افغانستان سلطنتوں کا قبرستان نہیں بلکہ ان کا غلام رہا ہے


آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ افغانستان کو کوئی فتح نہیں کر سکا اور وہ سلطنتوں کا قبرستان رہا ہے۔ جس نے بھی اس پر حملہ کیا وہ نیست و نابود ہو گیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ آئیے تاریخ میں ایک ڈبکی لگاتے ہیں اور جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔

تاریخ انسانی کی پہلی بڑی سلطنت ایرانی بادشاہ سائرس (کوروش اعظم) کی تھی۔ ڈھائی ہزار سال پہلے وہ پہلا بادشاہ تھا جس نے شہنشاہ کا لقب اختیار کیا، یعنی شاہوں کا شاہ۔ آپ اس کی سلطنت کا نقشہ دیکھیں۔ امید ہے کہ ہخامنشی سلطنت میں آپ کو دائیں طرف تمام موجودہ افغانستان بھی دکھائی دے گا جو کہ سائرس کی ہخامنشی سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔ یعنی موجودہ افغان علاقے ایرانی سلطنت کے مفتوحہ غلام تھے۔


آئیے اس کے بعد مقدونیہ کے سکندر اعظم کی سلطنت کو دیکھتے ہیں۔ اس میں بھی آپ کو افغانستان ڈھونڈنے میں دقت پیش نہیں آئے گی۔ سکندر اور اس کے بعد اس کے مشرقی جانشین سلیوکس اور دیگر یونانی بادشاہوں نے طویل عرصے تک افغانستان کو غلام بنائے رکھا۔


اس کے بعد پیش ہے چندر گپت موریہ اور اس کے جانشینوں کی سلطنت کا نقشہ۔ آپ دوبارہ دیکھیں گے کہ موجودہ افغانستان ٹیکسلا اور پاٹلی پتر کے موریہ بادشاہوں کا ایک مفتوحہ علاقہ تھا۔


چند سو سال بعد کی اگلی بڑی سلطنت کو دیکھتے ہیں۔ ساسانی بادشاہ بھی افغانستان پر قابض دکھائی دیتے ہیں۔



اسلام کا ظہور ہوتا ہے۔ خلفائے راشدین کے دور میں ہی خراسان فتح ہو جاتا ہے۔ لیکن آپ کو ہم اموی خلافت کا یہ نقشہ دکھاتے ہیں۔ افغانستان اس میں بھی ایک مفتوحہ علاقہ ہے۔



امویوں کا زوال ہوا۔ عباسی بھی طاقت کھو بیٹھے۔ سمرقند اور بخارا کے سامانی بادشاہ اب افغانستان پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔ یہ پھر ایک مفتوحہ علاقہ ہے۔


سامانی سلطنت کو زوال آتا ہے۔ اس کا ترک گورنر الپتگین اس وقت غزنی کے صوبے پر حکومت کر رہا ہے۔ وہ خود مختاری کا اعلان کر دیتا ہے۔ غزنوی سلطنت قائم ہوتی ہے۔ الپتگین کا جانشین اور داماد سبکتگین لاہور کے ہندو شاہی راجوں سے جنگ چھیڑ دیتا ہے جو کہ کابل اور مزار شریف کے علاقوں کے مالک ہیں۔ یہ سب علاقے غزنی کی سلطنت کا حصہ بنتے ہیں۔ محمود غزنوی چار طرف فتوحات کا سلسلہ پھیلاتا ہے اور ایران میں رے، وسطی ایشیا میں ماورا النہر اور ہندوستان میں لاہور تک کے علاقے اپنی سلطنت میں شامل کر لیتا ہے۔ ترکوں کی یہ حکومت موجودہ افغانستان کے علاوہ بھی بہت سے علاقوں پر قابض ہو جاتی ہے۔ مگر پھر وسطی ایشیا کے سلجوق ترک قبائل اسے شکست دے دیتے ہیں اور افغانستان سے نکال دیتے ہیں۔ اب ان کا مرکز لاہور ہے۔


اسی اثنا میں پچاس برس کے مختصر عرصے کے لئے دور افتادہ افغان علاقے غور سے غوری سلطنت ابھرتی ہے جس نے 1163 میں سلطان غیاث الدین غوری کے بادشاہ بننے کے بعد عروج پایا اور باقی ماندہ غزنوی سلطنت پر قبضہ کیا۔ لیکن 1215 میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ غوریوں کے متعلق افغان نیشنسلٹ یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ پشتون تھے مگر محققین کا عمومی اتفاق ہے کہ وہ تاجک النسل تھے اور ان کا ایران سے تعلق تھا۔ وہ خود کو شنسبانی کہتے تھے۔ تاریخ دانوں کا حکم ہے کہ یہ ساسانی نام وشنسپ سے بگڑ کر عربی میں آل شنسب کہلایا اور فارسی میں شنسبانی۔ یعنی یہ بھی مقامی افغان خاندان نہیں تھا۔


اب شہر سبز اور سمرقند سے امیر تیمور نامی تاتاری اٹھا اور افغانستان اس کی سلطنت کا صوبہ بن گیا۔ ازبک سلطان شیبانی خان بھی اس پر قابض رہا۔


پھر کابل کا علاقہ فرغانہ کے حکمران ظہیر الدین بابر نے فتح کر لیا اور یوں یہ مغل سلطنت کا حصہ بنا۔ بابر سے اورنگ زیب تک مغل اس پر حکمران رہے۔


مغلوں کے کمزور پڑنے پر ایرانی بادشاہ نادر شاہ افشار نے افغانستان پر تسلط جمایا۔

نادر شاہ افشار کے قتل ہونے کے بعد افغانستان نامی ملک پہلی مرتبہ وجود میں آیا جب نادر شاہ افشار کے سردار احمد شاہ ابدالی نے 1747 میں افغان علاقوں پر حکمرانی کا دعوی کر دیا۔ اس سے پہلے کابل اور قندھار عام طور پر ہندوستانی تخت کا حصہ رہتے تھے، ہرات وغیرہ ایرانی سلطنتوں کا اور مزار شریف وغیرہ کے علاقے وسطی ایشیائی سلطنتوں وغیرہ کے صوبے ہوا کرتے تھے۔ احمد شاہ ابدالی کی سلطنت میں ایرانی شہر نیشا پور، موجودہ افغانستان، موجودہ پاکستان اور راجھستان کے کچھ علاقے شامل تھے۔


ادھر پنجاب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1799 میں لاہور فتح کیا اور 1801 میں مہاراجہ کا لقب اختیار کر کے لہور دربار پر تخت نشین ہوا۔ رنجیت سنگھ نے ابدالیوں کو متواتر شکستیں دے کر پنجاب سے نکالا۔ 1813 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ابدالیوں کو شکست دے کر اٹک پر قبضہ کر لیا۔ 1818 میں ملتان فتح کیا۔ اسی سال کشمیر کو ابدالیوں سے لیا۔ 1819 میں پشاور کے ابدالی گورنر دوست محمد خان نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو سالانہ خراج دے کر اس کی سلطنت کا حصہ بننے کا معاہدہ کیا مگر کچھ عرصے بعد بغاوت کر دی۔ 1823 میں نوشہرہ کی جنگ کے بعد پشاور سے آگے درہ خیبر تک کا علاقہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت میں شامل ہو گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے جلال آباد اور کابل پر قبضہ کرنے کے ارادے اس وقت ملیامیٹ ہو گئے جب ایک مختصر فوج کے ساتھ اس کا مایہ ناز سپہ سالار ہری سنگھ نلوہ جمرود کے قلعے کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا۔ 1839 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد پنجاب کی سلطنت انتشار کا شکار ہو گئی اور 1849 میں راج برطانیہ کے تحت آ گئی۔



برطانیہ نے بھی افغانستان سے وسیع علاقے لئے۔ پہلی اینگلو افغان جنگ میں کابل میں موجود برطانوی گیریژن نے امن معاہدہ کیا۔ واپسی پر اس پر حملہ کیا گیا۔ شروع شروع میں یہ سمجھا گیا کہ صرف ایک سپاہی ڈاکٹر ولیم برائیڈن ہی پندرہ ہزار افراد میں سے زندہ بچ سکا ہے۔ اس پر لیڈی بٹلر نے ایک مشہور پینٹنگ بنائی۔ اس جنگ کے بعد افغانستان کی سلطنتوں کا قبرستان ہونے کی غلط فہمی پھیل گئی۔


1878 سے 1880 تک ہونے والی دوسری اینگلو افغان جنگ میں افغانستان کو شکست ہوئی۔ پورے افغانستان پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا۔ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ بھی سوچا گیا کہ اس کے حصے بخرے کر دیے جائیں اور ہر حصے پر الگ حکمران بنا دیا جائے۔ مگر پھر امیر عبدالرحمان کو حکمران بنا دیا گیا۔ معاہدے کے تحت کوئٹہ، کرم اور پشین کی وادیاں، سبی، درہ خیبر سمیت بہت سے علاقے برطانوی راج کو دے دیے گئے۔ افغانستان کے امور خارجہ بھی برطانیہ کے حوالے کر دیے گئے۔ بدلے میں برطانیہ نے کسی غیر ملکی حملے کی صورت میں افغانستان کی مدد کرنے کی ذمہ داری لی۔ افغانستان کو صرف ایک چیز نے بچایا۔ اور وہ یہ تھی کہ انگریز اپنی ہندوستانی سلطنت اور روسی سلطنت کے درمیان ایک بفر ریاست رکھنا چاہتے تھے۔

تو یہ تھی افغانستان پر غیر ملکی قبضوں کی ایک مختصر ترین تاریخ۔ ابھی ہم نے سفید ہنوں، کشان، منگولوں وغیرہ وغیرہ جیسی بہت سی سلطنتوں کا ذکر نہیں کیا ہے جو کہ اس علاقے پر قابض رہی ہیں۔

اب اگر آپ کسی کو یہ دعوی کرتے ہوئے سنیں کہ افغانستان سلطنتوں کا قبرستان ہے اور اس پر کوئی قبضہ نہیں کر سکا ہے، تو اسے یاد دلا دیں کہ جس بڑی طاقت نے بھی اس پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کرنی چاہی ہے، وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتی رہی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ نہ تو روسی افغانستان کو سوویت یونین کا حصہ بنانے کا ارادہ رکھتے تھے، نہ امریکہ اسے اپنی ریاست بنانا چاہتے ہیں اور نہ برطانوی اسے اپنے ہندوستانی راج کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔

جو لوگ اس مغالطے کی تشہیر کر کر کے مختلف عالمی طاقتوں کو افغانستان میں لا لا کر لاکھوں کروڑوں پشتونوں کو مروانے اور بے گھر کرنے پر تلے ہوئے ہیں وہ تو خیر شد و مد سے اس مغالطے کی تشہیر جاری رکھیں گے، مگر اصل تاریخ یہی ہے جو اوپرموجود نقشے دکھا رہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ افغانستان سلطنتوں کا قبرستان نہیں بلکہ ان کا غلام رہا ہے۔

ویسے چلتے چلتے یہ سن لیں کہ دنیا میں پشتونوں کی کل آبادی کا اندازہ پانچ کروڑ لگایا جاتا ہے۔ اس میں سے صرف ایک کروڑ چالیس لاکھ کے قریب افغانستان میں رہتے ہیں جبکہ تین کروڑ سات لاکھ کے قریب ان علاقوں میں رہتے ہیں جو کبھِی افغانستان کا حصہ تھے مگر پہلے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اور اس کے بعد سلطنت برطانیہ نے فتح کر کے اس ملک کا حصہ بنا دیا جسے آج پاکستان کہتے ہیں۔

پھر بھی اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ افغانستان سلطنتوں کا قبرستان رہا ہے اور ان کا غلام نہیں، تو اس دعوے کو سچ کرنے کے لئے ہمیں ڈھائی ہزار سال کی تاریخ تبدیل کرنی ہو گی۔ ایسی کوئی بھی غلط فہمی دور کرنے کے لئے پشاور سے لے کر کوئٹہ تک پاکستان کے نقشے پر نظر ڈالنا ہی کافی ہے۔ ڈیورنڈ لائن وہاں جگمگا رہی ہے۔

اس آخری تصویر میں آپ افغانستان کے مختلف علاقوں میں مختلف ادوار کے حکمرانوں کی فہرست دیکھ سکتے ہیں۔
پہلی تاریخ اشاعت: 25/02/2017

اسی بارے میں

کیا واقعی ابدالی کے افغانستان کو کبھی شکست نہیں ہوئی؟

 

ایک ”پروفیسر ڈاکٹر“ کی سرقہ بازی

میں نے 25 فروری 2017 کو ایک مضمون لکھا تھا، ”افغانستان سلطنتوں کا قبرستان نہیں بلکہ ان کا غلام رہا ہے“ ۔ اس میں نقشوں کی مدد سے واضح کیا گیا تھا کہ گزشتہ ڈھائی ہزار برس میں ان علاقوں کی مالک کون کون سی سلطنت تھی جو آج موجودہ ریاست افغانستان کا حصہ ہیں۔ یہ مضمون کل 12 جولائی 2021 کو دوبارہ شائع کیا گیا۔ اس پر میری ٹویٹر وال پر اقبال حیدر بٹ صاحب نے ”ای گلوبل ٹاپ“ نامی ویب سائٹ کا لنک بھیجا جس میں وہی مضمون معمولی تبدیلیوں اور نقشوں کے بغیر ڈاکٹر ہارون چوہدری کے نام اور ”افغانستان۔ ہر طاقت کا غلام“ کے عنوان سے شائع کیا گیا تھا، اور پوچھا کہ ”کون سا مضمون پہلے شائع ہوا تھا“ یعنی سرقہ کس نے کیا ہے۔

انہیں مطلع کیا کہ میرا مضمون فروری 2017 کا شائع شدہ ہے اور ڈاکٹر ہارون کے مضمون کے پیج کی ایچ ٹی ایم ایل سے سکرین شاٹ بھی دے دیا کہ یہ مضمون پہلی مرتبہ 2020 اور پھر اب دس جون 2021 کو دوبارہ شائع ہوا ہے۔ میں نے اپنی فیس بک وال پر بھی اس کا ذکر کر دیا۔

کل وجاہت مسعود صاحب کو ڈاکٹر ایم اختر شاہین، جو بظاہر ”ای گلوبل ٹاپ“ نامی ویب سائٹ چلا رہے ہیں، کا مندرجہ ذیل پیغام موصول ہوا

”وجاہت مسعود بھائی، السلام علیکم۔ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ کاکڑ صاحب نے یہ مضمون چوری کیا ہے۔ اس کے اصل مصنف میرے دوست پروفیسر ڈاکٹر ہارون چودھری ہیں 😢 پورے فروری 2017 میں ایسا کوئی مضمون نہیں ہے“

اصل بات ثبوتوں  کے ساتھ جاننے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
9 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments