پی ایس ایل اور حکومت کی ناکامی
دس جنوری کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق فیڈریشن آف انٹرنیشنل کرکٹرز ایسوسی ایشن نے تجویز کیا تھا کہ اگر پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہو تو انٹرنیشنل کھلاڑی اس میں ہرگز شرکت نہ کریں۔ اس رپورٹ میں یہ وارننگ دی گئی تھی کہ پاکستان میں امن و امان کا مسئلہ ابھی برقرار ہے اور کھلاڑیوں کی سیکیورٹی یا سیفٹی کی ہرگز کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ ایف آئی سی اے کسی کھلاڑی کو روک ہرگز نہیں سکتی کہ وہ کسی بھی ملک میں جا کر کھیلے یا باز رہے، لیکن، اس کی سفارشات کو بہرحال بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ کھلاڑی اپنی بیمہ پالیسیوں کی شرائط دیکھ لیں، عین ممکن ہے کہ ایسے علاقے میں جا کر کھیلنے سے ان کی بیمہ پالیسی ختم ہو جاتی ہو جہاں سیکیورٹی کی صورت حال اس درجہ خراب ہے۔
کھلاڑی کسی دوسرے ملک کے ہوں یا ہمارے اپنے ہوں، ہمیں ان کی جان عزیز ہے۔
دس جنوری کے بعد دھماکوں کی وہ لہر آئی کہ لوگ بازار تک نہیں جاتے، بچوں کو سکول بھیجتے ہوئے دس بار سوچتے ہیں، سینیما، میوزک کنسرٹس، کالجوں کی تقریبات، میلے ٹھیلے ہر چیز کو بریکیں لگی ہوئی ہیں، فوج نیا آپریشن شروع کر چکی ہے، یونیورسٹیوں تک میں آپریشن ہو رہے ہیں، کل ملا کر مکمل ایک جنگ کا سامنا ہے اور ایسے میں ایک چلبلا بیان آتا ہے۔
محترم اعتزاز احسن فرماتے ہیں کہ ”اگر پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں نہ ہوا تو یہ حکومت کی ناکامی ہو گی۔ “
خدا کا خوف کیجیے صاحب، ہمارے بچے کرکٹ کے دیوانے ہیں۔ انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی بم پھٹے یا گولیاں چلیں، انہوں نے ہر جگہ پہنچ جانا ہے۔ فائنل لاہور میں ہونے کا اعلان ہو چکا ہے۔ چودہ گھنٹے پہلے چئیرمین پی سی بی تک اپنی فیملی کے لیے ٹکٹ لینے کا اعلان کر چکے ہیں، اس موقع پر اگر کسی بھی وجہ سے پی ایس ایل فائنل میچ کینسل ہوتا ہے تو یہ مکمل طور پر سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہو گا۔ اور بالکل ٹھیک ہو گا۔
جب تمام میچ ملک سے باہر کھیلے جا سکتے ہیں تو ایسے تشویش ناک حالات میں ایک نئی مصیبت گلے لگانے کی ضرورت کیا ہے؟ کس چیز کی بہادری دکھانی ہے؟ گلیاں، محلے، بازار، سکول، ہسپتال، مزار، سڑکیں، پنجاب اسمبلی کے سامنے والی سڑک تک محفوظ نہیں ہے اور آپ چہ بازی میں پڑے ہوئے ہیں؟ بالفرض اگر حکومت کہہ دے کہ چند خدشات یا اطلاعات کی بنا پر ہم یہ میچ لاہور میں ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے، تو اس میں کیا غلط ہو گا؟
حکومت کی ناکامی ہو گی؟ بھئی حکومت پہلے ناکام ہے، اسے اپنی کامیابی کے لیے ہزاروں بندے مزید گاڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ جو بہتر سمجھیں گے کر لیں گے۔ ان کے دیکھنے والے اور بہت سے مسائل ہیں، پانامہ، سڑکیں، یہی دہشت گردی، صحت عامہ کے معاملات، ہئیت مقتدرہ سے تعلقات، دوست ممالک کے بدلتے روئیے، سبھی کچھ وہ دیکھ رہے ہیں اور حسب توفیق سنبھال رہے ہیں۔ اس وقت منتخب حکومت جو بھی ہوتی حالات بہرحال یہی رہنے تھے اور ان سے نمٹنے کے طریقے بھی کم و بیش یہی ہوتے۔ آج کی بات نہیں ہے، ایک عرصہ ہو چکا ہے۔ اقتدار پیپلز پارٹی کے حصے میں بھی آیا، اس دور میں بھی یہی سب کچھ ہوتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایک پی ایس ایل کی بنیاد پر آپ کس کو چیلنج کرنے جا رہے ہیں، کن حالات میں کرنے جا رہے ہیں، اور کیا سوچ کر یہ بیان دیا گیا ہے؟
دس جنوری کو جب کہ یہ سب کچھ نہیں ہوا تھا، تب دور دیس بیٹھ کر ایف آئی سی اے کھلاڑیوں کو منع کر رہی ہے اور آپ آج پچیس فروری کو بھی اسی جنت میں رہتے ہیں جہاں رہنے کی عمومی طور پر آپ سے توقع نہیں کی جاتی۔ دیکھیے، یہ پوائنٹ سکورنگ یا حکومت اور اپوزیشن کے چکروں میں ضائع کرنے کا وقت نہیں ہے۔ نہ ہی آپ کے اشقلوں میں آ کر شاید حکومت کوئی احمقانہ قدم اٹھائے۔ غیر محتاط بیان بازی سے پرہیز اور منطقی بات کرنا حالات کا تقاضا ہے۔ یہ بیان کسی جوشیلے لیڈر کی طرف سے آتا تو شاید اس پر اتنا کچھ لکھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔
جنگوں میں فیصلے حالات و واقعات کی روشنی میں ہوتے ہیں، اور اکٹھے ہو کر لڑا جاتا ہے، ایک لاکھ مرے ہوئے لوگوں کی قسم آپ حالت جنگ میں ہیں، مان لیجیے سرکار!
- سنہ 1925 میں ایک ملتانی عراق جا کر عشرہ محرم کا احوال دیتا ہے - 22/07/2023
- مذہبی روادری کیسے کیسے نبھائی گئی - 22/11/2022
- کربلا کی داستان کا ایک کردار زعفر جن - 05/08/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).