دیوبندیت اورعسکریت پسندی


سیہون شریف میں رونما ہونے والے سانحے کے بعد سوشل میڈیا میں یہ بحث چھڑی ہے کہ چونکہ اکثر کالعدم تنظیموں کا مسلکی تعلق دیوبندیت سے ہوتا ہے اس لئے اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس مسلک کا بنیادی مزاج ہی عسکریت پسندی کی تائید کرتی ہے۔ گزشتہ روز برادرم عدنان خان کاکڑ کی اسی موضوع پر ایک تحریر“ہم سب“ پر بھی شایع ہوئی تھی جس میں انہوں نے پاکستان میں اس حوالے سے دیوبندیوں کی سیاسی قیادت کی رائے اور موقف کو انہی کے الفاظ میں پیش کیا تھا۔ میری ان چند گزارشات کو بھی اسی تحریر کا تسلسل اور ضمیمہ سمجھا جائے اس فرق کے ساتھ کہ میری کوشش یہ ہوگی کہ اس حوالے سےخود دیوبندیت کے بنیادی ماخذ اور مرجع دارالعلوم دیوبند کے سابقہ اکابرین اور موجودہ طرز عمل کی بھی نشاندہی کی جائے اور دوم یہ کہ پاکستان میں اس مسلک سے تعلق رکھنے والے بعض حضرات کے دیوبند کی حقیقی روح اورمزاج سے انحراف کے اسباب پربھی کچھ روشنی ڈالی جائے۔

بنیادی طور پر دیوبندی فکر کی تاریخ میں تین مراحل ایسے آئے ہیں جس سے یہ استناد کیا جا سکتا ہے کہ دیوبندیوں کا فکری منہج ہی عسکریت اور تشدد پسندی ہے ان میں سے دو واقعات کا تعلق دارالعلوم دیوبند کے قیام سے بھی پہلے دور کے ساتھ ہے اور ایک دارالعلوم کے قیام کے بعد کے دور کا ہے۔

شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے دور میں اگرچہ دارالعلوم دیوبند کی قیام کے آثار بھی نہیں تھے مگر اس خاندان کے ساتھ اہل دیوبند کی فکری تعلق کے باعث حضرت شاہ ولی اللہ کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیزکی 1803 میں ہندوستان کو دارالحرب قرار دینے اور انگریزوں کے خلاف جہاد کے فتوی کو دیوبندی مسلک اون بھی کرتا ہے اور اس کارنامے کو اپنی جدوجہد کا ایک سنہرا باب بھی سمجھتے ہیں حضرت شاہ عبدالعزیز نے اس فتوی کے بعد باقاعدہ لبریشن آرمی بھی تشکیل دی تھی اور اس کا سربراہ سید احمد شہید کو مقرر کیا گیا تھا۔ اس تحریک کی ناکامی کا انجام معرکہ بالاکوٹ کی صورت میں ہوا

دوسری مرتبہ1857 کی جہاد آزادی یا بغاوت کی تحریک میں دیوبندی اکابرین کا عملاحصہ لینا تھا اس جنگ میں مولانارشید احمد گنگوہی، مولانا ناتوی، حاجی امداد اللہ اور حافظ محمد ضامن سمیت کئی دیوبندی اکابر بنفس نفیس شریک ہوئے جن میں سے حافظ ضامن شہید، مولانا ناتوی زخمی اور مولانا گنگوہی گرفتار ہوگئے

1866میں دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا اور اس کے بعد 1912 میں شیخ الہند کی قیادت میں ریشمی رومال کے نام شروع ہونے والی خفیہ تحریک تھی جو 1916 میں اس وقت ناکامی سے دوچار ہوئی جب ملتان میں انگریز سرکار کے ہاتھوں ریشم کے کپڑے پر لکھے گئے تین خطوط پکڑ لئے اور پھر تحقیقات کے نتیجے میں شیخ الہند اور حسین احمد مدنی سمیت دیوبند سے وابستہ 222 علماء کو گرفتار کیا گیا

یہاں یہ بات واضح رہے کہ ان تینوں تحریکوں میں سے کسی ایک کا بھی مقصد نہ شرعی نظام کا نفاذ تھا اور نہ ہی ان میں سے کسی تحریک میں خالص انگریز حکمرانوں کے سوا ان کے مقامی حامیوں اور وفاداروں کو بھی نشانہ بنانا تھا

ان تحریکوں کے مراحل سے گذرنے کے بعد مستقل طور پر دارالعلوم دیوبند کی فکری نہج اورعملی حکمت عملی کیا بنی اس کے لئے حضرت مدنی کی ایک مفصل مکتوب کی درج ذیل اقتباس پڑھنے سے کافی مدد ملتی ہے ”مکتوبات شیخ الاسلام“ میں مکتوب نمبر 36 میں حضرت مدنی فرماتے ہیں

“اگر (ہندووں کے ساتھ ملنے سے) یہ مراد ہے کہ میں کانگریس کا ممبر ہو گیا ہوں تو میں کانگریس کا اس وقت سے ممبر ہوں جب سے کہ مالٹا سے ہندوستان آیا اس سے پہلے میں انقلابی تشدد آمیزخیالات کے ساتھ انگریزی موجودہ اقتدار کا مخالف تھا اور اسی بنا پر مالٹا کی چار برس قید کاٹی تھی اور واپسی مالٹا کے بعد عدم تشدد کے ساتھ انگریزی اقتدار کا مخالف اور ہندوستان کی آزادی کا حامی ہوگیا ہوں (کچھ آگے جاکر لکھتے ہیں) “میں ہر اس انقلابی جماعت میں شریک ہونے کو تیار ہوں جو انگریزی اقتدار کو ہندوستان سے ختم کرنے یا کم کرنے کی سچائی سے کوشاں ہو اور اپنی پالیسی عدم تشدد رکھتی ہو“

انگریز جیسے خالص استعماری اور قابض حکمرانوں کے خلاف بھی “عدم تشدد“ کو اپنا مستقل پالیسی بنانے اور پھر 1919 میں جمعیت علماء ہند کی قیام کی صورت میں خالص پرامن سیاسی جدوجہد سے وابستہ ہونے کے بعد دیوبندیت کو کیونکر ایسی متشدد تحریکوں کا حامی مانا جا سکتا ہے جو یا تو اسلامی نظام کے نفاذ کے نام پر کھڑی ہو، یا کسی فرقہ وارانہ بنیاد پر تشدد کا استعمال کیا جا رہا ہو یا پھر اپنے ملک کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میں مسلح جدوجہد میں شریک ہونا صحیح سمجھا جاتا ہو

اب رہی بات پاکستان کے دیوبندیوں کی طرزعمل کی تواس میں کوئی شبہ نہیں کہ دہشت گردی کو فکری تائید اور شرعی فتوے دیوبندیوں کے جانب سے ہی مہیا ہوتے رہے ہیں اس کی ایک وجہ ایرانی انقلاب کے بعد خطے پر اس انقلاب کی اثر انداز ہونے کی کوشش کی ردعمل کے طور پرسعودی حکومت کی مزاحمت کی خواہش اور مادی سرپرستی بتائی جاتی ہے۔ پھر افغانستان میں سوویت یونین کی جارحیت اوراس کے خلاف جہاد کی صورت میں لڑی گئی “چارلی ولسن وار“ جس میں ملک کے دیوبندی مکتبہ فکر کو بہت فراخدلی کے ساتھ استعمال کیا گیا اور اس کے بعد افغانستان میں تحریک طالبان کا قیام اور یہاں سے ان کی افرادی، فکری اور عملی سپورٹ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سلسلے میں دیوبندی مدارس اور دیوبندی علماء خوب کام آئے لیکن کیا اس “جہاد “یا دہشت گردی کا بنیادی فیصلہ بھی دیوبندیوں یا کسی بھی مذہبی گروہ کا اپنا فیصلہ ہی تھا؟

اس سوال کے جواب میں ہاں کہنا یا تو بے وقوفی اور سادہ لوحی کی علامت ہے یا پھر ایک ہی جرم میں ملوث کمزور فریق کو کیفرکردار تک پہنچانے اور طاقتور فریق کو بے گناہی کا سرٹیفیکیٹ دینے کی بھونڈی کوشش۔ موجودہ دنیا میں کسی ایک یا دوسری ریاست کی پشت پناہی اور سپورٹ کے بغیرکسی مسلح گروپ کی تنظیم، مالی وسائل اور تربیت اور پھر اپنا وجود برقراررکھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ سانحہ لال مسجد کے ”ہیرو“ غازی عبدالرشید سے جب کوئی ملنے جاتا اور ان سے اپنے طرزعمل پر نظرثانی کی درخواست کرتے ہوئے انہیں اس راستے کے خطرناک نتایج سے آگاہ کردیتا توان کا جواب یہ ہوتا کہ خلافت کی قیام کے لئے 70 ہزار فوجی میرے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار بیٹھے ہیں یہ یقین دہانی انہیں کس نے دلائی تھی اور ان کا یہ ذہن کس نے بنایا تھا؟

مفتی نظام الدین شامزئی کو سالہا سال تک جیش محمد اور دوسری تنظیموں کی ابلاغی اور تبلیغی سرگرمیوں کے لئے استعمال کرنے اوران سے مدارس اورعلماء کی“ذہن سازی“ کا کام لینے کے بعد انہیں کس جرم کی پاداش میں شہید کر دیا گیا یہ کہانی اگر سننی ہو تو مولانا شیرانی صاحب سے مفتی شامزئی صاحب کے ساتھ ان کی اس آخری ملاقات کا احوال پوچھ لیجیے گا جس میں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن مدظلہ بھی موجود تھے اس ملاقات کی ضرورت اس لئے پیش آئی تھی کہ اس سے پہلے مفتی صاحب کویٹہ تشریف لائے تھے اور یہاں ایک جہادی جلسے سے خطاب کیا تھا اور عین انہی دنوں جے یو آئی کے صوبائی مجلس شوری نے اپنے ایک فیصلے میں ہرقسم کی مسلح اورعسکری سرگرمیوں سے مذہبی طبقے کو دور رہنے کی ہدایت کی تھی۔ مولانا شیرانی صاحب کو شامزئی صاحب سے یہ شکوہ تھا کہ انہوں نے جے یوآئی کے فیصلوں کا اثر توڑنے اور اس کی مخالف سمت پر لوگوں کو ابھارنے کی پروگرام میں شرکت اورخطاب کیوں کی تھی اور یہی شکوہ مفتی صاحب کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے کراچی میں مفتی صاحب کے گھر پر آنے اور اس موضوع پر تبادلہ خیال کی اطلاع دی گئی تھی۔

دیوبندی تووہ بھی ہیں جو دو یا غالباً تین مرتبہ ملک گیر سطح پر جمع ہو کر دہشت گردی کے خلاف اپنا اجتماعی فیصلہ صادر کر چکے لیکن ان کی یہ بات کسی نے ماننی تھی نہ سننی تھی کیونکہ جو لوگ ان کے مخاطب تھے ان پرعلماء کی سوچ سے زیادہ غیرمرئی قوتوں کا اثر و نفوذ زیادہ تھا

یہ پرویزمشرف کا زمانہ تھا جب ان کے ساتھ سیاسی لیڈروں کی ملاقات ہو رہی تھی اس اجلاس میں مشرف صاحب کا کہنا تھا کہ یہ میدان میں جتنی بھی مسلح تنظیمیں ہیں یہ سب کے سب ہمارے اشارہ ابرو کے تابع ہیں جس پر اسفندیار ولی خان ان سے پوچھنے لگے کہ باہر میڈیا میں تو آپ اس چیز کو تسلیم نہیں کرتے تو مشرف صاحب نے جواب دیا کہ باہر جا کر تو میں اب بھی وہی کہوں گا جو پہلے سے کہتا رہا ہوں یہاں تو میں آپ کو اصل حقیقت بتا رہا ہوں

لہذا آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ دہشت گردوں کو کچلنے کے لئے بے رحمی سے اپنی طاقت استعمال ضرور کریں۔ پولیس مقابلوں کو بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ضرور بنائیں مگر سارا نزلہ کمزور عضو پر گرانے کے بجائے اس “اصل حقیقت“ کو بھی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا جائے اور اس اصل حقیقت کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ جس طرح ایران و عراق کے درمیان موجود سرحد کو بے معنی کر دیا گیا اور اس کے بعد ترکی اور شام کے درمیان اور پھر سعودی و یمن کے درمیان موجود بارڈرز کو جس انداز میں ایک دوسرے کی سرزمین میں فضائی کارروائیوں کی صورت میں بے وقعت کرکے رکھ دیا گیا بالکل وہی کچھ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے جا رہا ہے اور یہ سب کچھ امریکہ کی پالیسی اور ایجنڈے کے تحت ہی ہو رہا ہے اس ” گریٹ گیم“ میں دیوبندی و بریلوی اور شیعہ و سنی کی فرقہ وارانہ تضادات اور منافرت کی بحث چھیڑنا مسئلے کو اپنے حقیقی حجم سے کم کر کے بہت چھوٹے اور سطحی انداز میں پیش کرنا ہے

جہاں تک دیوبندیوں کے لئے اپنا بیانیہ تبدیل کرنے یا اس پر نظرثانی کرنے کی مقامی بحث ہے تو حقیقت یہ ہے کہ عسکریت پسندی کے الزام سے جان چھڑانے کے لئے دیوبندیوں کو نہ کسی بیانیے پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی نئے بیانیے کی تشکیل کی۔

اس مقصد کے لئے بس صرف یہ کرنا ہو گا کہ سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے شیخ الہند اورحضرت مدنی کی عمر بھر کے تجربوں کے بعد ان کی زندگیوں کے آخری دور کی فکر کو بطور حکمت عملی اپنایا جائے اور شرعی حوالے سے پاکستان میں قائم فرنچایز کی طریقہ کار کو ترک کر کے موجودہ دارالعلوم دیوبند کی فتوی دینے کی انداز سے رہنمائی لی جائے جس کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ کسی دوسرے ملک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو درپیش کسی اجتماعی، سیاسی اور معاشرتی مشکل کے بارے میں اگر ان سے پوچھا جائے تو وہ خود فتوی ٹوک دینے کے بجائے یہی ہدایت کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں مقامی علماء سے رابطہ کیا جائے۔ ہمیں افغانستان کے متعلق فتوی دینے کی حق کو افغان علماء پر ہی چھوڑ دینا چاہیے اور اپنے ملک کے اندر اسی منہج پر عمل پیرا ہونا ہو گا جو خالصتاً اصلاحی، پرامن اور ہر قسم کی تشدد کے اثر سے پاک ہو اگر بات دیوبندیت کی ہے تو مناسب لایحہ عمل تو یہی ہے مگر مودودی صاحب یا سلفیت اور خوارج کی فکر سے متاثر ہو کر اس سے مخالف راستے پر چلنے والے عناصر دیوبندی کہلواتے ہوئے بھی دیوبندی نہیں ہیں

پاکستان کے دیوبندیوں کے لئے مندرجہ بالا فارمولہ اصولا اس لئے درست ہے کہ کسی بھی مکتبہ فکر کو اپنے بزرگوں کی فکر اور اپنے علمی مرکز سے وابستگی لایق ستائش ہوتی ہے اور عملاً بھی اس لئے صحیح ہے کہ شیخ الہند اور حضرت مدنی دونوں کی زندگی کی آخری فکر منہج بھی ہرقسم کے تشدد کی نفی پر مبنی تھی اور موجودہ دارالعلوم دیوبند کی شرعی رہنمائی بھی مسلمانوں کے لئے اسی راستے کی تائید کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments