دشمن کے بچوں کو اردو ادب پڑھانا


میں سرکاری کالج میں اردو پڑھاتی ہوں ،سامنے بیٹھی طالبات مجھے اپنا سب سے بڑا خیر خواہ سمجھ کر میری باتیں سنتی ہیں ۔مجھے وہی محبت اور سہولت میسر ہے جو اردو کے اساتذہ کو حاصل ہوتی ہے، یعنی میں صرف سلیبس نہیں پڑھاتی، زندگی کرنے کے طریقے بھی سکھا سکتی ہوں۔ کلاس میں رومانس پر بات کرسکتی ہوں، محبوب اور محبت کا نام اتنی سہولت اور آزادی سے لے سکتی ہوں کہ لوگ اس دھڑلے سے اللہ کا نام بھی نہیں لے سکتے۔ ایسی ایسی نا گفتنی کی اجازت مجھے میرا مضمون اور نفس مضمون دیتا ہے کہ بعض اوقات میری اپنی کولیگ سن پائیں تو فتوے لگا دیتی ہیں۔ میں کچھ بھی پڑھاتے شرماتی نہیں ،گھبراتی نہیں ۔

لیکن ایف اے کی اردو لازمی ہو یا اردو ادب کا اختیاری پرچہ ،میں گھبرا جاتی ہوں کہ اس کو پڑھاتے ہوئے مجھے کبھی سمجھ نہیں آتی کہ میں اپنی قوم کے بچوں کو پڑھا رہی ہوں یا پھر پاک فوج کے مطابق اپنے دشمن کے بچوں کو۔

جتنا بیک ورڈ اور پسماندہ ہمارا اردو کا سلیبس ہو چکا ہے اس کی ایک مثال تو ذرائع مواصلات کے متعلق ایک مضمون ہے جو غالبا 80 کی دہائی میں لکھا گیا اور اس کے بعد کسی نے اس کو اپ ڈیٹ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ یہ مضمون کتنا معلوماتی اور علمی ہے اس کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ ایف اے کے وہ بچے جو سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں ان بچوں کو پڑھایا جاتا ہے کہ ایک چیز ہوتی ہے جسے موبائل فون یا کار فون کہا جاتا ہے۔ اس سے آپ چلتی کار میں بھی فون کر سکتے ہیں اور سائنس شاید ایک دن اس قابل ہو جائے کہ جب ہم کال کرنے والے کی تصویر بھی دیکھ پائیں۔ موبائل کی ’متوقع ‘کامیابیاں گنوانے کے بعد ایک امید ظاہر کی گئی کہ ’وہ دن دور نہیں جب یہ سب کچھ ہو گا‘۔بریکٹ میں ایک جملے کا اضافہ کر کے اپنا فرض ادا کر دیا گیا اور یہ اطمینان کر لیا گیا کہ ہم نے اپ ڈیٹڈ معلومات طلبا تک پہنچا دی ہیں۔ (الحمد للہ اب یہ سب ہو رہا ہے)۔گویا طلبا و طالبات کسی ایسے جنگل میں رہتے ہیں جہاں ساتھ ہی ایک دریا ہے اور دریا کو لکڑی کے پل سے پار کیا جاتا ہے۔ دریا کے اس پار کی دنیا ایک انوکھی دنیا ہے جہاں الحمد للہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ایسا سبق پڑھاتے اور پڑھتے ہوئے روسٹرم کے ہر دو جانب موجود افراد جس کرب سے گزرتے ہیں اس کا اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں۔

محمود غزنوی کو بطور ہیروپڑھانا شاید 16 دسمبر کے سانحہ پشاور سے پہلے قومی ضرورت ہو لیکن کیا کہا جائے کہ ہوش ہمیں اب بھی نہیں۔ افغانستان سے آنے والے ان حملہ آوروں کو بطور قومی ہیرو پیش کرنا کتنا دانش مندانہ فیصلہ ہے اور ہمارے ارباب ِ اختیار و عقل و دانش کی کس سطح کی ذہانت کی عکاسی ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔سمجھ نہیں آتا کہ طلبا کو ٹیکسٹ سے وفادار رہ کر بس تشریح کروا کے نکل جائیں یا ان کے سامنے تاریخی حقائق رکھیں۔یا ان کو حقائق بھی بتائیں اور پھر انھیں سمجھائیں کہ حقیقت تو یہ ہے لیکن آپ پیپر میں وہ لکھیں جو متن بتاتا ہے۔ درہ خیبر سے آنے والوں کو اسلام کے خدمت گار بتانا اور اس سرزمین کی خوش قسمتی سمجھنا کہ ان کے مبارک قدموں سے سرفراز ہوئی، یہ ہے وہ توقع جو ہمارے اربابِ علم و دانش ہم سے چاہتے ہیں۔

ایک بات طے ہے کہ کچھ معاملات پر ہمارا قومی بیانیہ اور سوچ دونوں نہیں بدلے نہ ہم ان کو بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اس سلسلے کی اگلی بات اگلی تحریر میں لیکن اتنا بتانا ضروری ہے کہ اردو کی کلاس میں جانے سے پہلے ہی دل اور موڈ اتنا خراب ہوجاتا ہے کہ بس، اور اس نصاب کو پڑھاتے ہوئے جو ذہنی انتشار اور خلفشار ہمارے اپنے ذہن میں ہوتا ہے وہ تو ایک طرف لیکن ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ خلفشار اور اذیت ہم اپنی قوم کے بچوں میں بھی بدرجہ اتم منتقل کر رہے ہیں۔ چنانچہ جب حاضری رجسٹر اٹھا کر ہم کلاس کی جانب چلنا شروع کرتے ہیں تو اس عزم کو دہراتے ہوئے اپنا موجودہ قومی بیانیہ گاتے ہیں ۔

مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے۔
کلاس میں جا کر ہم ان کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو دشمن کے بچوں کو پڑھاتے ہوئے ہمارا رویہ ہوتا ہے ۔
وہ رویہ جو ہوا کا خس و خاشاک سے ہے-


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments