مجھے خود کش دھماکہ کرنا تھا


دس روز میں چار صوبوں کے نمایاں شہروں میں سات خود کش دھماکوں کے بعد وزیر داخلہ جناب محتر م چوہدری نثار صاحب کو خیال آہی گیا کہ ایک پریس کا نفرنس کر کے ان دھماکوں پر حکومتی غم وغصہ کا اظہا ر کیا جائے۔ بڑ ی امید سے ٹی وی کے سامنے بیٹھا کہ پتا چلے ٹوٹی کمروں والے دہشت گردوں پر وزیر داخلہ کا قہر و غضب کیا اثر ڈالتا ہے اور کس طر ح وہ وزیر داخلہ صاحب کے ڈر سے تھر تھر کانپتے ہوئے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور کس طرح مجھ جیسا عام شہری امن کی فاختہ کو دانہ کھلا سکتا ہے۔ مگر ہوا کیا دہشت گرد توتھر تھر نہ کانپے البتہ وزیر داخلہ صاحب اپنے شاہانہ غصے سے مجھ جیسے کم فہم شہری کو وہ اعداد وشمار بتا کے چلے گئے کہ سوچا وزیر داخلہ کو اِس شماریا ت پر کوئی تمغہ دیا جائے اور اُن کا احسا ن مانا جائے کہ 2006 میں جہاں ہر سال 2000 بم دھما کے ہورہے تھے وزیر داخلہ کے ڈر سے کم ہو کر صرف 700 رہ گئے ہیں۔ تو کیا ہوا کہ اگر آج بھی تیس ہزار افغانی آپ کی سرحد پار غیر قانونی طور پر آپ کے مہمان بنتے ہیں۔ ارے بھائی ہمسائے کے بھی تو حقوق ہیں کے نہیں۔ وزیر داخلہ صاحب بولے ارے 2011 میں ہرروز 6 سے 7 دھماکے ہوتے تھے کیا یہ آپ کی تسلی کے لئے کافی نہیں کہ اب یہ دھماکے 10روز میں صر ف 7 رہ گئے۔ وزیر صاحب نے معصومانہ انداز میں پوچھا کیا سہیون واقعے کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی نہ تھی؟ تو پھر وفاقی حکومت کو گالیاں کیو ں دیتے ہو۔

سچ کہا جناب والہ سہیون میں تو صر ف واک تھر و گیٹس کام نہیں کر رہے تھے وفاق میں تو پار لیمنٹ کے چوہے سپیکرز کی تاریں کاٹ لیتے ہیں فرق تو ہوا صوبے اور وفاق میں۔ مزار آپ کو کروڑرں کی کمائی دیتے ہیں تو کیا جواباً زائرین کی حفاظت آپ کی ذمہ داری نہیں تھی۔ پر مجھ جیسا شہر ی سوال کر ے بھی تو کس سے۔ صوبے کی طر ف دیکھے تو وہ وفاق کی طر ف اشارہ کر تا ہے اور وفاق کا قہر وغضب مجھ جیسا شہری کہا ں برداشت کر سکتا ہے۔ پھر ایک کا ل مجھے حزب اختلاف کی بھی آئی کہ سنو ہمارے ساتھ آؤ حکو مت کے خلاف احتجاج کر تے ہیں مگر میں نے سوچا احتجاج پہ چلا تو جاؤں مگر اُس دن اگر مزدوری نہ کی تو گھر خالی ہاتھ جانا پڑ جائے گا اور گھر والوں کو کیا منہ دکھاؤں گا تو، چلو مجھے تو گھر والو ں کے لئے روٹی لے کے جانی ہے تو احتجا ج مجھ سے نہ ہوگا، ارے یہ کیا دیکھ رہا ہوں بم دھماکہ ہوا ہے خون ہی خون لاشیں ہی لاشیں اور میرا ایک بھائی اُن لاشوں کے ساتھ سیلفی لے رہا ہے۔

میں نے جھٹ سے تصویر ہٹائی کہ برداشت نہ ہوئی۔ پھر ہمت کر کے ٹی وی لگایا تو پتہ چلا آج کسی بی بی نے قلند ر سائیں کے مزار پر دھمال ڈالی ہے ابھی سوچ ہی رہا تھا چلو بی بی نے اچھا کیا لوگوں کو ہمت دلائی بی بی نے ڈر ہٹا یا لوگوں کا، مگر ساتھ ہی مفتی صاحب کی تقر یر سامنے آگئی کہ بی بی کا دھمال غیر شرعی ہے، قابل گرفت ہے، حرام ہے۔ اوہ توبہ! میں نے استغفار کیا اپنی سوچ پر اور ساتھ بی بی کے راہ ہدایت پر آنے کی دعا کی اور مطمئن ہوگیا، پھر پتہ چلا کوئی بولا ارے بھائی یہ کن لوگوں کو شہید کر رہے ہو یہ سب تو مخلوط ناچ رہے تھے مزار پر، بدعت ہے، گنا ہ ہے دعا کرو ان کی مغفرت بھی ہو جائے، میں نے سوچا اے رب بخشش دے ان سب کو۔

ٹی وی پر پھر سے خبریں لگائی تو پتہ چلا میرے لاہور کو کسی نے لہولہان کردیا ہے چینل کہہ رہا تھا یہ لاشوں کی فوٹیج سب سے پہلے ہم نے چلائی اور ناظرین تک پہنچائی ابھی میں چینل کا شکرگزار ہونے والا تھا کہ نیوز کی نمائند ہ بولی قوم کے حوصلے بہت بلند ہیں دھماکہ ہوگیا توبھی کیا؟ لوگ بازاروں میں موجود ہیں معمول کی خریداری کر رہے ہیں۔ اور دہشت گردوں کی کمریں اس ہمت سے اور ٹوٹ گئی ہیں۔ ارے واہ شہر کے ایک علاقے میں خون آلود لاشیں ہیں اور دوسرے حصے میں تو چڑیا گھر کھلا ہے، ہم کسی سے ڈرنے والے نہیں۔ میں یہی شکر اداکر نے کے سونے ہی والا تھا، کہ آگ اور خون کا کھیل ابھی میرے بھائی گھر تک ہی پہنچا ہے، میں اور میرے بچے تو اس سے محفوظ ہیں کہ آنکھ لگ گئی خواب میں دیکھا میں نے خودکش جیکٹ پہنی ہے اور میں جا رہا ہوں۔ حکومتی سرد مہری پہ جھوٹے وعدوں پہ، نام کام پالیسوں پہ اپنے سماجی رویوں بے حسی پہ بم پھوڑنے۔

جیکٹ پھٹنے ہی والی تھی کہ آنکھ کھل گئی میں پسینے میں شرابور اُٹھ بیٹھا، خدا کا شکر ہے خواب ہی تھا۔ مطمئن ہوکر پھر سوگیا کہ آگ میرے گھر تک ابھی کہاں پہنچی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments