دہشت گردی کی جنگ جہاد سے دل و دماغ تک


پاکستان مین دہشت گردی اور انتہا پسندی کا ذمہ دار جنرل ضیاالحق اور 80 کی دہائی کو ٹھہرایا جاتا ہے جب ہم نے امریکا کے ساتھ مل کر افغان جہاد شروع کیا اور پوری دنیا کے جہادیوں کو دعوت دے کر قبائلی علاقوں میں آباد کیا۔ روس کو شکست دے کر ہم مسلم امہ کے ٹھیکیدار بن گئے۔ اس کے بعد دہشت گردی اور اتنہاپسندی کے بیج اسلام اور جہاد کے نام پر تناور درخت بن گئے۔ اور ہم سوتے رہے۔ جو ہم نے بویا تھا وہی آج ہم کاٹ رہے ہیں۔ آج ہم جائیں تو جائیں کہاں ؟ نہ دہشت گردی ختم ہو رہی ہے نہ ہی دشمن مر رہیں ہیں۔ دہشت گردی کی یہ جنگ بڑھتی جا رہی ہے، نہ مسجد محفوظ ہے نہ مندر، نہ سکول نہ ہسپتال، نہ بچے نہ بوڑھے، نہ مرد نہ عورت، نہ ہی کوئی مذہب محفوظ ہے، نہ ہی کوئی مسلک۔ ابھی تک شاید اس جنگ کو ہم پرائی جنگ سمجھتے ہیں اور یہ بھی ہماری پرانی عادت ہے کہ ہم بغیر سوچے سمجھے ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں۔ اور آج بھی وہی کام جاری ہے، شاید سیاست دانوں کا نام اور کام اب یہی رہ گیا ہے، صرف الزام تراشی کی سیاست۔ یہاں پر ہر مسئلے پر آل پارٹیز کانفرنس ( اے پی سی) بلوائی جاتی ہے۔ دہشت گردی کے مسئلے پر بھی کافی دفعہ اے پی سیز بلوائی گئیں۔ اس کے باوجود لگتا یہ ہے کہ اس جنگ کے بارے میں ہمیں کچھ زیادہ پتا نہیں ہے کہ اس کا خاتمہ کیسے ہوگا اور اس کی کیا وجوہات ہیں؟ کیا یہ جنت کا دھوکا ہے، یا بدلے کی آگ؟ ہم ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے لڑ اور مر رہے ہیں اور ہماری سیاسی اور عسکری قیادتیں بارہا کہہ چکی ہیں کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لئے پورے ملک سمیت سورش زدہ علاقوں میں طبقاتی نظام ،ظلم و زیادتی اور ناانصافی کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔ تعلیم عام کرنی پڑے گی، روز گار کے مواقع پیدا کرنے ہوں گے اور دل و دماغ جیتنے ہوں گے۔ مگر یہ سارے وعدے وفا نہ ہو پائے، نہ نوجوانون کو روزگار ملا، نہ ہی تعلیم۔ نہ ہی انصاف کی دیوی نے سستا اور شفاف انصاف دلایا ،نہ ہی ہم طبقاتی نظام کا خاتمہ کرپائے، نہ ہی کوئی قانون سازی کرپائے۔ جہاں ہم کل کھڑے تھے آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔ نہ دشمن بدلا نہ ہی ہم۔ کرے تو کیا کریںبے چارے عوام؟ ماتم کریں یا سیاسی بیان سن کر دل کو تسلی دیں کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑدی ہیں۔ ایک طرف دہشت گرد مارے جا رہے ہیں دوسری طرف عوام کا قتل عام جاری ہے۔ ہمارے سیاستدان ارباب اختیار بے چارے اپنی سکیورٹی کا خیال کریں یا عوام کی۔ لگتا ہے کہ ہم دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ کو عارضی حکمت عملی کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ یقینا ہم طاقت کے استعمال سے یہ جنگ تو ضرور جیت جائیں گے مگر دہشت گردی میں استعمال ہونے والے کم عمر کمزور ذہن جن کو بدلے اور جنت کا جھوٹا خواب دکھا کر خودکش بمبار بنا کے استعمال کیا جا رہا ہے ان کے دل و دماغ جیتنے میں شاید دشواری کا سامنا کرنا پڑے۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی مصلحتیں چھوڑ کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کی مستقل حکمت عملی بنائیں۔ کیوں کہ ہمارے پاس وہ ہے جو کسی کے پاس نہیں۔ یہ سرزمین صوفیائے کرام کی ہے جنہوں نے ہمیشہ پیار ،محبت ،رواداری کی بات کی اور نئی سوچ، نئے انسان، نئے معاشرے، نئے سماج کادرس دیا۔ ہمیں چاہیے کہ اسلام کی اصل روح اور صوفیائے کرام کے پیغامات کو عام کریں، نصاب کا حصہ بنائیں اور ان بھٹکے ہوئے ذہنوں تک پہنچائیں۔روزگار کے مواقعوں کے ساتھ اس طبقاتی نظام کا خاتمہ کریں۔ انصاف کو آسان اور شفاف بنائیں اور جمہوری اداروں کو مضبوط کریں اور اس کے ثمرات عوام تک پہنچائیں تاکہ ہمارا مستقبل خوشحال ہو اور پیار ،محبت اور رواداری کی بہاریں پھر لوٹ آئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments