دو پاکستان


پرندہ تب پنجرے میں بند نہ تھا!
یہ وہ زمانہ تھا جب وہ آزاد تھا۔ کھلی فضائوں میں اڑتا تھا۔ باغ تب ہرا بھرا تھا۔ کوئی صید تھا نہ صیّاد! درخت سرسبز تھے۔ فرش مخملیں تھا۔ آبِ رواں کے ہر طرف نظارے تھے۔ چہکار تھی اور مہکار ! فضا میں خوف نہ تھا۔ اعتماد تھا اور سکون!
وہ زمانہ خواب و خیال ہو گیا۔ اب پرندہ پنجرے میں بند ہے۔ وہی باغ ہے مگر پرندے کی آنکھوں کے سامنے ہر روز کوئی نہ کوئی پنجرہ کھلتا ہے ۔ کسی پرندے کی گردن مروڑی جاتی ہے اور اس کی لاش باغ کے اس فرش پر پھینک دی جاتی ہے جو کبھی ریشم کا لگتا تھا اور اب کھردرا اور ویران ہے! ہر روز پرندے کو یوں لگتا ہے کہ آج اس کی باری ہو گی اور یہ دن اس کا آخری دن ہے۔ روشیں دلدل میں بدل گئی ہیں۔ درخت ٹنڈ منڈ ہیں جیسے نوحے پڑھ رہے ہوں۔ پھولوں کا نشان تک باقی نہیں۔ ہر طرف جھاڑ جھنکاڑ‘ کانٹوں اور بدنما جھاڑیوں کا منظر ہے۔ باغ میں مکروہ چہروں والے بندوقچی ادھر ادھر دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ بندوقچی ہر اس شے کے دشمن ہیں جو زندگی کی علامت ہو۔ درختوں کے سبز پتے‘ پھول‘ سبزہ‘ پرندے‘ گیت‘ خوشبو‘ پانی‘ یہاں تک کہ خنک ہوا کا اِکاّ دکاّ جھونکا بھی انہیں گوارا نہیں! آئے دن بندوق چلنے کی گرجدار‘ ہولناک آواز سنائی دیتی ہے۔ پھر کسی پرندے کی چیخ‘ پھر دوڑتے قدموں کی آواز اور پھر موت کا رقص!
یہ رُوداد کسی خیالی باغ کی نہیں! یہ سب کچھ اس باغ کے ساتھ ہوا جس کا نام پاکستان ہے۔ ہاں! جو کبھی باغ تھا اور اب وحشیوں کی شکار گاہ! یہ پاکستان افغان”جہاد‘‘ کے بعد کا پاکستان ہے۔
ایک پاکستان افغان”جہاد‘‘ سے پہلے کا پاکستان تھا! درست ہے شہد اور دودھ کی نہریں نہیں بہتی تھیں مگر خون کے چھینٹے بھی ہر طرف دیواروں پر نہیں تھے۔ یہ وہ پاکستان تھا جب صبح نوکری پر جاتے ہوئے ایک عام پاکستانی ماں کے قدموں پر گر کر غلطیاں معاف نہیں کراتا تھا اور بیوی سے یہ نہیں کہتا تھا کہ خیریت سے واپس آ گیا تو ملاقات ہو گی ورنہ بچوں کا خیال رکھنا! یہ وہ پاکستان تھا جب والدین بچوں کے سکول سے واپس آنے تک گھر کے دروازے پر نہیں کھڑے رہتے تھے۔ بچے بھی محفوظ تھے ‘ بڑے بھی! جب لوگوں کو یہ وارننگ نہیں دی جاتی تھی کہ پُررونق مقامات پر جانے سے احتراز کرو! سخت ضرورت کے بغیر باہر نہ جائو۔
یہ وہ پاکستان تھا جس میں منشیات کی ریل پیل نہیں تھی! والدین کو ہر وقت یہ دھڑکا نہیں لگا رہتا تھا کہ ان کے بچے کالج یا یونیورسٹی میں نشے کا شکار ہو جائیں گے۔ نہ ہی یہ خوف تھا کہ کوئی ان کے نوعمر بیٹے کو حوروں کی لالچ میں ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا کر دے گا۔ اُس پاکستان میں موت کے وہ سوداگر نہیں تھے جو آج گلی کوچوں میں جنت کے بدلے خون میں پھڑکتے اعضا بیچ رہے ہیں۔ اُس پاکستان میں بھتہ بھی ایک انجانا لفظ تھا۔ گاڑیاں چوری ہوتی تھیں مگر خال خال! اُس زمانے میں وفاقی دارالحکومت سے ہر روز اوسطاً تین گاڑیاں نہیں چوری ہوتی تھیں‘ اغوا برائے تاوان‘ انڈسٹری نہیں تھی!
یہ وہ پاکستان تھاجس میں کوئی کسی کو شاید ہی کافر کہتا ہو! مسجدوں پر پہرے نہیں تھے۔ رمضان میں لوگ روزے رکھتے تھے مگر یہ نہیں ہوتا تھا کہ بیمار اور مسافر بھوک سے نڈھال ہو جائیں۔ انہیں دن کو کھانا میسر آتا تھا۔ اور انہیں یہ ڈر نہیں ہوتا تھا کہ کوئی انہیں کھاتا دیکھ کر گولی سے بھون دے گا یا گلا دبا دے گا تب ہجوم کی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ کسی کو مار دے یا پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ قانون اتنا بے بس نہیں تھا۔
کیا آج کوئی یقین کرے گا کہ اس وقت کے پاکستان کا پاسپورٹ دنیا بھر میں عزت و تکریم کا باعث تھا۔ کوئی پاکستانی پاسپورٹ دکھاتے وقت احساسِ کمتری کا شکار ہوتا تھا نہ اس کا کلیجہ خوف کے مارے حلق کو آتا تھا۔
کراچی کا وہی مقام تھا جو آج کے ہوائی سفر میں بنکاک کا ہے! برٹش ایئر ویز سے لے کر کے ایل ایم تک دنیا کی ہر بڑی ایئر لائن کے جہاز وہاں اترتے تھے۔ امن و امان کی یہ کیفیت تھی کہ رات گئے لوگ باگ گھروں سے اٹھ کر‘ بندو خان کی دکان پر پراٹھے اور کباب کھانے آتے تھے۔ دھماکہ ہوتا تھا نہ کوئی کسی کو چھرا گھونپتا تھا۔ مغربی ملکوں کے سفارت کار ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی مقیم ہونا پسند کرتے تھے۔
پھر افغان ”جہاد‘‘ آ گیا اور سب کچھ بدل گیا۔ سفید سیاہ اور سیاہ سفید ہو گیا۔ پچاس لاکھ کے لگ بھگ غیر ملکی ‘ سرحدوں کا تقدس پامال کرتے ہوئے در انداز ہوئے۔ وقت کے حکمران نے انہیں خوش آمدید کہا۔ انہیں ان کے ہتھیاروں اور منشیات سمیت ملک کے اطراف و اکناف میں پھیلا دیا۔ قانون ‘ پاسپورٹ‘ ویزا‘ سب کچھ مٹی میں مل گیا۔ ٹرانسپورٹ سے لے کر جائداد تک‘ تجارت سے لے کر عام مزدوری تک ہر قومی سرگرمی میں یہ غیر ملکی دخیل ہو گئے۔ پھر ان کے شناختی کارڈ بننے لگے۔ پھر انہیں پاسپورٹ دیے جانے لگے اور حالت یہ تھی کہ صدیوں سے اس سرزمین پر رہنے والے اصل باشندے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے لیے دھکے کھاتے تھے اور پریشان ہوتے تھے۔
پھر غیر ملکی جنگ جوئوں کو خاص علاقوں میں مقیم کر کے ان کے رشتے ناتے کرائے گئے۔ آج یہ ملک‘ ملک کم اور پنجروں کا مجموعہ زیادہ ہے۔ سکولوں میں پھول سے بچے بھون دیے گئے۔ مزار‘امام بارگاہیں بازار‘ گلشن گلزاراور مساجدآگ اور خون کی زد پر ہیں۔ ہمارے فوجی افسر اور جوان ہزاروں کی تعداد میں شہید ہو گئے ہماری پولیس والوں نے لہو دے دے کر دھرتی کو اندر تک سرخ کر دیا مگر مکروہ چہروں والے بندوقچی ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہے! شتروگھن کوفرزند بنانے والے مردِ مومن کا سایہ ہے کہ لمبا ہی ہوتا جا رہا ہے! قدرت کا انتقام عجیب و غریب ہوتا ہے۔ جس شخص نے مذہب کے نام پر ملک کودوزخ بنا دیا‘ اس کا فرزند مذہب کے نام پر نہیں‘ ایک دور افتادہ علاقے سے ذات برادری کے نام پر ووٹ لیتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو گا اس حقیقت کا کہ مذہب کا استعمال خالص ایک سو ایک فی صد ذاتی مفاد کے لیے تھا!! فاعتبروا یا اولیِ الابصار! عبرت پکڑو اے آنکھ والو!
آج ہم کس سے کہیں کہ ہمارا پہلے والا ملک ہمیں واپس دے دو! ہاں! وہی ملک جس میں ہم راتوں کو بلا کھٹکے گھروں سے باہر نکلتے تھے۔ ہمارے بچے محفوظ تھے۔ ہماری عورتیں اغوا ہو کر افغانستان نہیں پہنچتی تھیں۔ جلال آباد سے ہماری اعلیٰ عدلیہ کے معزز ججوں کو بھتے کی کالیں نہیں وصول ہوتی تھیں۔ لاہور پر اسّی ہزار غیر ملکی قابض نہیں تھے کراچی میں سہراب گوٹھیں نہیں تھیں۔ وفاقی دارالحکومت عملاً محصور نہیں تھا! دنیا میں ہم معزز تھے ۔تکفیر ہمارے ہاں اتنی ارزاں نہیں تھی کہ روپے میں پانچ کلو فروخت ہو!
اب یہی ہے کہ آمر کی روح کے آگے ہاتھ جوڑ کر فیض صاحب کے الفاظ میں زاری کی جائے ؎
مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
لے گئے ساتھ مری عمرِ گزشتہ کی کتاب
اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں
اس میں بچپن تھا مرا اور مرا عہدِ شباب
……………………
مجھ کو لوٹا دو مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

(بشکریہ روزنامہ دنیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments