کیا صرف پنجاب میں ہی پشتون نشانے پر ہیں؟


اس وقت ایک مہم چل رہی ہے جس میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ رد الفساد کی آڑ لے کر پنجابی شاونسٹ پشتونوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہر جگہ ان کی تلاشی لی جا رہی ہے۔ جس کے پاس شناختی کارڈ نہ ہو اسے تھانے میں لے جا کر پریشان کیا جا رہا ہے۔

اس میں کئی شکایات درست ہیں۔ خاص طور پر لاہور کی بلال گنج مارکیٹ کا اشتہار دیکھ کر صدمہ ہوا جس میں صرف پشتون تاجروں سے اپنے کوائف تھانے میں جمع کروانے کے لئے کہا گیا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے طلبا کے بارے میں پڑھ کر بھی افسوس ہوا۔ منڈی بہاؤ الدین پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر دیا گیا ایک اشتہار بھی گردش میں رہا جس میں چائے والے کے بھیس میں موجود پشتونوں کی نشاندہی کا کہا گیا تھا۔ پولیس نے بعد میں اس کی تردید کی کہ یہ اشتہار اس نے جاری کیا تھا۔

لیکن کیا یہ پروفائلنگ اور تفتیش صرف پنجاب میں ہی پشتونوں سے کی جا رہی ہے اور اس کی بنیاد نسل پرستانہ رویہ ہے؟ آج بی بی سی پر ایک خبر شائع ہوئی ہے جس میں چاروں صوبوں میں آپریشن رد الفساد کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

خبر میں کہا گیا ہے کہ صوبہ پختوانخوا میں سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق اتوار کو بنوں، چارسدہ، ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت کے علاقوں میں چھاپے کر سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا ہے۔ کراچی میں 70 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں افغان اور ازبک شہری بھی شامل ہیں۔ بلوچستان میں چاغی میں چار افغان پکڑے گئے ہیں۔ پنجاب میں وہاڑی سے 45 افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔ اوکاڑہ سے 8 افغانی پکڑے گئے ہیں جبکہ لیہ سے 22 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

پنجاب پولیس کے اس مبینہ اشتہار کی بات تو کی جا رہی ہے، مگر کیا پشاور کی ہشت نگری کے ایک تھانیدار صاحب کا اشتہار بھی پیش کیا جائے جو کہ علاقے میں افغانوں کے علاوہ آئی ڈی پی، یعنی پشتون قبائلی شہریوں کی آمد پر بھی پابندی لگا رہے ہیں؟ کیا ہشت نگری میں بھِی پشتون پروفائلنگ کر کے پشتونوں کو ٹارگٹ بنایا جا رہا ہے؟

عمران خان صاحب کو پنجاب حکومت پر شدید غصہ ہے کہ وہ پشتونوں کی نسلی پروفائلنگ کر رہی ہے۔ کیا خان صاحب سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ پشتون افغان مہاجرین کے خلاف سب سے زیادہ سخت مہم کیا ان ہی کی صوبائی حکومت نہیں چلا رہی ہے؟ کیا اسے بھی سیکیورٹی کے معاملے کی بجائے نسل پرستانہ تعصب کا معاملہ قرار دیا جائے؟ کیا آئی ڈی پیز کے ساتھ ان کی حکومت کا سلوک مناسب ہے؟

جہاں تک پولیس کے معصوم افراد کو نسلی شناخت کی بنیاد پر حراست میں لے کر ان کے ساتھ غلط سلوک کرنے کا تعلق ہے، تو یہ بھی صرف پشتون قوم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ خاص طور پر پنجاب پولیس کی یہ روایت رہی ہے کہ جو شکار کسی بھی بہانے ہتھے چڑھ جائے، اس کو ڈرا دھمکا کر خوب نچوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب پیسہ بنانے کا معاملہ ہو تو راشی اہلکار یہ نہیں دیکھتے کہ شکار پنجابی ہے یا پشتون یا سندھی۔ جو بھی شکار قابو آ جائے اسے رگڑتے ہیں۔ ڈیڑھ دو ماہ پہلے ہمارے ایک عزیز کو بھِی ایک جعلی مقدمہ بنا کر راولپنڈی کی پولیس لاہور سے اغوا کر کے لے گئی تھی۔ اغوا کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ دو ہفتے تک گرفتاری نہیں ڈالی گئی تھی اور سول کورٹ اور ہائی کورٹ کے لیول تک پولیس اس سے انکاری رہی تھی کہ انہوں نے بندہ اٹھایا ہوا ہے۔ بالآخر ہائی کورٹ کے سخت احکامات کے بعد ہی پولیس نے دو ہفتے بعد مذکورہ عزیز کو رہا کیا اور یہ یقین دہانی لی کہ ہائی کورٹ میں اس بات سے انکار کیا جائے گا کہ وہ پولیس کی حراست سے رہا ہوا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تھانے میں سب کے ساتھ یکساں سلوک ہی کیا جاتا ہے۔ کمزور کے ساتھ ہر جگہ ہی ظلم کیا جاتا ہے۔

اسی طرح گھر گھر جا کر کرائے داروں کے کوائف بھی سب سے ہی اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ لاہور شہر کا پیدائشی ہونے اور مقامی لہجے میں اردو اور پنجابی بولنے کے باوجود مجھے بھی یہاں چیک پوسٹوں پر اپنا شناختی کارڈ دکھا کر مطمئن کرنا پڑتا ہے۔ ان چیک پوسٹوں پر کوئی پنجابی بھِی مشکوک دکھائی دے تو اس سے بھی اچھی خاصی تفتیش کی جاتی ہے اور مال پانی بنانے کے امکانات کا بھرپور جائزہ لیا جاتا ہے۔

یہ آپریشن نہایت غلط ہے۔ اس کی ہینڈلنگ بھی درست نہیں ہے۔ مگر جب پولیس کو خفیہ ایجنسیوں سے اطلاع ملے کہ اس اس حلیے اور نسل کے کچھ دہشت گرد شہر میں داخل ہوئے ہیں تو وہ کیا کریں؟ ملک میں دہشت گردی میں پنجابی طالبان اور خاص طور پر لشکر جھنگوی العالمی کے پنجابی دہشت گردوں کا نام بھی آتا ہے، مگر کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ بیشتر خودکش اور دہشت گردانہ حملے کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا کالعدم لشکر احرار وغیرہ کی جانب سے کیے جاتے ہیں۔ کیا خود کش حملہ آوروں کی تصویر ان کی شناخت کے بارے میں ایک نسلی تاثر نہیں دیتی ہے؟ ایسے میں پولیس کیا کرے؟ کیا وہ پہلا شبہ ایسے حلیے والوں پر نہ کرے؟ کیا لاہور کے خودکش دھماکے کا سہولت کار یہاں پچھلے سات سال سے مقیم نہیں تھا؟

بہرحال جو لوگ اسے صرف پشتون پروفائلنگ قرار دے رہے ہیں، ان کے لئے ہمارے دوست ایڈووکیٹ طاہر چودھری صاحب کا یہ سٹیٹس دلچسپ ہو گا۔

’کل لاہور ہائیکورٹ، سول و سیشن عدالتوں میں خود کش بمبار کےداخل ہونے کی اطلاع تھی۔ وکلا، سائلین، عدالتی عملے میں خوف و ہراس تھا۔ میں بھی وہیں موجود تھا۔ لوگ داڑھی والے افراد سے بدک رہے تھے، ان سے دور دور ہو کر گذر رہے تھے۔ پولیس والے بھی داڑھی والوں کی تلاشی لیتے وقت زیرِ زبان وِردوں کی رفتار تیز کر دیتے تھے۔ زیادتی ہے‘۔

جب حملہ آوروں کی ایک شناخت قائم کر دی جائے کہ وہ پشتون ہوتے ہیں یا داڑھی والے پنجابی ہوتے ہیں، تو پھر پولیس بھی مجبور ہوتی ہے۔ اس کا کوئی حل ہے تو وہ بتایا جائے تاکہ اس کے لئے مہم چلائی جائے اور معصوم پشتونوں اور داڑھی والوں کی مدد کی جا سکے اور ان کی زندگی آسان بنائی جا سکے۔

پشتون لیڈروں کو خود کھڑے ہو کر دہشت گردی کے خلاف بلند آواز اٹھانی پڑے گی ورنہ اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب یہ خوف پولیس کی صفوں سے نکل کر عام افراد تک پہنچ جائے۔ ہم اپنی وحشت پہلے بارہا دکھا چکے ہیں۔ ہندوؤں اور سکھوں کو مارنے کے واقعات تو پرانے ہوئے مگر ہجوم کے غیر مسلم آبادیوں پر حملے اور بربریت کی خبریں تو تواتر سے آتی ہی رہتی ہیں۔ سیالکوٹ کے دو معصوم بھائیوں کو غیر انسانی بہیمیت سے مارے جانے کا واقعہ بھی پرانا نہیں ہے۔ موبائل چھیننے کے شبے میں ہجوم کی جانب سے ڈاکوؤں کو مارے جانے حتی کہ زندہ جلا دینے تک کی خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ جب ہجوم مارنے پر تل جائے تو صرف وحشت و بربریت ہی باقی بچتی ہے، انصاف اور عقل وہاں سے چلے جاتے ہیں۔ ہجوم سے ڈرنا چاہیے، خاص طور پر جب وہ خوف کی گرفت میں ہو۔

آپریشن رد الفساد میں نظریاتی جنگ بھِی لازم ہے۔ جو مدرسہ یا عالم بھی اس بات کا پرچار کرتا ہے کہ جمہوریت کفر ہے اور جمہوری ریاست کے خلاف اس طرح بالواسطہ طور پر جنگ کی ترغیب دیتا ہے، اس کی بھی پکڑ کرنی ہو گی۔ پشتون اسلام سے محبت میں پاکستان کی باقی سب قومیتوں سے آگے بڑھے دکھائی دیتے رہے ہیں۔ وہ جذباتی بھی جلدی ہوتے ہیں اور غصے میں بھی جلدی آتے ہیں۔ اس وجہ سے دہشت گردوں کے لئے ان کو ’غیر اسلامی جمہوری ریاست‘ کے خلاف جنگ کے لئے تیار کرنا بھی نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ پشتون لیڈروں کو بھی باچا خان کی فکر کا پرچار کرنا ہو گا کہ پشتون قوم کی عزت اور ترقی تعلیم اور امن میں ہے، ہتھیار پکڑنے میں صرف تباہی ہی ہے۔

ان سب حالات میں آئی ڈی پیز سب سے زیادہ پس رہے ہیں۔ اپنے بسے بسائے گھروں سے وہ جنگوں کی وجہ سے نکالے جا چکے ہیں۔ نہ ان کو پشتون خیبر پختونخوا لینے کو تیار ہے اور نہ کوئی دوسرا صوبہ۔ جب بھی دہشت گردی ہوتی ہے تو سب سے پہلے ان کی پکڑ ہوتی ہے۔ غربت، مہاجرت، بے کسی اور ریاست کا شک، سب ہی ان پر آفت بن کر ٹوٹ پڑے ہیں۔ جب تک دہشت گردی ختم نہیں ہو گی ان کے مصائب بھی ختم نہیں ہوں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments