کیا عامر خاکوانی تشکیک پسند بھی رہے؟


کالموں کا انتخاب کرنا ہو اور مجموعہ چھاپنا پڑے تو بہت سے لکھنے والوں کا پتا پانی ہو جاتا ہے۔ وجہ یہی کہ اپنا لکھا بار بار پڑھنا پڑھتا ہے، کھود کھود کر کالم نکالے جاتے ہیں، لوگوں سے رائے لی جاتی ہے، کوئی ذرا اشارہ کر دے، سر وہ کالم جس میں آپ نے قالینوں کے بارے میں لکھا تھا، وہ ضرور چھاپیے گا۔ اور لکھنے والا غرق کہ گذشتہ پانچ سو کالموں میں سے قالین والا کون سا تھا؟ بڑی محنت کے بعد قالین کا ذکر نظر آئے گا تو معلوم ہو گا کہ یہ ایکسپائر ہو گیا۔ اکثر کالموں کی زندگی ایک یا دو روز سے زیادہ نہیں ہوتی۔ یہ والا بھی قالین بافوں کے کسی عارضی مسئلے کی طرف توجہ دلانے کو لکھا گیا تھا۔ لیکن اسی بیچ چند چیزیں ایسی لکھی جاتی ہیں جو سدا بہار ہوتی ہیں۔ لکھتے ہوئے اندازہ نہ بھی ہو، انتخاب کی باری آنے پر ہاتھ باندھے سامنے کھڑی ہوتی ہیں، ایسے کالموں پر بڑا پیار آتا ہے۔

بھائی عامر خاکوانی کے لکھے کالموں کا انتخاب زنگار کے نام سے شائع ہوا ہے۔ موضوعات کا تنوع دیکھ کر طبیعت خوش ہو جاتی ہے۔ پھر پس ورق پر لکھا نظر آ جاتا ہے، “ایک ہی خیال دامن گیر رہا کہ اگر کسی کو برسوں بعد فٹ پاتھ سے یہ کتاب ملے تو اس کا تروتازہ متن قاری کو خوش گوار حیرت سے دوچار کر دے۔”
عامر خاکوانی رائیٹ ونگ کی کلاسیکل تعریف پر پورے اترنے والے انسان ہیں۔ یا انہیں کے الفاظ میں اسلامسٹ کہہ لیجیے۔ اگلے وقتوں کے سیاست دانوں یا صحافیوں کی خوبی یہ بتائی جاتی تھی کہ جو کچھ بھی جھگڑا ہے، نظریاتی ہے، ملیں گے تو دل سے ملیں گے، اچھے اخلاق سے پیش آئیں گے اور بدترین نظریاتی مخالف بھی عموماً ایک دوسرے کو ایسا عزت و احترام دیتے تھے جیسے باقاعدہ گہرے دوست ہوں۔ یہ اخلاق اور یہ قصے اب تقریباً معدوم ہیں۔ اس سب کے باوجود عامر بھائی آپ کو جب بھی ملیں گے وہی پرانا دور یاد آ جائے گا۔ لکھنے کے دوران جو مرضی بحثیں ہوتی ہوں، ملاقات میں ان پر شاید کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ہو گا۔ تو یہ وضع داری ان کی شخصیت کا ایک پہلو ہے۔
یہی سب کچھ کتاب میں نظر آئے گا۔ وہ عامر خاکوانی جو فیس بک پر اسلامسٹس کے امام نظر آتے ہیں، ذاتی زندگی میں بالکل ہم آپ کے جیسے ہیں۔ مشینی دور سے انہیں نفرت ہے، پیسہ کمانے کی ہوس اور دن رات ننانوے کے پھیر میں رہنا انہیں ہرگز پسند نہیں۔ بہت سے کالم اسی چیز کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں کہ زندگی کو ہنس کھیل کر بھی گذار لینا چاہئیے ہر وقت پاگلوں کی طرح کام کرنا اچھا نہیں ہوتا۔ اس ایک معاملے پر تو خیر ان سے اس قدر اتفاق ہے کہ فقیر کل کا کام آج پر بھی نہ چھوڑنے کا قائل ہے۔ یعنی جو کام کرنا ہی کل ہے اسے وقت سے پہلے کیوں کریں۔ خدا جانے اگلے دن اس کی ضرورت رہے نہ رہے، اور اگر ضرورت نہ ہوئی تو خواہ مخواہ کام پر کی گئی محنت ضائع جائے گی۔
موبائل فون، وقت بے وقت کے ایس ایم ایس، خواہ مخواہ حال چال پوچھنے والے اور مس کال دینے والوں سے مصنف اتنے ہی تنگ دکھتے ہیں جتنا کوئی بھی شریف آدمی ہو سکتا ہے، اور یہ حق ہے! اس ایک ایجاد نے انسان کو چوبیس گھنٹے سر جھکائے انگوٹھے چلانے پر مجبور کر دیا ہے۔ دوست مل بیٹھیں تب بھی بات نہیں ہو پاتی جب تک کہ یہ مشین ایک طرف نہ پھینکی جائے اور یہی مشورہ یہاں بھی دیا گیا ہے۔
کتاب میں پروفیسر احمد رفیق اختر، سرفراز شاہ صاحب اور کہیں کہیں اشفاق احمد بھی چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن شاید یہی لوگ اس وضع داری اور تنوع کی بنیاد ہیں جس کا ذکر اوپر موجود ہے۔
ستر فیصد کالم کسی بھی حکایت، جگ بیتی، تاریخی واقعے یا سبق آموز داستان سے شروع ہوتے ہیں، موضوع کا احاطہ کرتے ہوئے واقعہ جب ختم ہوتا ہے تو دکھائی دیتا ہے کہ جو کہنا تھا وہ بات بخوبی کہی جا چکی، باقی تحریر ثانوی تفہیم کے فرائض ادا کرتی ہے۔
دو قومی نظریہ، قرارداد مقاصد، سیکیولر لبرل اور اسلامسٹ بحث، طالبان اور دوسرے کئی ایسے موضوع جو سوشل میڈیا پر نظر آنے والے عامر خاکوانی کے پسندیدہ ترین ہیں انہیں کتاب میں شاید بیس فیصد کے قریب رکھا گیا ہے، اور یہی عین دانش مندی ہے۔ عام پڑھنے والا ان تمام مباحث سے دور ہوتا ہے۔
سیلف موٹیویشن اور سادہ لیکن کامیاب زندگی گذارنے پر بھی بہت سی تحریریں موجود ہیں جو خاصی اثر انگیز ہیں۔ یہ طے ہے کہ مصنف اگر کالم نگار نہ ہوتے، یا نظریاتی معاملات کی چٹیک نہ ہوتی تو ان کا کامیاب ترین میدان یہی تھا۔ زندگی کے اچھے پہلو ڈھونڈنا اور ان پر بات کرنا مشکل کام ہے لیکن جو کر گذرے تو وہ پڑھنے والوں کے لیے بہت سی اچھی چیزیں چھوڑ جاتا ہے جو سدا بہار ہوتی ہیں۔
کتابوں سے پیار، پڑھنے سے قربت کئی جگہ نظر آتی ہے۔ کلاسیکی عربی ادب میں دلچسپی غیر معمولی ہونے کے باوجود اس کا ذکر بہت کم ہے، جو بہرحال وقت کا تقاضا ہے۔ ہماشما کو محمد کاظم یا خورشید رضوی کی تحقیق سے کیا لینا، یہ تو وہ ذہنی عیاشی ہے جو گنتی کے لوگ کرتے ہوں گے۔
کریڈٹ کارڈ سے مصنف کو خدا واسطے کا بیر ہے۔ جہاں بھی موقع ملے گا پلاسٹک منی کو رگڑا لگاتے ہوئے نکلیں گے۔ اس انتخاب میں بھی دو تین جگہ یہ چیز نظر آئی۔ اتفاق نہ ہونے کے باوجود ان کے دلائل غور طلب اور عام فہم ہیں۔ پڑھنے والے کو ایک بار تو سوچنے پر مجبور کر ہی دیں گے کہ یار گورے معیشت دان ٹھیک ہیں یا لکھنے والا ٹھیک کہتا ہے؟
پڑھتے پڑھتے ایک جگہ یہ بھی نظر آیا کہ عامر خاکوانی کسی زمانے میں تشکیک کا شکار بھی رہے تھے۔ اگر واقعی ایسا تھا تو بخیر و خوبی اس سمندر کو پاٹ لینے پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ کم ہی دیکھا ہے کہ ایک بار فکری طور پر ایسی تبدیلیاں آئیں اور پھر سکون سے واپس بھی چلی جائیں۔ یا تو وہ زبردستی دبائی جاتی ہیں اور تنہائی میں سپرنگ کی طرح اچھل کر سامنے آن کھڑی ہوتی ہیں اور یا پھر رجحان مصلحت پسندی کے تحت بدلا جاتا ہے۔ مصنف میں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ کامیابی سے واپس جاتے دکھائی دیتے ہیں۔
آپ بیتی کے شائقین کے لیے بھی شروع کے صفحات میں بہت تفصیل سے واقعات موجود ہیں جو مصنف کی زندگی کا مکمل احاطہ کرتے ہیں۔ کل ملا کر تمام کالموں کا انتخاب اور موضوعات کا تناسب عامر خاکوانی کے فکری رجحانات کا عکاس ہے۔ کوئی ایک بھی تحریر بھرتی کی نظر نہیں آتی۔ کتاب پر خرچ ہوا پیسہ سود سمیت واپس آتا ہے۔
حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments