نئی نفرت پیدا نہ کریں


مجھے تو ان اشتہاروں میں سے نفرت کی بو آتی محسوس ہوتی ہے— کیسے ہم طے کر لیتے ہیں کہ ہاں ہاں بس یہی لوگ ہیں سارے فساد کی جڑ— ان کو پکڑ لو، مار دو، حقہ پانی بند کر دو، سارا مسئلہ چٹکیوں میں حل ہوجائے گا! کیا وجہ ہے کہ ہم ان اشتہاروں میں چھپی تذلیل و تضحیک کو محسوس نہیں کر پاتے؟ کیوں کہ اس میں ہماری ذات اور کمیونٹی کو نشانہ نہیں بنا یا گیا ہوتا- میرا سینہ کیا نہیں جل اُٹھے گا تندور پہ لگے اُس پوسٹر یا پمفلٹ کو پڑھ کر جس میں کہ لکھا ہو ”معزز راجپوت بھائیو، تم جو رانگڑ ہو، سن اُنیس سو سنتالیس میں ہندوستان سے مہاجر ہوئے ہو، تم سب اپنی شناخت متعلقہ تھانے میں فوراً کراؤ”- وہ تو یقیناً شرم سے عاری ہوا ہی ہوگا جس نے پٹھان کے ساتھ ”معزز” کا سابقہ نتھی کر کے خباثت کو اس لفظ کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی، تعجب مگر اُن پہ ہے جو اس توہین آمیز رویے کو درست ثابت کر نے کی کوشش کر رہے ہیں- پٹھانوں کو ہم نے ” اپنے” پنجاب میں چنے، چھلی کی ریڑھی سے لیکر کارخانے تک لگانے کی اجازت دی ہے ، اب اگر ہم ان کے نام کے اشتہار دیواروں پہ چسپاں کررہے ہیں تو اس میں کیا برا ہے- سُن لیجئے اس میں پہلی برائی یہ ہے کہ پنجاب جتنا ہمارا ہے اُتنا ہی پٹھانوں کا بھی ہے- بھلا ہم پنجاب کے رہنے والے ہوتے کون ہو یہ کہنے کی بھی جرات کرنے والے کہ ہم نے ”اپنے” پنجاب میں، کوئی احسان نہیں کیا جناب آپ نے- ہاں نا کردہ احسان جتانے کی کوشش ضرور کی ہے-

یہ انجمنِ تاجران کے چوہدری کون ہوتے ہیں ایسے توہین آمیز اشتہارات چسپاں کرنے والے، کیا یہ لوگ تحقیق کر بیٹھے ہیں کہ ہر چنے ، قہوہ، چھلی بیچنے والا اور جوتا پالش کرنے والا پٹھان خدانخواستہ دہشت گرد ہی ہے؟

ہمیں دہشت گردی سے بچنا ہے، اہداف کو نشانہ بنانے کے لیئے ریکی کرنے والے اطراف میں ہی موجود ہوتے ہوں گے، مگر ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کہ کسی بھی مارکیٹ کی انجمن سب کو پابند کرے کہ اپنی شناخت متعلقہ تھانے میں پیش کرے، پٹھان پنجابی کی تخصیص اس میں ہر گز روا رکھنی نہیں چاہیے-

یہ بھی عجیب منطق ہے حساب برابر کرنے کی کہ دوسرے صوبوں میں پنجابیوں کے ساتھ بھی تو ظلم ہو جاتا ہے اس لئے اگر پنجاب میں ان سے معزز کہہ کہہ کر تھوڑی بہت پوچھ گچھ ہونا کونسی بری بات ہے- میں تو اس کو گالی سمجھتا ہوں، جتنی بھی کوئی اس کی توضیح و توجیح پیش کرتا پھرے—- طمانچہ طمانچہ ہی رہتا ہے، تُو تکار سے رسید کیا جائے یا آپ جناب کا تڑکا لگاتے ہوئے جڑا جائے— ”معزز” پٹھان بھائیو تلاشی دو کہہ دینے سے تذلیل کا طمانچہ سلیمانی ٹوپی نہیں اُوڑھ لیتا- وہ موجود رہتا ہے اپنے جلا دینے والے احساس کے ساتھ- دہشت گرد ہم سے پکڑے جانے نہیں، ایک نئی نفرت ہم ضرور اُبھار رہے ہیں- قہوے کے تھرمس، چھلی کی ریڑھی ، بوٹ پالش کی لکڑی کی پیٹی سے ہم کوئی بم اور نہ ہی خودکش جیکٹ کھوج پائیں گے، ہاں مگر نفرت کا ناگ ضرور پیدا کر لیں گے- بلوچ بھائیوں کے دُکھوں کا مداوا ہم کر نہیں پائے اور ایک نیا زخم لگانے کی تیاری کرنے لگے- آئیے ایک ایسے معاشرے کی تخلیق کی جانب بڑھنے کی کوشش کریں جس میں ہم اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے احترام پر قائم رہ سکیں-


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments