وزیر اعظم کا دعویٰ؟


 وزیر اعظم نواز شریف نے ترکی کے دورہ کے دوران انقرہ میں اخبار نویسوں سے باتیں کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ملک سے دہشت گردی ختم کردی جائے گی اور حکومت اس بارے میں پر عزم ہے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حال ہی میں فوج نے آپریشن رد الفساد شروع کرنے کا جو اعلان کیا ہے اور پنجاب میں رینجرز کو جو کارروائی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے ، اس کا فیصلہ وزیر اعظم ہاؤس میں کیا گیا تھا۔ اس بیان سے انہوں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ فوج کے ساتھ ملک کی سول قیادت کے تعلقات معمول کے مطابق ہیں اور تمام اہم فیصلے وزیراعظم ہی کرتے ہیں۔ یہ احسن صورت حال ہے لیکن سوال ہے کہ وزیر اعظم کو بیرون ملک دورے کے دوران اس بارے میں یقین دہانی کروانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ہے۔

کل لاہور ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائیٹی میں ہونے والے دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد دس ہو گئی ہے۔ تاہم حکام ابھی تک اس مخمصے کا شکار ہیں کہ یہ بم دھماکہ تھا یا جینریٹر پھٹنے یا کسی دوسری وجہ سے یہ خوفناک دھماکہ ہؤا تھا۔ اگرچہ پنجاب حکومت اور دیگر سرکاری ادارے اس بارے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں لیکن عوام کے دل و دماغ میں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ دہشت گرد کارروائی تھی۔ دہشت گردوں کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ وہ اب عوامی اجتماعات یا حساس عمارتوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ رہائشی علاقوں میں بھی حملے کرنے لگے ہیں۔ اس طریقہ کار کا مقصد عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنا اور ان میں مایوسی کو بڑھانا ہے۔ یہ صورت حال کسی بھی ذمہ دار حکومت کے لئے خوش آئیند نہیں ہو سکتی۔ تاہم وزیر اعظم ایسی صورت حال میں بھی بیرون ملک دورے پر ہیں اور یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ملک میں دہشت گردوں کی کمر تو توڑی جا چکی ہے لیکن اب وہ بد حواسی میں ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تاہم اس ملک کے شہریوں نے بے بسی کے عالم میں یہ دیکھا ہے کہ دو ہفتوں کے دوران متعدد دہشت گرد حملوں میں ڈیڑھ سو سے زائد لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں ۔ اور حکومت صرف اعلانات کرنے اور مذمتی بیانات جاری کرنے کے علاوہ کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔

حتیٰ کہ وزیر اعظم معمول کے مطابق قوم کو ہیجانی اور پریشان کن حالت میں گھرا چھوڑ کر بیرونی دورے پر روانہ ہو چکے ہیں۔ گویا پاکستان اس وقت معمول کی صورت حال میں ہے۔ دنیا بھر کے لیڈر کسی بحرانی صورت حال میں اگر ملک سے باہر ہوں تو فوری طور سے اہم ترین مصروفیات ترک کر کے واپس وطن پہنچتے ہیں تاکہ وہ اس مشکل وقت میں اپنے لوگوں کے بیچ ہوں اور انہیں یقین دلا سکیں کہ حکومت ان کی تکلیف سے آگاہ ہے اور مناسب اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان کے وزیر اعظم انقرہ میں یہ بیان دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ فوجی اقدامات کا فیصلہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہؤا تھا۔ اس بیان کا مقصد اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ نواز شریف مسلسل قیادت میں ناکام ہو رہے ہیں اور بے مقصد دعوؤں کے ذریعے اپنا بھرم قائم رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب ملک کے لوگ یکے بعد دیگرے دہشت گرد واقعات سے پریشان ہیں اور فوجی آپریشنز کے باوجود حفاظتی انتظامات کی ناکامی کا تجربہ کررہے ہیں، وزیر اعظم اب بھی یہ نوید دے رہے ہیں کہ دہشت گرد درحقیقت معذور اور بے بس ہو چکے ہیں۔ حقیقت احوال تو یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے عوام مجبور محض بنے ہوئے ہیں اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی حکومت ان کی حفاظت میں ناکام ہے۔ جبکہ دہشت گرد جب چاہیں اور جس جگہ چاہیں حملہ کرنے کے قابل ہیں۔

وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت پر دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن کسی بھی بحرانی صورت حال میں ہمیشہ فوج ہی اقدام کرتی ہے اور متحرک دکھائی دیتی ہے۔ وزیر اعظم کے ساتھی اور وہ خود تو دہشت گردی کے حوالے سے اتنی سرگرمی دکھانے میں بھی ناکام رہے ہیں جو ان کے رفقا پاناما کیس کی سماعت کے دوران تحریک انصاف کو زیر کرنے کے لئے دکھاتے رہے ہیں۔ ایسے میں وزیر اعظم کے ان دعوؤں کو کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وہ واقعی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کررہے ہیں اور انہیں عوام میں پائے جانے والے عدم تحفظ کا احساس ہے۔

ملک کی حکومت کو دہشت گردی کے معاملہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اور ان عوامل کا جائزہ لینا ہوگا جن کی وجہ سے دہشت گرد از سر نو منظم ہو کر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ اس مقصد کے کئے معاملہ قومی اسمبلی میں لایا جائے جہاں وزیر اعظم بنفس نفیس موجود رہیں اور صورت حال سے عوامی نمائیندوں کا آگاہ کریں اور ان کے مشورے سے بر وقت اہم فیصلے کریں۔ تب ہی عوام کو احساس ہو گا کہ حکومت متحرک بھی ہے اور ذمہ داری بھی قبول کررہی ہے ۔ اور ملک کا جمہوری نظام بھی کام کررہا ہے۔اگر اسمبلیوں کو محض ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے استعمال کیا جائے گا اور وزیر اعظم قائد ایوان ہونے کے باوجود اسمبلی میں آنے کی زحمت نہیں کریں گے تو حکومت کے علاوہ جمہوریت پر بھی لوگوں کا اعتماد کمزور ہوتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments