چوہوں کا خاتمہ کیسے کیا جائے؟


آپ چوہوں کی مثال ہی لے لیجیے۔۔۔ یہ جہاں جاتے ہیں اپنی ”راجدھانی” قائم کر لیتے ہیں۔ یہ اکثر رات کے وقت ہلہ بولتے ہیں جب انسانی مخلوق گہری نیند میں مبتلا ہوتی ہے۔ اپنے بِلوں سے نکلتے اور ’ٹارگٹ، کی طرف بڑھتے ہیں۔ چوہے ایسی ڈھیٹ مخلوق ہے جسےاتنی بھی تمیز نہیں کہ کسی کی گہری نیند میں خلل ڈالنا کس قدر گھٹیا حرکت ہے۔ لیکن یہ وہی جان سکتا ہے جس کا اس ڈھیٹ مخلوق سے پالا پڑا ہو۔

میں آپ کو ذاتی تجربے سے یہ بات بتا سکتی ہوں۔ میں نے حال ہی میں چوہوں کے خلاف ’آپریشن کلین اپ ، مکمل کیا ہے اور صد شکر کہ اب گھر میں امن ہے۔ شروع میں جب چوہوں نے میرے گھر کا رُخ کیا تو میں نظر انداز کرتی رہی۔ شروع میں ان کی کارروائیاں اتنی جارحانہ بھی نہیں تھیں لیکن پوری طرح سے قدم جما لینے کے بعد تباہ کن کارروائیاں شروع کر دیں، کبھی کھجوروں کے پیکٹ ”شہید” ہوئے ملتے ، کبھی قیمتی کتابیں کتری ہوئی ملتیں ، کبھی کپڑوں میں چھید ہوئے ملتے،کبھی برتنوں سے مینڈھیاں ملتیں، کوئی چیز ایسی نہ تھی جو ان کے نشانے پر نہ ہو۔ جوابی کارروائی کے طور پر ابتدا میں کچھ دیسی ٹوٹکے استعمال کئے لیکن افاقہ نہ ہوا۔ پھر ”ٹارگٹ کلر” بلیوں کی خدمات حاصل کر لیں۔ ابتدا میں بلیوں نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھے لیکن یہ کامیابیاں دیرپا ثابت نہ ہو سکیں۔ بالاخر جب پانی سر سے گزر گیا تو ایک ہنگامی اجلاس بلا لیا جس میں متعلقہ ماہرین اور دانشوروں کومدعو کیا گیا تاکہ معاملے کے تمام پہلوؤں پر غور و خوض کے بعد اس بلائے ناگہانی سے چھٹکارے کی کوئی صورت نکالی جا سکے۔

اجلاس کا نچوڑ یہ تھا کہ جب تک چوہوں کی بنیادیں ختم نہیں کر دی جاتیں یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا یعنی ان کا پورا نیٹورک تباہ کر دیا جائے اور وہ سارے سوراخ بند کر دیے جائے جہاں سے یہ نقب لگاتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ گھر میں ایسی کون سی چیزیں ہیں جو ان کے لئے کشش کا باعث بنتی ہیں۔ ماہرین اس بات پر متفق تھے کہ تمام تر سیکیورٹی اقدامات کے باوجود جب تک گھر کے اندر کی صفائی نہیں ہوگی، اگر کھانے پینے کی چیزوں کو ڈھانپا نہیں جائے گا، کتابیں، کپڑے اور چوہوں کے لئے کشش کا باعث بننے والا دوسرا ساز و سامان گھر میں اِدھر اُدھر بکھرا ہوا پڑا ہو گا تو چوہے آسانی سے شکار تک پہنچ جائیں گے۔ اس لئے سب سے پہلے اندر کی صفائی، احتیاط اور حفاظتی تدابیر ضروری ہیں۔ ٹھوس منصوبہ بندی کے بعد ٹھوس میکنزم کے تحت ان کے خلاف کارروائیاں کی جائیں۔ ایسی ٹاسک فورسز قائم کی جائیں جو باہمی تعاون سے بروقت کارروائیاں کریں، مخبری اور پیغام رسانی کا تیز ترین اور پختہ کار محکمہ قائم کیا جائے تاکہ چوہوں کی تباہ کن کارروائیوں کو رونما ہونے سے پہلے ہی روکا جا سکے۔

پاکستان کی تاریخ فوجی آپریشنوں سے بھری پڑی ہے، بلوچستان میں آپریشنز اور جھڑپیں چلتی رہتی ہیں، اکہتر میں مشرقی پاکستان میں لشکر کشی کی گئی، کراچی میں نوے کی دھائی سے لے کر آج تک کئی آپریشنز ہوئے، دو ہزار دو سے قبائلی علاقے آپریشنز کی زد میں ہیں، خیبر پختونخوا میں آپریشنز ہوئے۔۔۔ اور اب دھماکوں اور افراتفری کی تازہ لہر کے بعد فوج کی طرف سے پنجاب میں آپریشن ’ردالفساد، شروع کر دیا گیا ہے لیکن نتائج سب کے سامنے ہیں۔ ہر بار افاقہ ہونے کی بجائے صورت حال پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر ہوتی گئی۔ اس لئے کہ مسئلے کی بنیادیں اپنی جگہ موجود رہتی ہیں ۔ ”تخریب کارروں” کے خلاف کارروائیاں ہوتی ہیں لیکن تخریب کاری کی وجوہات اپنی جگہ موجود رہتی ہیں۔ تخریبی سوچ پوری طرح سے موجود ہے۔ ایسے میں آپریشنز یا جھڑپیں کس حد تک موثر ہو سکتی ہیں؟

ایک اور پہلو ملاحظہ فرمائیں، آپریشنز کے ساتھ ساتھ ہمیشہ مذاکرات کا ڈھول بھی پیٹا جاتا رہا لیکن بے سود۔ کسی بھی سماج کے اندر مثبت تبدیلی کا آغاز انفرادی اور مجموعی سوچ میں تبدیلی کے آغاز کے ساتھ ہوتا ہے، مثلاً یہ کہ میں دلیل کے ساتھ اپنی بات دوسرے کو سمجھانے کی کوشش کروں لیکن دوسرے پر اپنی رائے اپنا ایجنڈا مسلط نہ کروں، آج کے دور میں سوچ کو متاثر کرنے یا سوچ کو جھنجھوڑنے کا ایک مضبوط اور موثر ہتھیار میڈیا ہو سکتا ہے لیکن میڈیا اپنے تمام تر کھوکھلے اور مصنوعی پن کے ساتھ ہمارے سامنے ہے، میڈیا اگر خود اپنی اصلاح نہیں کر سکتا تو وہ صحت مند رائے عامہ کس طرح پروان چڑھا سکتا ہے؟

ایک پہلو اور ملاحظہ کیجیے۔۔۔ بیمار اور لاغر پاکستانی سماج میں کسی کی بات یا رائے سے اتفاق کرنے یا مسترد کرنے کا پیمانہ یہ ہے کہ بات کے وزن کو نہیں دیکھا اور پرکھا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ بات کہنے یا رائے دینے والا کون ہے، کون سے فرقے یا سیاسی جماعت کا کارکن ہے؟ کوئی داڑھی والا ہے یا کلین شیو؟ شلوار کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر رکھتا ہے یا نیچے؟ حلیے سے ’ماڈرن، دِکھتا ہے یا پینڈو؟ ۔۔۔ جب بحث اور رائے کا پیمانہ یہ ہے تو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کیا دشواری ہو سکتی ہے کہ اس سماج کا ایک بڑا مسئلہ جہالت یا آگاہی اور شعور بھی ہے؟

المختصر بیمار سماجی رویے، بدعنوان اور نااہل قیادت، معیشت مقامی اشرافیہ اور عالمی مالی اداروں کے شکنجے میں، امیر غریب میں بڑھتی ہوئی خلیج، ریاستی اداروں میں سرایت کر چکے بدعنوانی کے جراثیم، مذہبی فرقہ واریت، انتخابی عمل میں غریب اور پسے ہوئے عوام کی رائے کا طبقئہ امرا کے تابع ہونا، تعلیمی نظام کی فرسودگی، جب یہ سارے عوامل اپنی جگہ موجود ہوں تو آپ جتنے مرضی آپریشن کر لیں، جتنے مرضی مذاکرات کر لیں ۔۔۔۔افاقہ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ آخر مسائل ایک بار ہمیشہ کے لئے حل کیوں نہیں کر لئے جاتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments