میں خود کش بم بار کی حمایت نہیں کرتا، لیکن


ٹھیک ہے میں خود کش بم بار کی حمایت نہیں کرتا، لیکن کچہری تو مشرکین کا عطا کردہ نظام ہے، یہ عدالتی نظام ان انگریزوں کا ہے؛ ایک آدھ بم اُدھر پھٹ گیا تو کیا قیامت آ گئی؟ مرنے والے انگریز نہیں تو کیا ہوا، کچھ تو وکیل ہوں گے، جن کا کاروبار ہی جھوٹ پر مبنی ہے؛ سائلوں کو خوار کرنا ہی ان کا دین و مذہب ہے۔ پھر یہ جعلی ڈومیسائل بنا کر دینے والے، پچھلی تاریخوں میں اسٹامپ پیپر نکلوا کر دینے والے حرام خور؛ یہ سب بھی تو کچہری میں ہوتے ہیں۔ یہ کچہریاں خرابے کے مراکز ہیں۔ میں خود کش بم بار کی حمایت نہیں کرتا۔

یہ دوائیاں بیچنے والے کیا کیا جعل سازی کرتے ہیں، چونے سے بنی گولیاں کشتے کے بھاؤ بیچتے ہیں۔ ایک آدھ خودکش حملہ ان کے دائیں بائیں ہو گیا تو کون سا ظلم ہوا! ان کی جعلی دوائیوں سے روز کتنے مریض جان سے جاتے ہیں، یہ کبھی سوچا؟ میں خود کش حملوں کی حمایت نہیں کرتا، لیکن سوچنے کی بات ہے، میں ان جعلی ادویات بنانے والوں، بیچنے والوں سے ہم دردی کیوں کروں؟

یہ درباروں پہ جانے والے شرک کرتے ہیں، المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں یہی اکثریت میں ہیں۔ یہاں اسلامی نظام نافذ ہو جائے تو امن قائم ہو جائے۔ ایک بھی دھماکا نہ ہو، سب ان کے گناہوں کی سزا ہے۔ اللہ کا عذاب تو آتا ہے، ناں جی۔ پاکستان کی تنزلی کی وجہ یہی شرک ہے۔ جھوٹ، چوری چکاری، مالی بد عنوانی، لوٹ کھسوٹ، ذخیرہ اندوزی، ناپ تول میں کمی بیشی، اشیا خوردنی میں ملاوٹ؛ یہ معمولی نوعیت کے جرائم ہیں، ان سے ایمان کا اتنا نقصان نہیں ہوتا، جتنا درباروں پر حاضری سے ہوتا ہے۔ خود کش بم بار کی حمایت نہیں کی جانی چاہیے، کوئی خود کش بم بار مسلمان نہیں ہو سکتا۔ چوں کہ وہ پھٹنے سے پہلے کلمہ طیبہ کا ورد کرتا ہے، تو یہ غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے، وہ مسلمان ہے۔ لیکن غور کیجیے کتنا خوش قسمت ہوتا ہے وہ جسے مرنے سے پہلے کلمہ پڑھنا نصیب ہو جائے؛ دھمال ڈالنے والوں کو تو کلمہ پڑھنا نصیب نہ ہوا۔ خدا اس کلمہ گو کی خطائیں معاف کرے، لیکن شرک کی معافی نہیں ہے۔

دیکھیے جناب اُمت کو ایک ہو جانا چاہیے۔ حلب جلتا رہا کسی کو فکر ہی نہ ہوئی؛ صد افسوس کہ یہاں پاکستان میں لوگ چھوٹے موٹے دھماکوں کو رو رہے ہیں۔ کشمیر کے مسلمانوں کی حالت زار دیکھیے، کیسے ظلم ہو رہا ہے، کشمیریوں کو دیکھیں گے تو کوئٹہ میں مرنے والے یاد ہی نہ آئیں گے۔ روہنگیا مسلمانوں کی خبر لیجیے، فلسطین کے مظلوموں پر نظر کیجیے، ہماری درس گاہوں پر حملے ان کے سامنے کیا ہیں، کچھ بھی تو نہیں۔ میں ان دہشت گردوں کی حمایت نہیں کرتا، لیکن میں کشمیر، روہنگیا اور فلسطین و حلب کے بے گناہوں پر حملوں کو کیسے بھول جاوں؟ بس جی یہ اُمت کے بیچ میں نفاق پھیلانے والوں کا کیا دھرا ہے۔ اُمت ایک ہو جائے تو ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں، میں تو کہتا ہوں، کہ اسلامی ملکوں میں ویزے کی پابندی نہیں ہونی چاہیے، ہر مسلمان آزادانہ اِدھر سے اُدھر، اُدھر سے اِدھر چلا آئے، سب مسلمان ایک ہیں۔ اور دوسرا مسئلہ یہ افغانی ہیں، انھیں پاکستان سے نکال باہر کر دینا چاہیے۔ بارڈر سیل کر دینا چاہیے، ان کی وجہ سے عظیم اسلامی سلطنت کی معیشت کا بیڑا غرق ہو گیا ہے۔ پاکستان میں کسی غیر پاکستانی کا داخلہ ہی نہ ہو۔

یہ بھی ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کے اربوں رُپے بیرونی ممالک کے بنکوں میں ہیں؛ یہ حرام کا پیسا ہے۔ یہ رقم پاکستان آ جائے تو ہر پاکستانی کے سر سے قرض کی پائی پائی اُتر جائے۔ اسلام میں بہتان لگانے کو نا پسندیدہ قرار دیا گیا ہے، بہتان یہ ہوتا ہے کہ کسی ثبوت کے بغیر کسی پر الزام لگا دیا جائے، جیسا کہا جاتا ہے، کہ طالبان خود کش حملے کرتے ہیں، یہ بہتان ہے۔ وہ تو اسلام کی خدمت کرتے ہیں، تبلیغ کے مشن پر ہیں۔ اُن کی وجہ سے آج دُنیا میں اسلام کا نام ہر زبان پر ہے۔ جسے نہیں پتا تھا اسلام کیا ہے، وہ بھی اسلام کا مطالعہ کر رہا ہے۔ بس یہ بد عنوان سیاست دان ہیں، جو نہیں چاہتے اسلام پھیلے۔ اسلامی نظام آتے ہی ان کا کڑا احتساب ہوگا؛ اور صرف انھی کا ہوگا، عوام تو نا چار ہیں، معصوم ہیں۔ میں خود کش حملہ آوروں کی مذمت کرتا ہوں، لیکن یہ سیاست دان بھی تو بد عنوانی چھوڑ دیں۔

ایک مسئلہ یہ لبرل ہیں۔ سب سے زیادہ یہی خود کش حملہ آور کی مخالفت کرتے ہیں، میں خود کش حملہ آور کی حمایت نہیں کرتا، لیکن یہ لبرل بے حیائی کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ یہ عورتوں کو بے پردہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں یہاں مغربی طرز کے کلب بن جائیں، جہاں عورتیں ناچتی پھریں۔ یہاں مغربی انداز کے کلبوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مشرق کی اپنی روایات ہیں، یہاں جسے رقص دیکھنا ہو، وہ ہیرا منڈی جا سکتا ہے، اگر وہاں جانے سے بدنامی ہوتی ہو، تو ناکام سینما ہاوس میں، ناکام فلمی اداکاراوں کے نیم عریاں رقص بہ نفس نفیس دیکھ سکتا ہے۔ آپ نے سنا خودکش بم باروں نے کبھی ہیرا منڈی پر حملہ کیا ہو؟ اسی سے اندازہ لگا لیجیے، یہ خود کش بم بار کتنے معصوم ہوتے ہیں۔ یہاں ڈانس کلب نہیں کھلنے دیے جائیں گے، سوچنے کی بات ہے ہم مغرب کی نقالی کیوں کریں؟ میں آپ کو بتاوں، یہ لبرل اور کیا کیا چاہتے ہیں؟ یہ چاہتے ہیں، پاکستان میں ولایتی شراب سستی ہو جائے، جب کہ میں چاہتا ہوں، یہ کپیاں پی پی مریں۔

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments