دہشت گردوں کو بے نقاب کرنا چاہیے


2008 بہت خوفناک تھا مگر ہمارے ارباب حل وعقد کی نظر میں’’ ناراض بچے پالیسی شفٹ اور لال مسجد آپریشن پر رد عمل دے رہے ہیں، جیسے ہی کڑے تیوروں سے دیکھا سمجھ جائیں گے‘‘۔ سال کے آخر تک سمجھ آئی کہ’’ ناراض بچے‘‘ ہمارے اپنے’’ دوستوں‘‘ کی انگلی پکڑ چکے ہیں اور نیم خواندہ فضل اللہ کی زبان پر امریکی شہری مسلم خان کی فصاحت بولتی ہے۔ سازش کا حجم اور اہداف سامنے آئے تو اچھی طرح یاد ہے کہ اسلام آباد سے بیجنگ تک کیسی افراتفری مچی تھی۔ مگر اس وقت سسٹم میں ایسے دو چار لوگ تھے جو دماغ سے سوچنے کا کام بھی لیتے تھے۔ گواہی دی جا سکتی ہے کہ ان کی ذمہ داری تھی نہ مفاد۔ یہ داستاں وقت کا قرض ہے کہ کس طرح وہ سرکاری دائرہ سے باہر نکلے، معاشرہ کے کارگر لوگوں سے ملے، ہنگامی اجلاس ہوئے، گھروں پر محفلیں جمیں، صحافی، استاد اور دانشور اور علما تک آن بورڈ لئے، غور فکر ہوا اور طے پا گیا کہ ایک ادارہ چاہیے جو حکمت عملی بنائے اور دماغوں میں گھسے، پروپیگنڈے کا شکار ہونے والوں کا علاج ڈھونڈے، اور دشمن کی سوچ کو پڑھ کراس کا قبل از وقت تدارک کرے۔ یوسف رضا گیلانی کے فہم سے بڑی بات تھی البتہ زرداری نے حامی بھرلی، مگر رحمٰن ملک اس کے ذریعے آئی ایس آئی کو اپنی جیب میں ڈالنے کا خواب دیکھتے دیکھتے خود خواب ہوگئے، مگر نیکٹا کو کام کرنے نہ دیا اور اب نواز شریف یہی چاہتے ہیں۔ جس ادارے نے جنگ کی قیادت کرنا تھی وہ تھریٹ جاری کرنے والا ڈاک خانہ بن کر قلقاریاں مار رہا ہے۔

بیانیہ کی جنگ اتنی مشکل تھی نہ ہے، دہشت گردی کے یہ امام جنہیں زبان رسالت مآب ﷺ نے ’’کلاب النار‘‘(جہمنم کے کتے ) قرار دیا، صرف ان کی اخلاقی اور ذاتی زندگی عوام کے سامنے لے آنا ہی کافی تھا۔ انہیں دین اور مدرسہ یا کسی بھی معاشرتی اکائی سے منسلک کرنے والے عملاً ان کے مدد گار اور سہولت کارکا کردار ادا کر رہے ہیں۔ مجرم کو پوری دنیا سنگل آئوٹ کرتی ہے۔ ہم پہلے سے قابل نفرت کرداروں کومذہبی تقدس عطا کرنے چلے ہیں۔ فضل اللہ کی اس سے بڑی خدمت کیا ہوگی کہ چٹا ان پڑھ، صوفی محمد کے داماد بننے کے ماجرے سے بھی سوات کے لوگ آگاہ ہیں اور جنگلات کی لکڑی کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے بھی۔ یہ ظلم ہے کہ ایسے شخص کو عالم دین بنا کر پیش کیا جائے۔

عبدالولی عرف عمر خالد جو اب خراسانی بھی ہوچکا ہے اس خطہ میں سب سے پہلے بھارتیوں سے ناطہ جوڑنے والا شخص کس الزام میں ایک جہادی تنظیم سے نکالا گیا تھا؟ خود بیت اللہ نے بدکاریوں پر اس سے علیحدگی اختیار کی مگر جب اس نے قوت اختیار کرلی تو پھر ساتھ ملا لیا۔ ایک دوسرا لیڈر وہ بھی ہے جو اب سرنڈر کرکے پوتر ہونے کا ناٹک کر رہا ہے، سو فیصد کورا جاہل بدکاری کرتے پکڑا گیا، سزا پائی، دوسری تنظیم میں گیا، رقم چوری کرکے بھاگ نکلا، لال مسجد تحریک کی ایک لڑکی نےاس کے خوف سے ایک سیاسی کارکن کی دوسری بیوی بننا قبول کیا، بہانے سے بلا کر ذبح کر دیا گیا، تاکہ بیوہ پر قبضہ جما سکے، اس گھناؤنی وارادت کی ویڈٰو ابھی تک لوگوں کے پاس محفوظ مل سکتی ہے۔ ’’کلھم جاھلون ‘‘کی اس سے بڑٰی مثال دنیا میں نہیں ملے گی۔ مگر گالی اور کوسنے سے فرست ملے تو ان حقائق کو سامنے لائیں۔

ڈیورنڈ لائن پر حکومتی عسکری کارروائی تاخیر سے اٹھایا گیا ایک درست قدم ہے، ماضی میں بعض سیاسی تحفظات کے سبب اس کی حمایت تو کی جاتی تھی مگر عمل میں تردد رہا۔ افغان حکومت سے یہ توقع رکھنا کہ وہ پاکستان کے دشمنوں کو پکڑ کر حوالہ کرے گی یا امریکی ایسا کریں گے، ایں خیال است و ایں محال است و جنوں است، ذمہ داران کی سطح پر ایسی کوئی خوش فہمی پہلے تھی نہ اب ہے، البتہ امریکہ کی مرضی کے خلاف جانے کی ہمت کا معاملہ ضرور ہے جو حالات اور ضروریات کے تحت کم و بیش ہوتا رہتا ہے۔

اب تو کابل حکومت سے ویسے ہی کسی کام کی توقع نہیں رکھی جاسکتی کیونکہ وہ ٹی ٹی پی قیادت کی اخلاقیات سدھارنے جیسے ضروری کاموں میں مصروف ہے۔ اشرف غنی حکومت اس بحران سے دوچار ہے کہ نائب صدر اول رشید دوستم پر شمالی صوبہ جوزجان کے سابق گورنر احمد ایشچی نے الزام لگایا ہے کہ نومبر کے آخری ہفتے دوستم نے اسے اپنے شہر شبرغان میں بزکشی کے ایک میچ کے بعد اغوا کیا، اپنے گھر لے جاکربرہنہ کروایا اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا، پانچ روز بعد زخمی حالت میں صوبائی انٹیلی جنس کے حوالہ کردیا جس نے علاج معالجہ کے بعد بابے کو گھر پہنچایا۔ امریکی سفارخانہ بھی تحقیقات میں مصروف ہے، شمال کے ترکمانی افغان اور تمام دوستم مخالف متحد ہوکر کارروائی کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ دوستم نے اپنے وارنٹ لے جانے والوں کی بھی چھترول کردی ہے، اشرف غنی اکیلی جان بے چارہ کیا کرے۔ اپنے بابے کنٹرول کرے یا کئی ایک ملکوں کی پشت پناہی میں بیٹھے آپ کے مجرموں کو پکڑ کر ان ممالک سے پنگا لے، جن سے آپ خود گریز کر رہے ہیں۔

حل صرف ایک ہی ہے کہ دہشت گردوں کی بھرتی روکنے کی خاطر قابل اعتماد ذرائع سے مجرموں کے کرتوت سامنے لائے جائیں، شریعت کے نام پر شریعت کی توہین کو سامنے لایا جائے اور فورسز نے جو شروع کیا ہے اسے مکمل کیا جائے، فوج کے سرحد پار کیے بغیر بھی ان کیمپوں پر حملے مشکل نہیں۔ سفارتی دماغوں کو بھی ہوا لگوائی جائے اور جن ممالک کی مداخلت کے ثبوت ملے ہیں ان میں سے جو جس زبان میں سمجھنے کا عادی ہے، اس سے اسی زبان میں بات کرلی جائے کہ اب بس، ہماری برداشت جواب دے چکی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments