دو قومی نظریہ، دہشت گردی اور پیراسیٹامول


گذشتہ دنوں میں بہت سے کالم نظر سے گذرے جن کی اہمیت اور افادیت پہ بات کرنا ضروری ٹھہرا ہے۔ لکھنے والوں نے نہ صرف تازہ ترین پے در پے وقوع ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پہ لکھا بلکہ دو قومی نظریہ، اور مذہب و قومیت کے شیر و شکر ہونے کے بھیانک اثرات پر بھی قلم اٹھایا۔

دو قومی نظریہ، بچپن سے ہمیں کھانسی کے شربت کے طور پر پلایا جاتا رہا ہے۔ جب گلا کھنکھارا، سوال اٹھایا، دو چمچے صبح شام دیے گئے۔ ہر حکومت چاہے وہ دکھاوے کی جمبھوری حکومت رہی یا آمر کی آمریت، اس میں سیلیبس کو من پسند انداز میں مذہب و قومیت کے ملغوبے کی طرح پڑھایا جاتا رہا۔ اب چھ دہائیوں میں جو نسلیں اس ملغوبے کو پڑھ کر تیار ہوئیں، ان میں سے بیشتر کو نہ تاریخ کا پتہ ہے، نہ دین کی صحیح سمجھ بوجھ ہے، عمرانیات کا حال نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔

کچھ سال پرانی بات ہے، نیویارک میں ایک مصری ڈاکٹر صاحب میرے ساتھ کام کرتے تھے۔ ذرا اچھی دعا سلام ہو گئی تو ایک دن جھجھکتے ہوے کہنے لگے، ” تم پہلی پاکستانی لڑکی ہو جس کے ساتھ کام کیا تو پتہ چلا کے تم اچھے لوگ ہو، ورنہ ہم تو پاکستانیوں سے بڑی نفرت کرتے ہیں“۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کیونکہ ہم تو مصریوں کو اپنا مسلم بھائی مانتے ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو بلا تامل جواب آیا ” تم لوگوں نے لا الہٰ اللہ کے نام پر پاکستان بنا کر اسرائیل کا کام آسان کر دیا ہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ صرف مصری ہی نہیں فلسطینی بھی تم پاکستانیوں سے اسی لئے نفرت کرتے ہیں“۔ ”کیا؟ ”، ”ہاں!“ ابھی سنبھلنے بھی نہ پایی تھی کی کہ مزید کہنے لگے،

”اور تمہارے کرائے کے فوجی جب دیکھو سعودی عرب کے حکم پر عمل کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ ایک طرف سعودیوں کی اندھی حمایت جنہوں نے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود استمعال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے اور دوسری طرف پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل جانے کی ممانعت“

میں یہ سن کر سکتے میں آ گئی! ہمارا پیارا راج دلارا، آنکھوں کا تارہ دو قومی نظریہ، دنیائے اسلام کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اور ہمیں پتہ ہی نہیں! یعنی کہ کیا؟ اب جس نے ضیاء کے زمانے کا ملغوبہ پڑھا ہو، اس کے پاس اس بات کا کیا جواب بن پڑتا؟ بڑا تاؤ آیا۔ اس دن پہلی بار دل میں ہلکا سا احساس جاگا اور خدشہ ہوا کے تعلیم کے نام پردھوکہ ہوا ہے۔ اچانک یاد آیا کہ میڈیکل کالج میں فرسٹ پراف دیتے وقت ہمیں مطالعہ پاکستان اور اسلامیات کا پرچہ بھی خواہ مخواہ دینا پڑا تھا جس کی کوئی منطقی وجہ آج تک سمجھ نہیں آی۔ چودہ نکات آنکھوں کے اگے گھومنے لگے اور کانوں میں پاکستان کا مطلب کیا گونجنے لگا۔ میرا سر دکھنے لگا۔ ملکی خانہ جنگی کو دیکھ کر آہستہ آہستہ احساس ہونے لگا کہ دو قومی نظریہ یک جہتی کی بنیاد ہو ہی نہیں سکتا۔ اس سچ کو ہضم کرتے کرتے دو قومی نظریہ انتہائی نگہداشت یونٹ میں پہنچ گیا۔ حاشر ابن ارشاد کا کالم پڑھنے کے بعد تو با قاعدہ وینٹیلیٹر پر ہے۔

اسی زمانے کی بات ہے کہ ایک بنگلہ دیشی لڑکی سے دوستی ہوئی۔ وہ بچوں کو کلاسیکی موسیقی سکھاتی تھی۔ جب دوستی ذرا گہری ہوئی اور بےتکلفی بڑھی تو کسی اور موضوع پر بات کرتے کرتے سن اکہتر کا ذکر نکل آیا۔ اس کے منہ سے جو قصے سنے تو دل ڈوبنے لگا۔ ہمیں تو سقوط ڈھاکہ کے متعلق کچھ اور وجوہات پڑھائی گئیں تھیں۔ معاشرتی علوم کی کتاب تو ہمارے لئے ایک صحیفہ مقدس تھی۔ اس میں ایسی غلط بیانیاں؟ ضیاء کے نصاب نے ایک بار پھررسوا کروا دیا۔ خدایا، کیا اتنے سال علم حاصل کرنے کے بعد بھی کوئی اتنا لاعلم ہوسکتا ہے؟ جس نصاب کی بنیاد ہی جھوٹ اور منافقت پر ہو، اسے پڑھ کر بچے کیا سیکھیں گے؟ لہذا ہم نے اپنی تعلیم و تربیت نئے سرے سے خود کرنے کی ٹھان لی۔

دو قومی نظریے کے بعد اب آج کل شہادت کا شربت توت سیاہ بڑی مقدار میں پوری قوم کو پلایا جا رہا ہے۔ ”شہادت ہے مطلوب و مقصد مومن“ کا نیا ورد کیا جا رہا ہے۔ ہمارا مذہب دہشت گردی کو سخت ناپسندیدہ اور خلاف انسانیت فعل قرار دیتا ہے مگر ہمارا نصاب کچے ذہنوں کو دہشت گردی کی جانب راغب کرتا ہے۔ نصاب کے نام پر قومیت، مذہبیت اور فرقہ وارییت کا نفرت انگیز آمیزہ دینی مدرسوں میں تیار ہوتا ہے، پھر اس پر شہادت کا تڑکا لگایا جاتا ہے۔ لطف کی بات دیکھے کہ خواہ حکومت جمبہوری ہو یا غیر جمبہوری، مولویوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں رہتا ہے۔ قومیت کو دین، اور دین کو ثقافت میں گھولنے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہر چوک پر چونی کے فتوے دستیاب ہیں۔

جس طرح ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی اسی طرح ہر حادثاتی موت شہادت نہیں ہوتی۔ ہماری حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور دینی ٹھیکداروں نے ایک دوسرے کے باہمی تعاون سے بہت سستا اور نہایت گھٹیا طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔ جو بھی سوال کرے اس کے منہ میں شہادت کی چوسنی دے دو، جنت کا جھنجھنا ہاتھ میں تھما دو، بہل جائے گا، نیز سوال اور جواب کا سلسلہ ٹل جائے گا۔ سب سے بڑا فائدہ یہ کہ کسی قسم کی کوئی ذمہ داری بھی قبول نہیں کرنی پڑے گی۔ آپ یہ دیکھیے کے قومی ایئر لائن انجن میں خرابی کے باعث تباہ ہوتی ہے۔ 162 قیمتی جانیں چلی جاتیں ہیں۔ ان 162 میں سے 161 جان بحق اور ایک صاحب جو تیسری بیگم کے ساتھ ہم پرواز تھے، نہ صرف شہید ہوتے ہیں بلکہ پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن ہوتے ہیں۔ جزا و سزا کا مالک صرف اللہ کی ذات ہے مگر کرہ ارض پر اور خصوصا وطن عزیز میں دینی ٹھیکدار قبر سے اٹھتی خوشبوؤں کے سفیر بن بیٹھے ہیں۔ تقدس دیتے دیتے ہمیں برہنہ حقائق کو بھی ریشمی غلاف میں لپیٹ کر رکھنے کی عادت ہو گئی ہے۔ دینی ٹھیکدار اور ان کے اندھے پیروکار کبھی یہ نہیں سمجھ پائیں گے کہ جنت اتنی سستی نہیں کہ داڑھی کی لمبائی اور پائنچوں کی اونچائی دیکھ کر عطا کی جائے۔

~ ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

شیما کرمانی کا احتجاجی دھمال دیکھ کر ایک بار پھر بہت سے دینی ٹھیکیدار اشتعال میں آ گئے ہیں۔ تہذیب و تقدیس اور ملک و ملّت کی غیرت و حرمت کا تمام بوجھ خواتین پر ڈالنے کا حکم دین اسلام میں تو کہیں نہیں ہے مگر دینی ٹھیکیداروں نے بڑی چالاکی سے مرد مومن پر کوئی ذمہداری عائد ہونے کی نوبت ہی نہیں آنے دی۔ دھمال تو ایک طرف، انہیں موم بتی سے بھی اعتراض ہے۔ بہت سوچ بچار کے بعد عقدہ کھلا کہ جن دماغوں میں بھس بھرا ہو انھیں موم بتی سے دور ہی رہنا چاہیے!

طب میں مرض کی تشخیص کا ایک پیچیدہ اصول ہے۔ درد کسی ایک جگہ ہو تو اس کی علامت کے طور پر تکلیف کسی اور جگہ ظاہر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر قلبی تکلیف بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں محسوس ہوتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو شیما کا احتجاجی رقص بھی اسی اصول پہ کاربند ایک علامت ہے۔ شدید مذہبی بخار محض شیر کے نشان والی گولی سے رفع نہیں ہوتا۔ اس سے نجات کے لئے بخار کی تہ میں پوشیدہ وجوہات جانچنی پڑتی ہیں۔ ان کی نشاندہی اور درستگی سے ہی افاقہ ممکن ہے۔ حکیموں کے نسخے، عاملوں کے کالے جادؤں کے ٹوٹکے بے اثر ہوتے ہیں اس مرض میں۔ دہشت گردی کے کینسر کا علاج پیراسیٹامول سے کسی طور ممکن نہیں۔ فوج بھلے کتنے ہی ضرب عضب اور رد فساد کر لے، جب تک ہم اپنے بچوں کو صحیح تعلیم نہیں دیں گے یہ فدائیوں کی نسل یونہی تیار ہوتی رہے گی۔ نصاب درست کیجیے، بچوں کو دوسرے مذاہب اور فرقوں کا احترام اور احترام انسانیت کا سبق دیجیے۔ جب تک جہادی ذہنیت نہیں بدلے گی، یہ تمام آپریشن ناکام ہوتے رہیں گے۔

جینا مشکل ہے کہ آسان ذرا دیکھ تو لو
لوگ لگتے ہیں پریشان ذرا دیکھ تو لو
یہ نیا شھر تو ہے خوب بسایا تم نے
کیوں پرانا ہوا ویران ذرا دیکھ تو لو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments