنتا ہے۔

بچوں کے تحفظ کے مناسب قوانین نہ ہونے کے باعث بھی ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، موجودہ قوانین کے مطابق بچوں کے جنسی استحصال کی سزا جرم کی نوعیت کے اعتبار سے سات سال قید محض اور قید مع جرمانہ بھی ہوسکتی ہے۔

کس سے رابطہ کریں:

ذیل میں بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف کام کرنے والی چند تنظیموں کے نام اور رابطہ نمبر دیے جا رہے ہیں جو انٹرنیٹ کی مدد سے حاصل کیے گئے۔ یہ تنظیمیں قانونی معاونت کے علاوہ بچوں کو معمول کی زندگی کی طرف واپس لانے کے لیے مشاورت بھی فراہم کرتے ہیں۔

(ان تنظیموں کے نام نیک نیتی کے جذبے کے تحت شائع کیے جا رہے ہیں اس کا مقصد کسی قسم کی تشہیر نہیں)

جنسی استحصال کی صورت میں مددگار ادارے:

۱۔ ساحل (ہر بچہ محفوظ)

رابطہ: آفس نمبر 13، فرسٹ فلور، ال بابر سینٹر، ایف ۔8 ، مرکز، اسلام آباد، پاکستان۔ فون:(051) 2260636, 2856950

۲۔ سوسائیٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چلڈرنز ( SPARC)

رابطہ: 151 ۔بی، اسٹریٹ ۔37، ایف۔ 1/ 10 ، اسلام آباد پاکستان۔ فون: 2291553، 2291559 (051)

(دیگر شہروں میں بھی اس تنظیم کے دفاتر موجود ہیں جن کاپتہ ان نمبرز سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔)

۳۔ سیو دا چلڈرنز۔ پاکستان

پاکستان پروگرام کنٹری آفس: مکان نمبر 78، مین مارگلہ روڈ، ایف 2/6، اسلام آباد پاکستان۔ فون: 2871527، 2871517 (051)

۴۔ چلڈرن کیئر فاؤنڈیشن، پاکستان

رابطہ: A-6, A-E، 105 نیو سپر ٹاؤن، ڈیفینس، مین بلیوارڈ لاہور۔ فون: 36621031 (042)

۵۔ الائنس فار دی رائٹس آف دی چلڈرن ( ARC)

رابطہ: F-178/3، بلاک 5 ، کہکشاں، کلفٹن، کراچی، پاکستان۔ فون: 35867300 (210)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments