دین محمد پولیس والے۔ تم زندہ کیوں ہو؟


ہمارا سکول بہت چھوٹا سا ہوتا تھا، چوتھی پانچویں جماعت ہو گی۔ بزم ادب نام کا ایک پیریڈ ہفتے میں دو روز ہوتا تھا اور اس میں بچے تقریریں وغیرہ کرتے یا بیت بازی ہوتی یا ویسے ہی ٹیچرز بچوں کے ساتھ گپ شپ کر لیتی تھیں۔ تو اس دن بزم ادب ہو رہا تھا۔ کوئی اور کام رہ نہیں گیا تھا، پیریڈ ختم ہونے میں کافی وقت تھا۔ بچوں سے پوچھا گیا کہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے۔ سب نے جواب دیے۔ بیس بائیس کی تعداد تھی، کسی نے پائیلٹ بننا تھا، کوئی فوجی بننے کے موڈ میں تھا، کچھ نے ڈاکٹر بننا تھا، دو تین انجینیر بننا چاہتے تھے، ایک بچے نے کہا میں پولیس والا بنوں گا۔ باقیوں نے اس کا خوب مذاق اڑایا۔ ٹیچر یہ پولیس والا بنے گا، اس کا موٹا سا پیٹ ہو گا، ڈھیلی سی پینٹ پہنے گا، یہ ڈائیریکٹ حوالدار ہو گا، یہ لوگوں سے پیسے لے گا، اور سب بے تحاشا ہنسنا شروع ہو گئے۔ بچے کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ آنسووں کی وجہ سے ہی یہ قصہ یاد رہ گیا۔

پولیس کا محکمہ آج بھی اس بے توقیری کا شکار ہے جو اس وقت وہ بچہ برداشت کر رہا تھا۔ اعلی افسران سب کچھ جانتے ہیں لیکن کچھ کرنا شاید ان کے بس میں بھی نہیں ہوتا۔ افسروں کے ذمے پولیس لائن کا دورہ تو لازمی ہوتا ہو گا، وہاں پڑے خستہ حال ٹرنک، جھلنگا چارپائیاں، اور وردی لٹکانے کی کھونٹیاں عام سپاہیوں کی کل کائنات ہوتے ہیں، یہ بھی نظر آتا ہو گا۔ اس کائنات میں رہتے ہوئے چوبیس چوبیس گھنٹے یا کبھی اس سے زیادہ کی ڈیوٹیاں بھی لی جاتی ہیں، یہ بھی علم میں ہو گا۔ چھوٹے موٹے تھانوں میں کاغذ قلم تک کیسے پیدا کیے جاتے ہیں، یہ بھی جانتے ہوں گے، گشت کرنے والی گاڑی اور اس کا پیٹرول کیسے مہیا ہوتا ہے یہ بھی طشت ازبام ہو گا۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ سپاہی ہر کام کیے جاتے ہیں۔ یہ ناکوں پر حفاظت بھی کریں گے، یہ دھماکوں میں مریں گے بھی، یہ سیکیورٹی پروٹوکول بھی دیں گے، یہ عیدوں اور محرم کی چھٹیوں میں بھی الرٹ کھڑے ہوں گے، بچوں کا کیا ہے انہیں پھر کبھی مل لیں گے، کوئی دھرنا کوئی جلسہ کوئی جلوس، یہی کم بخت سب کچھ نمٹائیں گے اور یہ سب کرنے کے بعد جب ایک عام کاکا سپاہی بازار سے خرید کر روٹی کھائے گا اور تھکن کے مارے تھوڑی زیادہ کھا لے گا اور باہر کا کھا کھا کر توند نکال لے گا تو اسے ”حرام خور“ تک کے طعنے ملیں گے۔ افسروں کے آنے کی صورت میں دوڑ الگ لگوائی جائے گی تاکہ ایک ہی دن میں ”فٹ“ کیا جا سکے۔

تو یہ سب وہ رونے ہیں جو ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور گزارہ مزارہ ہوتا رہتا ہے۔ جیسے تیسے پیچھے گاؤں میں چولہا جلتا رہے، باپ کی مونچھوں کا تاؤ سلامت رہے کہ بیٹا پولیس میں ہے، بچے سکول جاتے رہیں، بیوی کو سردی گرمی دو دو جوڑے مل جائیں اور کچھ نہ کچھ رقم بہنوں کی چوڑیوں پر لگتی رہے تو  پولیس والا خوش رہتا ہے۔ خود اسی چارپائی اور اسی ٹرنک کے ساتھ جہاں جہاں تبادلہ ہو گا وہاں وہاں گھومتا رہے، ستے خیراں، رہے نام اللہ کا!

مسئلہ وہاں آتا ہے جب چھ سات ماہ تنخواہ نہ ملے، گھر کی بجلی کٹ جائے، راشن پانی کے نام پر تنکا تک نہ بچے، سکول والے اولاد کو گھر بھیج دیں کہ اماں باوا سے کہو پہلے فیس دیں، پھر ساری ٹیوشنیں بھی بند ہو جائیں، چھوٹے بچے دودھ کو ترس جائیں، تو وہاں وہ پولسیا بول اٹھتا ہے۔ محکمہ در محکمہ رلتا رہتا ہے۔ کہیں پر آواز نہیں سنی جاتی۔ حالات خراب تر ہو جاتے ہیں تو ویڈیو ریکارڈ کرتا ہے اور سوشل میڈیا کا سہارا لیتا ہے۔

کہانی کیا تھی، نظیر اکبر آبادی پہلے سنا گئے، جو اہل علم، عالم و فاضل کہاتے ہیں/ مفلس ہوئے تو کلمہ تلک بھول جاتے ہیں/ پوچھے کوئی الف تو اسے ب بتاتے ہیں/ وہ جو غریب غربا کے بچے پڑھاتے ہیں/ ان کی تو عمر بھر نہیں جاتی ہے مفلسی۔ بس یہ عمر بھر کی مفلسی کا قصہ تھا۔ دین محمد بے چارہ کچھ پڑھ لکھ گیا تو سوچا وائرلیس آپریٹری چھوڑ کر ایجوکیشن کے محکمے چلا جائے، وہاں جا کر بھی ڈھاک کے تین ہی پات دیکھے تو واپس آنے کی غلطی کر لی۔ اب کاغذات میں کچھ گڑبڑ ہوئی، کلرکوں کی غلطی یا کوتاہ نظری کہ غریب آدمی چھ سات ماہ بغیر تنخواہ کے رلتا رہا۔ آواز اٹھائی، لازمی طور پر تلخ ہوا ہو گا، پیٹ میں روٹی نہ ہو اور چار پانچ جی بھوکے گھر بیٹھے ہوں تو جانور بھی لڑ پڑتا ہے، انسان تھا، کچھ اونچ نیچ ہوئی اور اوپر تلے تین چار تبادلے کروا بیٹھا۔ کہیں بھی کسی نے بھی آواز نہ سنی تو یہ ویڈیو والا کام کر دیا۔

اقرار ہے، بہت تلخ باتیں کی، خادم اعلی کے حضور بھی گستاخی کی، لیکن ایک آدمی جو اتنا مجبور ہے کہ خود کشی کے دروازے پر نظر آتا ہے، کچھ رحم کیجیے اس کے حالات پر، اسے دیوار سے اتنا مت لگائیے کہ وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر آخری قدم اٹھا لے۔ دین محمد آخری قدم اٹھا بیٹھا۔ ویڈیو جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور افسران بالا غصے میں آ گئے، تھوڑی مار پیٹ کی، آخری خبروں تک اسپتال سے ویڈیو آئی تھی اور ایک شخص نے تشدد کی گواہی دی تھی کہ اس کی آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ کیا گیا۔

پولیس کا محکمہ ہمارا وقار ہے۔ پورے پاکستان میں اندرونی خطرے کی صورتحال سرحدوں سے زیادہ نازک ہے۔ یہ لوگ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ یہ فرنٹ لائن کے سپاہی ہیں۔ دین محمد بے چارہ معمولی سا وائرلیس آپریٹر ہے۔ پڑھ لکھ گیا ہے تو اپنی آواز ہر ممکن طریقے سے حکام بالا تک پہنچانا چاہتا ہے۔ پہنچ ہی گئی تو صاحب درگزر کر دیجیے۔ بچوں کی اداس آنکھیں اور بیوی کا سوالیہ چہرہ خدا کسی کو نہ دکھائے، کچھ اپنے گھر پر نظر ڈال کر اس کے مسائل حل کر دیں۔ کیا تنخواہ ہو گی، بیس، پچیس، تیس ہزار؟ اس سے زیادہ ہمارا دین محمد کیا مانگتا ہو گا؟ تو وہ سلسلہ چلوا دیجیے بعد میں بے شک محکمانہ کارروائیاں ہوتی رہیں۔ گھر کی طرف سے تسلی ہو تو انسان پھانسی کے تختے پر بھی پرسکون ہوتا ہے کہ ہاں کوئی ولی وارث پیچھے ہو گا جو دیکھتا رہے گا۔

دین محمد یار یہ سب قسمت کے پھیر ہیں۔ تم ڈیوٹی پر ہوتے اور دھماکے میں شہید ہو جاتے تو یہ سب مسئلے حل تھے۔ ایک کروڑ روپے کے ساتھ دس مرلے کا پلاٹ بھی ملتا، تم نہ ہوتے، کیا ہوا؟ بھوک، ویرانی، سسکیاں، آہیں، کوسنے، طعنے، تشنے، کچھ بھی نہ ہوتا یار!

(بشکریہ روزنامہ دنیا)

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments