انتہا پسندی کی منطقی بنیادیں


 چند ماہ پہلے سوشل میڈیا پر ایک مفتی صاحب نے علمائے دین سے ایک سوال پوچھا کہ دینی مدارس میں ابتدا سے صرف ارسطو کی منطق کیوں پڑھائی جارہی ہے۔ اُن کا یہ سوال ایک طرف ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ کرتا ہے تو دُوسری طرف ہماری تین بنیادی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کرتا ہے۔ ایک تو یہ کہ دینی تعلیم میں فکر اور عقلی استدلال کا کوئی عمل دخل نہیں۔ دُوسری یہ کہ عقلی استدلال کا علم انتہا پسندی کا تریاق ہوسکتا ہے اور تیسری یہ کہ مذہبی، خاص طور پر اسلامی فکر مشرقی فکری نظام کے تابع ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یونانی مفکر ارسطو مغربی نظامِ فکر کا باپ ہے جبکہ ماہرین چینی مفکر لاؤتزو (Lao Tso) کو مشرقی نظامِ فکر کا امام مانتے ہیں۔ ہمارے ہاں اسلام پرست مشرق کا دفاع کرتے ہیں اور عقیدہ شکن مغرب کا لیکن دونوں فریقین نہیں جانتے کہ  سامی الہٰیات اور فقہ کو ارسطو کی منطق (Aristotelian Logic) کے تابع ہونے کی بنا پر یہودیت، مسیحیت اور اسلام کو مشرقی نہیں بلکہ مغربی مذاہب کہا جاتا ہے۔

ارسطو کی منطق کے تنقیدی مطالعات کی طرف آئیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کے سائنسی و ریاضیاتی حلقوں میں چند صدیاں پہلے ہی یہ مباحث شروع ہوگئیں تھیں کہ اس منطقی نظام کے سہارے آگے نہیں بڑھا جاسکتا لیکن مذہبی الہٰیات و فقہ میں اس نظام کا سکہ آج بھی چل رہا ہے۔ ارسطو کی منطق پر تنقید کرنے والے ریاضی اور سماجی علوم کے ماہرین کا خیال تھا کہ اس فکری نظام کے کچھ اصول فکری انتہا پسندی کا باعث بنتے ہیں کیونکہ یہ نظام ان فکری قوانین پر مبنی ہے جنہیں روایتی طور پر بدیہی (self-evident) تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ یہ قوانین آنکھ کی مانند ہیں جو سب کچھ دیکھ سکتی ہے پر اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتی۔ یعنی ان فکری قوانین کی مدد سے ہر شے پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے لیکن ان قوانین پر نہیں۔

ارسطو کی منطق میں خاص طور پر انتہا پسندی کا بیج سمجھا جانے والا فکری قانون ’خارج الاوسط ‘ (law of excluded middle) ہے اور اس مضمون میں ہم صرف اس قانون پر بات کریں گے۔ یہ قانون انتہائی پسندی کا باعث اس لئے بنتا ہے کیونکہ یہ دو انتہاؤں کے درمیان لازمی طور پر پائے جانے والے گرے ایریاز ( جہاں نہ سفید ہے اور نہ سیاہ) کے وجود سے انکار کرتا ہے۔ اسی بنا پر اسے مبالغہ ’خارج الاوسط ‘ ((fallacy of excluded middle کا باپ کہا جاتا ہے۔

یہ مغالطہ یہ ہے کہ دوانتہاؤں کے درمیان کوئی درمیانی مقام وجود نہیں رکھتا اور اس کا نتیجہ اس بے لچک کج فکری کی صورت میں نکلتا ہے کہ سیاہ و سفید کی انتہاؤں کے درمیان کوئی مقام، کوئی گرے ایریا وجود نہیں رکھتا۔ اس لئے اگر میں درست ہوں تو دُوسرا لازمی طور پر غلطی پر ہوگا کیونکہ دونوں بیک وقت درست نہیں ہوسکتے۔ اس قانون پر بنیاد رکھنے والے استدلال میں دوصحراؤں کے بیچ کسی نخلستان کا سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا۔ اس لئے اگر میں حق پر ہوں تو ہر و ہ شخص جھوٹا ہے جو مجھ سے متفق نہیں ہے، اگر دوسرا جھوٹا ہے تو وہ میری ضد ہے، اس لئے مجھ پر واجب ہے کہ میں اسے مٹا دوں کیونکہ کائنات میں ہر شے اپنی ضد سے لڑرہی ہے۔ غلبے کے لئے اپنی ضد سے جنگ اصولِ فطرت ہے۔

 ارسطو اس قانون کی وضاحت منطق کے علاوہ مابعد الطبعیات اور تجزیات میں کرتا ہے۔ بعد کے منطق دان، جن پر ہم آگے چل کر بات کریں گے، کہتے ہیں کہ اس قانون کا اطلاق طبیعات یا مادے پر ہوسکتا ہے لیکن مابعد الطبیعات (تجریدی فکر ) پر نہیں مگر ارسطو مابعد الطبیعات میں ہی لکھتا ہے :

’’دو اضداد کے مابین کسی درمیانی مقام کا وجود رکھنا ناممکن ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اگر ہم ایک کو تسلیم کریں تو دُوسرے کے ہر پہلو کا یکسر انکار کردیں‘‘۔

اگر اس اصول کو تسلیم کرلیا جائے تو ارسطو کی منطق پر یقین رکھنے والا کہے گا کہ دن دن ہے اور رات رات۔ دونوں ایک دُوسرے کی ضد ہیں لہٰذا یہ دونوں ایک نہیں ہوسکتے۔ دن اُس وقت ہوتا ہے جب رات نہیں ہوتی۔ رات اُس وقت چھاتی ہے جب دن نہیں رہتا۔ اس لئے جو باقی رہنا چاہتا ہے اُسے اپنی ضد کو ختم کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ اس طرزِ فکر میں سیاہ اور سفید کے درمیان گرے ایریا وجود نہیں رکھتا اس لئے یہ جدلیاتی طرزِ دنیا میں فسادات، تصادم، ٹکراؤ، انفرادی و اجتماعی انا پرستی اور جدال و قتال کو فطری قرا ر دیتا ہے۔ چونکہ مکالمہ گرے ایریا اور انتہاؤں کے لق و دق صحراؤں کے بیچ گرے ایریا کے نخلستانوں میں ممکن ہوتا ہے، اس لئے ارسطو کے اس قانون کی روشنی میں مکالمے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔

یہی وجہ ہے کہ مکالمے کی جائے پیدائش یونان نہیں بلکہ ہندوستان بنتا ہے جہاں بدھ، مہاویر اور کبیر جیسے لوگ اس کی عملی شکل پیش کرتے ہیں جبکہ چین میں لاوتزو منطقی۔ لاؤتزو کی طرف آئیں تو ہمیں یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ مشرق ازمنہ قدیم سے قانون داخل الاوسط ‘  (law of included middle) کا قائل رہا ہے، یعنی سیاہ اور سفید کے بیچ گرے ایریا ز کو تسلیم کرتا رہا ہے۔ اگر ہم قانون داخل الاوسط کی روشنی میں دیکھیں تو یہ استدلال رد ہوجاتا ہے کہ دن تب آتا ہے جب رات زیر ہوجاتی ہے۔ رات تب آتی ہے جب دن شکست کھا جاتا ہے، لہٰذا دن اور رات ایک دُوسرے کی ضد ہیں اور ان کے درمیان جدل و قتال جاری ہے۔ اس لئے جو باقی رہنا چاہتا ہے اُسے اپنی ضد کو ختم کرنا ہوگا۔ اس کے برعکس اصول داخل الاوسط کی مدد سے ہم اس حقیقت تک پہنچتے ہیں کہ جو چیزیں بظاہر ایک دُوسرے کی ضد دکھائی دیتی ہیں حقیقت میں انہوں نے ایک دُوسرے کو سنبھال رکھا ہے اور اگر آپ ایک کو ختم کردیں گے تو دوسری بھی ختم ہوجائے گی۔

 اس لئے اگر خود بچانا چاہتے ہو تو اُس کو بھی بچانا ہوگا جو بظاہر تمہیں اپنی ضد معلوم پڑتا ہے۔ اگر کسی چیز کی ضد باقی نہیں رہتی تو وہ چیز خود بھی باقی نہیں رہ سکتی۔ اگر دن نہیں رہے گا تو رات بھی نہیں رہے گی۔ اس لئے دن دن بھی ہے اور رات بھی، رات رات بھی ہے اور دن بھی۔ صبح کے وقت دن رات میں داخل ہورہا ہوتا ہے اور رات اس سے تعاون کرتی ہے۔ شام کے وقت دن میں رات میں رات داخل ہورہی ہوتی ہے اور دن اس سے تعاون کرتا ہے۔ آدھی رات کو دن اپنے آپ کو پوری طرح رات کے سپرد کردیتا ہے اور پھر اس کے بعد سپردگی کا دُوسرا چکر شروع ہوجاتا ہے۔

اگر رات اور دن اور موسموں کی تبدیلیوں میں کچھ ’’نشانیاں‘‘ ہیں تو وہ جدال کی نہیں تعاون کی آیات ہیں۔

ہم اگر ان نشانیوں، ان ’آیات‘ کی روشنی میں دیکھیں تو کسی کے سچا ہونے کا مطلب دُوسرے کا جھوٹا ہونا ہرگز نہیں۔ اس لئے غلبے کی خاطر اپنی ضد کو ختم کرنے کی کوشش عبث ہے کیونکہ مطلق سچ اور مطلق جھوٹ کی انتہاؤں کے مابین لا تعداد گرے ایریاز موجود ہیں۔ سیاہ و سفید کی باریک انتہاؤں کے درمیان دُور تک پھیلے بسیط مقامات ہیں جہاں سیاہ و سفید نے ایک دُوسرے کو سنبھال رکھا ہے اور یہیہ وہ مقامات ہیں جنہیں نظر انداز کرنا انتہا پسندی کی بنیا د بنتا ہے۔ قانون داخل الاوسط کی روشنی میں یہ ممکن ہے (اور ہوتا آیا ہے ) کہ آج جو تمہیں باطل لگ رہا ہے اُسی سے کل کوئی تمہارے جیسا پیدا ہوجائے۔ آج جو تمہیں حق لگ رہا ہے ہوسکتا ہے اس کی کوکھ سے وہ جنم لے جسے آج تم باطل کہہ رہے ہو۔ ہوسکتا ہے تم خود کل اُس صف میں شامل ہوجاؤ جس میں شامل افراد کو آج تم باطل کہتے ہو۔ ہوسکتا ہے دشمن کے گھر دوست اور دوست کے گھر دشمن پیدا ہوجائے۔ تمہاری فکر تو ساکت ہوسکتی ہے، ہستی ہرگز ساکت نہیں۔

 یہ مباحث واضح کرتی ہیں کہ مغرب کا قانون خارج الاوسط جامد اور مشرق کا داخل الاوسط متحرک ہے۔ اول الذکر ٹھوس ہے جب کہ موخر الذکر مائع۔ ایک رُکا ہوا ہے تو دُوسرا ہردم رواں، جیون کے سُر ساگر کی طرح۔

جیون میں کچھ ساکت نہیں، کچھ رکا ہوا نہیں، ہستی میں اس وقت جہاں رات کا اندھیرا ہے، کل دن کا اجالا ہوگا۔ جہاں اب اجالا ہے، کل اندھیرا ہوگا۔ اس لئے یہاں نہ کوئی مستقل دوست ہے نہ دشمن۔ نہ کوئی مستقل حق ہے اور نہ باطل، یہاں سب بہہ رہا ہے، سب رواں دواں ہے۔ اس لئے زندگی کو مُردہ منطق کے سہارے نہیں سمجھا جا سکتا۔ زندگی کو مُردہ منطق کے سہارے سمجھنے کی کوشش ایسے ہی ہے جیسے سرکنڈوں کے چپو بنا کر سمندر پار جانے کی حماقت کرنا۔ خارج الاوسط میں سب ساکت ہے۔ دشمن دشمن اور دوست دوست ہے، مگر جیون ارسطو کی آنکھ سے نہیں دیکھتا۔ ہستی ارسطو کی آنکھ سے نہیں دیکھتی۔

 ہمارے ہاں بہت سے مذہب پرست اس بات سے بھی ناواقف ہیں کہ دخل الاوسط کے علاوہ مذاہب عالم کا سنہری اصول 3000 قبل از مسیح میں سب سے پہلے لاؤ تزو نے پیش کیا تھا۔ : ’’جو کچھ اپنے لئے چاہتے ہو وہی کچھ دُوسروں کے لئے پسند کرو‘‘۔ یہ اصول اسی منطقی قانون کا نتیجہ ہے کہ دُوسرا تمہاری ضد نہیں بلکہ تمہارا ہی حصہ ہے۔ یہ اصول مغربی مذاہب (یہودیت، مسیحیت اور اسلام) کا بھی بنیادی اصول ہے مگر الہٰیات اور قانون دانوں نے مغربی مذاہب کی رُوح ارسطو کی جدلیاتی منطق کی سولی پر چڑھا دی گئی ہے مگر ان تینوں مذاہب کے باطنی سلاسل (کبالہ، سریت پسندی اور تصوف ) نے حیات سے کشید کردہ متحرک، مائع اور ہردم رواں دانش سے رشتہ قائم رکھنے کی کوشش کی ہے اور اسے عقیدہ پرستی کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیا۔

ارسطو کے اس منطقی اصول پر مغرب میں ہونے والی تنقید کی طرف آئیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب کے علمی حلقوں نے فرانسس بیکن کے دور سے یہ محسوس کرلیا تھا کہ ارسطو کی جدلیاتی منطق انتہاؤں کے مابین میانہ روی کے نخلستانوں کو نظر انداز کرکے ایک طرف عدم برداشت کو جنم دے رہی ہے تو دوسری طرف ان نخلستانوں میں موجود اُن حقائق پر پردہ ڈالتی ہے جو ان انتہاؤں کے باریک نکات کی نسبت بسیط اور بیکراں ہیں۔

 یہ دیکھتے ہوئے گذشتہ صدی میں جرمن ریاضی دان ایل۔ ای۔ جے برور (L.E.J. Brouwer) نے اس منطق کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور 1920 میں پالش کے منطقی دبستان کے رہنما ژال ٹکا سی وچ (Jan Łukasiewicz) ایک فکری و ریاضیاتی پیمانہ متعارف کرایا جس میں سچ کی تیسری قدر (third truth-value) بھی شامل ہے اور یہ تیسری قدر نہ مطلق سچ ہے اور نہ جھوٹ۔ اس وقت تک پیش کردہ ماڈلز میں مطلق سچ اور مطلق جھوٹ کے درمیان گرے ایریاز میں موجود سچائی کے لاتعداد درجات کو تسلیم کیا جارہا ہے اور انہیں مناسب جگہ دی جارہی ہے (انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا Laws of thought)۔ اس کے برعکس مغربی مذاہب میں اب بھی یہی سمجھا جارہا ہے کہ ایک اگر مذہب مطلق حق ہے تو دُوسرا مطلق باطل ہے۔ اس فکری انقلاب کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ مختلف ہونے کا مطلب مختلف ہونا اور لائق فہم ہی سمجھا جائے، حق و باطل نہیں۔

سائنس دانوں اور ریاضی دانوں کے علاوہ پائرالیل تھنکنگ (متوازی سوچ) نامی کتاب کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت حاصل کرنے والے ایڈورڈ ڈی بونو نے 1990 میں کتاب ’’میں درست ہوں اور تم غلط ہو‘‘ (I am Right You are Wrong) عام قارئین کے لئے شائع کی جس میں انہوں نے سائنسی و ریاضیاتی حلقوں میں ہونے والی متذکرہ بالا تکنیکی تحقیق کو مزاج عوام کیا۔ اس کتاب میں وہ ارسطو کے روایتی طرزِ فکر کو ٹھوس منطق (rock logic) جب کہ لاتزو اور ہندوستان رشیو کی متحرک منطق کو مائع منطق (water logic) کہتے ہیں۔ ڈی بونو روایتی منطق پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مغرب میں ایک طرف مذہب پر تنقید کرنے والے اسی منطق کا استعمال کررہے تھے تو دُوسری طرف سینٹ ایکوانس بھی اسی منطق کی مدد سے مذہب کا کامیاب دفاع کررہے تھے۔

چونکہ اس منطق میں مکالمہ کے لئے درکار گرے ایریا کی گنجائش نہیں، اس لئے آج تک دونوں طبقات کے درمیان مکالمہ ممکن نہیں ہوسکا کیونکہ روایتی ٹھوس منطق میں فریقِ مخالف کو شکست تو دی جاسکتی ہے مگر اس کے ساتھ مل کر اس کے مفروضات کو سمجھتے ہوئے مشترکہ معانی تلاش نہیں کئے جا سکتے۔ کیونکہ روایتی منطق کا مقصد دُوسرے کو باطل ثابت کرنا اور دلائل کی مدد سے زیر کرنا تو ہوسکتا ہے دُوسرے کی آنکھ سے دیکھنا ہرگز نہیں۔ اس لئے اس منطق کو زیر کار لاکر دلائل کے دبیز پردے میں جو بھی چیز غالب آتی ہے وہ دراصل ننگی عسکری قوت ہوتی ہے علم و دانش نہیں۔

سامی مذاہب میں الہٰیاتی، فقہی اور نصی معاملات، جیسا کہ مفتی صاحب فرمارہے تھے، ارسطو کی ٹھوس منطق اور خاص طور پر قانون خارج الاوسط کی ’روشنی ‘ میں اخذ، سمجھے، سمجھائے اور راسخ کئے گئے ہیں ۔ اگر اس ٹھوس منطق کی بجائے دینی علوم میں مائع منطق (جو عین فطری، سیاہ و سفید اور حق و باطل کے مابین گرے ایریاز کو تسلیم کرتی ہے ) پڑھائی جانے لگے تو سامی مذاہب کی تاریخ اور حق و باطل کے کہنہ معیارات پر نظرثانی کرنا پڑ جائے گی۔ دارالحرب کو دارالفہم قرار دے کرہمدردی سے سمجھنا پڑ جائے گا۔ مناظرے اور مجادلے کی جگہ مکالمے کو دینا پڑے گی۔ ’میں درست اور باقی سب غلط ‘کے خبط پر قابو پاکر،عاجزی سے اپنے مفروضوں میں غلطی کے امکان کو تسلیم کرتے ہوئے دُوسروں کے مفروضوں پر ہمدردی سے غور کرنا پڑے گا۔ اس لئے ہوسکتا ہے کچھ لوگ اپنی شناخت اور خودساختہ حقانیت کو لاحق خطرات کے پیشِ نظر ارسطو کی منطق اور قانون خارج الاوسط کو سماوی قانون ہی قرار دے ڈالیں مگر دن رات ایک دُوسرے سے تعاون کرکے نشانیاں دکھاتے رہیں گے۔

شاید ان سب خطرات کے پیشِ نظر مفتی صاحب نے بھی یہ سوال دوبارہ نہیں پوچھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments