سی پیک کے ثمرات سب کے لئے (ذوالقرنین ہندل)۔


سی پیک اکنامک کوریڈور کا معاہدہ پاکستان اور چین کے اشتراک سے 2015ء میں طے ہواجس میں اقتصادی راہداری کے روٹ اور گوادر سمیت بہت سے منصوبے شامل ہیں۔اس منصوبے پر کام جاری و ساری ہے جو قریب چند برسوں میں پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔سی پیک اکنامک کوریڈور صرف ایک راہداری کا نام نہیں ۔بظاہر نام سے یہ ایک راہداری ہی لگتا ہے لیکن اس منصوبے کے تحت پاکستان میں توانائی سمیت بہت سے پراجیکٹس پر کام کیا جائے گاجس میں بجلی وگیس سر فہرست ہیں۔

سی پیک منصوبے کے تحت چین پاکستان میں مختلف پراجیکٹس پر 46 بلین ڈالرز خرچ کرے گاجس میں سے 35 بلین ڈالرز توانائی اور دیگر صوبائی مسائل کے لئے خرچ ہوں گے۔ باقی 10 بلین ڈالرز پاکستان اپنے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لئے مختلف مقامات پر استعمال کرسکے گا۔ یہ 46 بلین ڈالرز کی رقم براہ راست پاکستانی حکومت کو نہیں دی جائے گی بلکہ چین خود اپنی زیرنگرانی یہ رقم مختلف پراجیکٹس پر خرچ کر رہا ہے۔فقط کچھ چھوٹے پراجیکٹس و مقامات پر ہی پاکستانی حکومت کی رقوم تک رسائی ہے۔زیادہ تر بڑے پراجیکٹس کی نگرانی چین خود ہی کر رہا ہے۔اسی بنا پر اس راہداری منصوبے میں کرپشن کے چانسز بہت کم ہیں۔

جہاں تک بات صوبوں کی ہے تو سب صوبوں کو ان کے حصے اور مواقعوں کے مطابق ہی راہداری میں شامل کیا گیا ہے۔ تاہم صوبائی حکومتیں اپنی پھرتی کی بنا پر کچھ وافر کام بھی لے سکتی ہیں۔اس پھرتی میں پنجاب کا نام سر فہرست ہے۔سندھ بھی کوششوں میں مصروف ہے۔یہ بتانے کا مقصد ہے کہ وفاق  کسی ناانصافی پر عمل نہیں کر سکتا کیوں کہ سی پیک کے ثمرات سب کے لئے ہیں۔ چین اس راہداری پر صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے ہی کام کر رہا ہے۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ راہداری منصوبے کے ثمرات تمام صوبوں تک پہنچیں گے۔جن پر کام جاری و ساری ہے۔سی پیک کے ثمرات سے سب سے زیادہ مستفید بلوچستان اور خیبر پختونخوا ہوں گے۔ صوبوں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر تک بھی اس کے ثمرات پہنچیں گے ۔

سی پیک کے ذریعے ملک کے مختلف علاقوں میں ہائیڈرل پاور پراجیکٹس، کوئلے سے بجلی بنانے کے پلانٹس، ہوا سے بجلی بنانے والے ونڈ ٹربائینز اور سورج سے بجلی بنانے والے سولر پاور پلانٹس لگائے جائیں گے جن میں سے چند پر کام بھی جاری ہے۔میرے خیال سے تمام صوبائی حکومتوں کو سی پیک سے پوری طرح سے مستفید ہونے کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور چین کو توانائی کے بہترین مواقعوں سے آگاہ کرنا چاہئے تا کہ ایسے منصوبوں پر عمل درآمد ہو سکے جہاں کم وسائل سے زیادہ مستفید ہوا جا سکے۔جیسے سولر پاور پلانٹس پاکستان میں بہت کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اس راہداری کے ذریعے بلوچستان اور دور دراز کے علاقوں میں بجلی گیس اور سڑکوں کے جال بھی بچھا رہا ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت کے لئے فائبر آپٹکس کے جال بھی اسی منصوبہ کے ذریعے بچھائے جا رہے ہیں۔پاکستان کے بہتر ہوتے انفراسٹرکچر کو دیکھ کر ہی دوسرے ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔

سی پیک منصوبے کے تحت گوادر اور اس کے قریبی علاقوں میں پاکستانی دفاع کو مزید مضبوط اور بہتر بنانے کے لئے بھی بھاری رقوم استعمال کی جا رہی ہیں۔ گزشتہ بحری مشقیں بھی دفاع کو بہتر بنانے کے لئے کی گئیں۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں سی پیک کی شکل میں بیج بویا جا رہا ہے جو مکمل ہو کر پاکستان کے لئے میٹھا پھل ہی ثابت ہوگا۔بلاشبہ اس کی تکمیل سے پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا روز گار کے مواقع بڑھیں گے۔فوری طور پر لاکھوں پاکستانی مزدور بھی سی پیک سے مستفید ہو رہے ہیں۔ قارئین جہاں پاکستان اس سے مستفید ہوگا وہیں دوسرے ممالک تک بھی اس کے ثمرات پہنچیں گے۔ چین کو ایک آسان اور شارٹ کٹ راستہ مل جائے گا وہ آسانی سے دوسرے ممالک تک رسائی حاصل کرسکے گا۔برآمدات اور درآمدات میں باآسانی اضافہ کر سکے گا۔ اس منصوبے سے روس، افغانستان ،ایران، جاپان ،کوریا ، قازقستان، ازبکستان وغیرہ حتیٰ کہ بھارت بھی مستفید ہو سکتے ہیں ۔ یہ ان سب کے لئے یہ آسان تجارتی راستہ ہوگا۔

لیکن بھارت کو ہرگز گوارا نہیں کہ وہ پاکستان کو خطے میں ایک اقتصادی نمبردار کی حیثیت سے دیکھ سکے۔اسی لئے وہ سی پیک کو نقصان پہنچانے کے لئے سرگرمیوں میں ملوث ہے۔پاکستان بھارت کو بھی اس منصوبے میں شرکت کی دعوت دے چکا ہے لیکن بھارت شامل ہونے کی بجائے براستہ افغانستان پاکستانی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ بھارت اس منصوبے میں شامل ہو کر خطے میں اپنی اقتصادی پوزیشن کو بہتر کرسکتا ہے۔اپنی برآمدات و درآمدات میں اضافہ کر سکتا ہے لیکن مسلسل بھارت منصوبے کو روکنے کی کوششوں میں مصروف ہے جو کسی روز اسے اپنے نقصان کی شکل میں چکانا پڑے گا۔اب افغانستان جو براہ راست سی پیک کا حصہ ہے اسے بھارت کی گود کا سہارا چھوڑ کر خود کو مستحکم کرنا چاہئے کیونکہ یہی ایک موقع ہے کہ افغانستان بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔

ایشیا کا یہ خطہ سی پیک کی تکمیل سے بہت سے ثمرات سمیٹے گا اور اس کا سہرا پاکستان کے سر ہے۔پاکستان کو اپنے اندرونی معاملات فوری حل کرنے چاہئیں تاکہ سی پیک کی کامیابی پر توجہ مرکوز رہے اور بیرون ممالک اپنی سرمایہ کاری پاکستان میں کرنے سے گریز نہ کریں بلکہ کھلے دل سے سرمایہ کاری کریں۔ اگر سی پیک پر کام پوری توجہ اور محنت سے کیا جائے تو سی پیک پراجیکٹ پر لگنے والی سرمایہ کاری مزید بڑھ سکتی ہے دوسرے ممالک بھی اس پر سرمایہ کاری کرسکتے ہیں کیوں کہ اس میں ہی سب کے فوائد و ثمرات ہیں۔واقعی یہ خطے کے لئے گیم چینجر ہے دنیا اس سے آگاہ ہے اور جو آگاہ نہیں انہیں بھی چند سالوں میں علم ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments