ربِ ذوالجلال عقائد کی بنیاد پر بھید بھاؤ نہیں کرتا


سمجھ نہیں آتا کہ آخر ہم سب سکون سے کیوں نہیں رہ سکتے؟ یعنی میں اور آپ۔ مسلم ہندو عیسائی اور تمام اقلییتیں! آج ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے شر سے محفوض نہیں۔ غیر مسلم تو کسی کھاتے میں ہی نہیں آتا۔ ہم سب اپنی ذات میں محمد بن قاسم کیوں بنتے جا رہے ہیں؟ ہمارے سروں پے دھن سوار ہے کہ ڈنڈے کے زور پر کسی اور کی سوچ کو فتح کریں۔ کیا سچ میں دلوں کو فتح کرنا اتنا ہی مشکل ہو گیا ہے؟

شاید نہیں! اس سوال کا جواب میں نے اپنے دوسرے گھر دبئی میں سمجھا۔ دبئی کے مقامی باشندوں کی آبادی کُل بیس فیصد ہے۔ باقی سب باہر کے لوگ ہیں۔ ہندستان پاکستان فلپایئن اور پھر یورپ اور افریکا۔ یہ تمام لوگ مختلف مذاہب کو ماننے والے ہیں اور متحدہ عرب امارات میں متحد ہو کر رہتے ہیں اور بغیر کسی روک ٹوک کے آزادی سے اپنے مذہب پر عمل پیرا ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے میری امی کا دفتر کے کسی کام کے سلسلے میں دبئی آنا ہوا۔ دبئی کے شاپنگ سینٹرز سے ان کی بنتی نہیں۔ اس شرط پر ہمارے ساتھ نکلیں کہ ہم انہیں پرانا دبئی دکھائیں۔ اس بہانے ہم بھی ان کے ساتھ بر دبئی کی کریک گھومنے نکل پڑے۔ اس کریک کے کنارے دبئی کے پرانے بازار ہیں جن میں ایک ٹیکسٹائل سوق بھی ہے جو کہ مینا بازار کے پیچھے واقع ہے۔ یہ شہر کا مصروف ترین کاروباری علاقہ ہے۔ انہی دنوں ہندوؤں کا مذہبی تہوار گنیش چترتھی بھی جاری تھا جس میں ہندو اپنے بھگوان گنیش کی مورتی کو اپنے گھر رکھتے ہیں۔ چودہ دن تک اس کی پوجا کرتے ہیں اور آخری دنوں میں اپنے بھگوان کی مورتی کو سمندر میں بہا آتے ہیں۔ ان تمام باتوں سے انجان ہم ٹیکسٹائل سوق پہنچے۔ علاقے میں پہنچتے ہی چاروں طرف پھیلی اگربتییوں اور کافور کی خوشبو نے استقبال کیا۔ سوق کے اندر پہنچ کر پتا چلا کہ گنیش چترتھی کو آخری رسومات کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ لوگ گروہ در گروہ اپنے بھگوان کی مورتی کو ہاتھوں میں اٹھائے، مٹھائی اور پوجا کے سامان سمیت چلے آرہے تھے۔ مورتی کو کسی نمایاں جگہ پر رکھتے۔ اس کے گرد دیے جلاتے۔ اس کی پوجا کرتے۔ مٹھائی بانٹتے اور ٹیکسی کشتیوں پر بیٹھ کر (جو کہ بر دبئی اور ڈیرہ کے دو کناروں کے بیچ چلتی ہیں) کریک کے بیچوں بیچ بہا آتے۔

میں نے یہ منظر پہلے صرف ہندستانی فلموں میں دیکھا تھا اس لئے دیکھنے کے لئے رک گئی۔ پر میرے لیے یہ منظر بہت ہی عجیب اور فلموں سے قطعی مختلف منظر تھا۔ ایک مسلمان ملک میں غیر مسلمانوں کو اپنے مذہب پراتنی آزادی سے عمل کرتے ہوئے دیکھنے کا منظر۔ اس علاقے میں سیاحوں کی بہت آمد و رفت رہتی ہے۔ اس لئے اس منظر کے گرد بھانت بھانت کے لوگ موجود تھے۔ مقامی عرب سے لے کر گوروں تک۔ ایک دو پولیس والے علاقے میں دکھے جو اپنے موٹر سائیکل سے ٹیک لگائے، تمام منظر سے لاتعلق، اپنی ڈیوٹی کے تحت صرف ٹریفک کو دیکھ رہے تھے کیونکہ اس علاقے میں ٹریفک بھی بہت ہوتا ہے اور پارکنگ کم ملتی ہے۔ جن کشتیوں میں بیٹھ کر گنیش کو پانی میں ڈالنے کے لیے جایا جا رہا تھا، ان کشتیوں کے مالک اور چپّو چلانے والے مقامی مسلمان تھے جو مقامی عربی زبان میں بولتے ہوئے سواریوں کو آوازیں دے رہے تھے اور کرائے کے معاملات طے کر رہے تھے۔  ابھی ہم یہ منظر دیکھ ہی رہے تھے کہ قریب کی مسجد سے عشاء کی آزان کی آواز چاروں طرف گونجنے لگی۔ ٹیکسٹائیل سوق اور مینا بازار کے بیچ ایک بہت بڑی مسجد بھی ہے، جہاں سے آتی اذان کی آواز اب چاروں طرف گونج رہی تھی۔ جنہیں نماز پڑھنا تھی وہ خاموشی سے مسجد کی طرف چل دیے، مگر کسی نے ان بت پرستوں کو یہ کہہ کر نہیں روکا کہ ہماری عبادت کا وقت ہو گیا ہے اس لئے تم اب اپنی عبادت بند کرو اور نا ہی کسی مولوی نے آ کر یہ کہا کہ ہمارے پاک پانیوں میں اپنے یہ بت مت بہاؤ۔

عجب منظر تھا آزادی کا۔ وہ بھی ایک مسلمان ملک میں۔ جینے کی آزادی۔  سانس لینے کی آزای۔ خوشیاں منانے کی آزادی اور اپنے اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی۔ ایک ایسا مسلمان ملک جو سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ مذہبی نظریے میں بھی ان کا ہم خیال ہے۔ مگر ان کی دوسرے مذاہب کے لئے برداشت انہیں کامیابی کی طرف لے گئی ہے۔ اور اب بھی دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے اور ریگستانوں کو گُل و گلزار کر رہا ہے اور ہم جیسے ملکوں کے روزگار کا وسیلہ بن رہا ہے۔  غیر مسلمان یہاں اپنا کاروبار جمائے ہوئے ہیں۔ کئی ایسے ہیں جن کی یہاں دوسری یا تیسری نسل جوان ہونے کو ہے۔ جو اپنے ملک سے ذیادہ اس ملک کو اپنا گھر کہتے ہیں۔ برسوں یہاں رہنے اور کاروبار کی وجہ سے ان کو تو عربی زبان پر بھی خاصا عبور حاصل ہو گیا ہی ہے، لیکن خود یہاں کا مقامی عرب اردو ہندی زبان پر عبور رکھتا ہے۔ یہاں کبھی غیر مسلم آپ کا دوست ہے۔ کہیں آپ کا پڑوسی غیر مسلم ہے۔ کہیں آپ کا معالج انڈین ہندو ہے کہیں آپ کے بچوں کے ٹیچرز غیر مسلم ہیں۔ مگر سب شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔ یہاں نفرتوں کی گنجائش ہی نہیں دکھتی، کیونکہ ہمیں امن کے معاملے میں متحد ہو کر رہنا پڑتا ہے۔ اسی میں سب کو اپنی بھلائی دکھتی ہے۔ یہاں اگر ہم ایک دوسرے کی سوچ اور مذہب سے متفق نہ بھی ہوں تب بھی ہمیں زبان اور رویوں سے ایسا کچھ بھی ظاہر نہیں کرنا ہوتا۔

میری ایک سیاہ فام  عیسائی امریکی دوست ہے جو کہ ایک مسلم ترک کی بیوی ہے۔ بڑے جوش سے کہا کرتی ہے کہ امریکہ برطانیہ اور ترکی میں رہنے کے باوجود اسے یہ ملک صرف اس لئے پسند ہے کیونکہ یہاں لوگ رنگ نسل زبان کا فرق کیے بغیر ایک ساتھ رہتے ہیں۔ جتنا مسلمان غیر مسلمانوں کو زندگی جینے کا حق دیتے ہیں اتنا ہی غیر مسلم یہاں مسلمانوں کے مقدس مہینوں کی عزت کرتے ہیں۔ اور وہ پسند کرے گی کہ اس کی اولاد اس ملک میں پلے بڑھے تاکہ وہ بھی دوسرے مذاہب اور ثقافتوں کی عزت کرنا سیکھ سکے۔ اس دوست سے میں نے عاجزی، سادگی اور رب کے آگےزندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر شکرگزاری سیکھی ہے۔ کبھی دنیا میں کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہوتا ہے اور الزام مسلمانوں پر آتا ہے تو ہمیشہ مسلمانوں کے دفاع میں اسے بولتے سنا ہے کہ یہ مذہب محبت سکھاتا ہے نفرت نہیں۔ ایک انڈین ہندو سندھی دوست لوگوں سے میرا تعارف کچھ اس طرح سے کروایا کرتی ہے کہ ہم دونوں سندھی ہیں اور ایک ہی زمین سے تعلق رکھتی ہیں اور ایک ہی زبان بولتی ہیں۔ ہم دونوں رنگ و روپ میں ایک سی ہی ہیں۔ زبان بھی ایک ہی بولتی ہیں۔ سچ ہی تو ہے، ہمارے بیچ صرف عقیدے کا فرق ہے جو کہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے۔ وہ مجھے گلے لگا کر عید کی مبارکباد دیا کرتی ہے اور میں اسے دیوالی کی۔ لیکن ان باتوں سے میرے اللہ اور رسول ﷺ کی طرف عقیدے اور ایمان میں کبھی کمی نہیں آئی ہے۔

یہاں اسکولوں میں مختلف ممالک اور مذاہب کے بچے ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔ آج سے نہیں برسوں سے۔

عید، دیوالی اور کرسمس سکولوں میں سب جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں مگر نہ تو کبھی کسی مسلمان بچے نے غیر مسلم کے آگے نفرت کا اظہار کیا ہے اور نہ ہی ان بچوں کا اسلام خطرے میں پڑتا ہے۔ میرے فلیٹ کے کوریڈور میں تمام مسلم اور غیر مسلم بچے بغیر کسے تفریق کے ایک ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں۔ دور سے یا قریب سے دیکھو تو صرف بچے ہی کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں ان کا مذہب نہیں۔

بچپن میں اپنے نانا سے حضرت ابراہیمؑ کا ایک واقعہ سنتے تھے۔ ہمارے نانا جیسا نماز قران و سنت کا پابند شخص میں نے کوئی اور نہیں دیکھا اپنی زندگی میں، اس لئے یہ واقعہ سن کر میرے لیے نہ صرف اہم رہا مگر دین میں انسانیت کا مقام سکھا گیا۔ جس کی وجہ سے میری کام والی جو کہ ہندو ہے، اس کا میرے حصے میں سے کھانا میرے لیے فرض کا درجہ رکھتا ہے۔

نانا بتاتے تھے کہ حضرت ابراہیمؑ تنہا کھانا نہیں کھاتے تھے۔ اپنے کھانے میں کسی ضرورتمند یا مسافر کو ضرور شریک کرتے تھے۔ ایک دن کھانے کا وقت ہوا مگر کوئی ساتھ کھانے کے لئے موجود نہ تھا۔ کچھ دیر بعد گلی میں ایک مسافر ملا اور حضرت ابراہیمؑ اسے اپنے گھر لے آئے۔ کھانا شروع کرتے وقت حضرت ابراہیمؑ نے مسافر سے کہا کہ کھانے سے پہلے اللہ کا نام لو۔ مسافر نے کہا میں کیوں اللہ کا نام لوں جب میں اسے مانتا ہی نہیں ہوں۔ حضرت ابراہیمؑ ناراض ہو گئے اور اس شخص کو کھانے سے اٹھا دیا۔ اللہ کی طرف سے پیغام آیا کہ اے ابراہیم۔ اس شخص کو جو مجھے نہیں مانتا، اسے بھی رزق میں ہی دیا کرتا ہوں پھر تم اسے میرا نام نہ لینے پر کھانے سے اٹھانے کا فیصلہ کیونکر کر سکتے ہو!

ہم نے دین دار نانا سے یہ سیکھا کہ دنیا میں میرا ربِ ذوالجلال عقائد کی بنیاد پر بھید بھاؤ  نہیں کرتا اور سب ہی کو رزق اور سانسیں دینے والا ہے تو ہم ایک اللہ کو ماننے والے کیسے اس کی بناٰئی ہوئی مخلوق کے ساتھ تفریق کی زیادتی کرتے ہیں!

امتحان کے کمرے میں بیٹھ کر حکم ہوتا ہے کہ اپنے پرچے کو حل کرو۔ کسی اور کے پرچے کی طرف دیکھنا سختی سے منع ہوتا ہے۔ آج ہم صرف اوروں کے پرچوں کو دیکھنے میں مصروف ہیں اور یہ احساس ہی نہیں ہے کہ اپنے اعمال نامے اپنی اچھائیوں اور محبتوں سے بھریں۔ اس حقیقت سے آزاد کہ وقت بلآخر ختم ہو جائے گا اور ہمارے اوراق خالی رہ جائیں گے۔ اور ربِ ذوالجلال  کے حضور ہمارا اپنا نتیجہ صفر ہوگا اور ہہ کہنے کی گنجائش نہ ہوگی کہ اے میرے رب۔ میں دراصل دوسروں کے پرچوں کی تاک جھانک میں مصروف تھا اور میں نے اتنے لوگوں کو سزا دی، تیرے سزا و جزا کے فیصلے سے بھی پہلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments