رستم پہلوان بہادر ہوتے ہیں اور ہوشیار دہقان بزدل


دیومالائی بہادر سورما رستم پہلوان برے حالوں اپنے ہمسائے کے گاؤں ہوشیار دہقان کے گھر پہنچے۔ ہوشیار دہقان حیران ہوا کہ ایسا بڑا سورما اس حال میں کیوں ہے۔ انہیں بٹھا کر کھلایا پلایا اور بات شروع کی۔

ہوشیار دہقان: رستم پہلوان صاحب، خیر تو ہے؟

رستم پہلوان: (مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے) خیر ہی خیر ہے۔ اپنے دشمن کو شکست دی ہے۔ قبر میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھا ہے مردود۔

ہوشیار دہقان: دشمن کو شکست دی ہے؟

رستم پہلوان: ہم نے ہمیشہ دشمن کو شکست دی ہے۔ جو دشمن بھی ہمارے گھر آیا اسے ایسی بری طرح مار مار کر بھگایا ہے کہ اسے ہمارا گھر دیکھ کر اپنی قبر یاد آتی ہو گی۔ پچھلے سال چند ڈاکو ہمارے گھر آئے۔ وہ سمجھیں ہوں گے کہ کسی سبزی خور دہقان کا گھر ہے جو لڑتا نہیں ہے۔ ہم ان سے لڑ پڑے۔ وہ آٹھ تھے اور ہم تین بھائی۔ ہم ایسی جی داری سے لڑے کہ کہ دو گھنٹے بعد وہ چاروں دم دبا کر بھاگ گئے۔ وہ ایسے خوفزدہ ہوئے ہماری جانبازی سے کہ ہمارے گھر کا جو سامان وہ سروں پر اٹھا کر بھاگ رہے تھے، اس میں سے بھی دو تین چیزیں گر پڑیں۔ ہمارا بس ایک بھائی مارا گیا اور ایک معذور ہوا۔

اس کے چند دن بعد مہاجن اپنے غنڈے لے کر آ گیا کہ رستم پہلوان صاحب، تم ہمارا قرضہ تو واپس نہیں کرتے ہو۔ ہم تمہارے گھر سے تمہارا سارا اناج اٹھا کر لے کر جائیں گے جو اس فصل پر تمہاری زمین سے آیا۔ ہم اس سے ڈرتے ہیں؟ لڑ پڑے اس کے غنڈوں سے۔ مار مار کر ان کا برا حال کر دیا۔ آج تک یاد کرتے ہوں گے کہ کیسی مار پڑی تھی۔ جب وہ بدحواسی میں اناج کی بوریاں اپنے چھکڑوں پر لے کر جا رہے تھے تو ایک کی تو پگڑی ہی گر گئی۔ خوب ٹکور کی ہو گی انہوں نے اپنے گھر جا کر۔ ہمارا ایک بھائی دونوں ہاتھوں سے معذور ہوا بس۔

کچھ دن بعد مشرق کی طرف کے گاؤں کے چند دوسرے لوگوں نے اکٹھے ہو کر ہم پر حملہ کر دیا۔ بہانہ یہ بنایا کہ ہم نے ان سے پوچھے بغیر ان کی بکریاں کاٹ کھائی تھیں۔ اب پہلوان کے سامنے بکری ہو گی اور اسے بھوک لگی ہو گی تو وہ کھائے گا نہیں تو کیا کرے گا؟ ہم نے خوب مارا انہیں۔ ایسی ایسی لگائیں کہ چھے دن تک بستر سے نہیں اٹھے ہوں گے۔ ایسی بدحواسی میں ہمارے گھر سے انہوں نے دوڑ لگائی کہ ہم دیر تک ہنستے رہے۔ سوچیں کہ آپ کے دشمن آپ کے گھر سے ڈر کر دوڑے جا رہے ہوں اور آگے آگے ہمارے گھر بھر کے ڈھور ڈنگر۔ ہمارے تو پیٹ میں بل پڑ گئے دشمن پر ایسی عظیم الشان اور مضحکہ خیز فتح پر۔

اس کے چند دن بعد ہمارے کچھ رشتے دار گھر آئے اور لڑنے لگے کہ تم نے ہمارے گھر پر حملہ کیا ہے اور ہمارے ایندھن کی سوکھی ہوئی لکڑیوں کو جلا دیا ہے۔ ہم نے انہیں بہت پیٹا۔ ایسا پیٹا ایسا پیٹا کہ ان میں سے ایک کی تو انگلی ہی ٹوٹ گئی۔ اب کھانا کھاتے ہوئے درد سے خوب روتا پیٹتا ہو گا۔ اسی وجہ سے اس کے ہاتھ سے مشعل گری ہو گی جس سے ہمارا سارا گھر جل گیا۔ ہمارے تین بچے بھی جل گئے گھر کے ساتھ۔ مگر ہم نے مارا بہت تھا اسے۔ ایسی شکست ان دشمنوں نے کبھی نہ کھائی ہو گی۔ شکست کھا کر بھاگتے بھاگتے وہ ہمارے کھلیان بھی جلا گئے۔

ہوشیار دہقان: پہلوان جی صلح صفائی پر بھی غور کر لیا کریں۔ ہر دشمن سے لڑنا اور نقصان اٹھانا ضروری تو نہیں ہے۔ وقتی نقصان اٹھا کر جان بچ جائے اور گھر کاروبار کھڑا رہے تو آدمی اس نقصان کو کچھ دن میں پورا کر لیتا ہے۔ امن سکون ہو تو پیسہ خود ہی آ جاتا ہے۔ بہت مجبوری ہو تو بندہ خود لڑ لے، ورنہ خود امن سکون سے رہے اور دشمنوں کو آپس میں لڑنے دے بلکہ خود ان کی مدد کرے کہ وہ آپس میں لڑتے رہیں اور آپ پر توجہ نہ دیں۔

رستم پہلوان: ہم تمہاری طرح بزدل دہقان نہیں ہیں جو دشمن دیکھتے ہی ڈر جائیں۔ ہم تو مانے ہوئے پہلوان ہیں۔ ہماری بہت عزت ہے دنیا میں۔ شہرت ہے کہ ہمارے گھر کی طرف کسی نے آنکھ اٹھا کر دیکھا بھی تو ہم نے مار مار کر اس کی قبر وہیں بنا دی۔ ہمارے گھر کی طرف کوئی آتا تک نہیں۔

ہوشیار دہقان: پہلوان صاحب، آپ کی اس عظیم بہادری کی داستان کو سنا ہے۔ ہمیں تو یہی سمجھ آیا ہے کہ آپ کے اہل خانہ مارے گئے ہیں اور معذور ہوئے ہیں۔ آپ کی دولت لوٹ لی گئی ہے۔ اناج چھین لیا گیا ہے اور آپ کے پاس کھانے کو ایک دانہ نہیں ہے۔ آپ کا گھر جل گیا ہے اور سر چھپانے کو چھت نہیں ہے۔ دشمن کیا آپ خود بھی اپنے گھر نہیں جاتے کیونکہ وہ جل چکا ہے۔ جبکہ آپ کے دشمنوں کی بس پگڑی گری ہے یا انگلی ٹوٹی ہے۔ نقصان کس کا ہوا ہے؟

رستم پہلوان: یہ ہم بہادر پہلوان ہی سمجھتے ہیں کہ فتح کیا ہے اور شکست کیا۔ تم جیسے دہقانوں کو یہ چیز سمجھ نہیں آئے گی کہ عزت اور خود داری پر سب کچھ قربان ہے۔ پہلوان پرواہ نہیں کرتے کہ امن ہو یا نہ ہو۔ عزت ہونی چاہیے۔

ہوشیار دہقان: درست فرمایا پہلوان جی۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتی کہ شجاعت کیا ہے اور خود داری کیا ہے گو کہ بڑے بڑے بادشاہ اپنے لشکر میں دہقانوں کی بہادری کی وجہ سے انہیں بھرتی کرتے رہے ہیں۔ آپ یہ فرمائیں کہ کیسے آنا ہوا؟

رستم پہلوان: ہمیں سر چھپانے کو کچھ جگہ دے دو اور کچھ کھانے کا بندوبست کرو۔ چند سال ہم یہیں رہیں گے کہ پیچھے گھر بار کھلیان تو سب جل چکے ہیں۔ محلے والوں سے بھی پوچھ لینا کچھ مدد کریں تو۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments