ہاں ہاں میں پنجابی ہوں اور شرمندہ ہوں


ہاں بھئی میں پنجابی ہوں۔ بہت شرمندگی ہے، آنکھیں جھکی ہوئی ہیں، کندھے گر چکے ہیں، سر نیچا ہے، کیوں کہ مجھے اس خطے میں پیدا ہونے کا سزاوار ٹھہرایا گیا۔ میرے باپ نے مجھ سے نہیں پوچھا کہ میاں تم ایک ظالم صوبے میں پیدا ہو گے یا تمہارے لیے کسی مظلوم و مقہور خطے کا بندوبست کیا جائے؟ میری ماں نے کبھی سوال نہیں کیا کہ میرے بچے، تم وہاں پیدا ہو گے جہاں گرمی گال جھلسا دے گی یا وہاں کہ جہاں سردی سے گال سرخ ہو کر پھٹ جاتے ہیں؟ میرا ظہور سراسر ایک جبری واقعہ تھا اور چوں کہ وہ ایک جبر مسلسل تھا اس لیے میں اب تک موجود ہوں اور میں شرمندہ بھی ہوں۔

میری دادی ہندوستان سے یہاں آئیں اور میرا باپ پنجابی ہو گیا۔ میری ماں سرحد سے یہاں آئی اور میں پنجابی پیدا ہو گیا۔ میری شادی سندھ کی ایک لڑکی سے ہوئی اور میری بیٹی بھی پنجابی بن گئی۔ تو میں اتنی ساری وراثتوں کا امین ہوں لیکن میں پنجابی ہوں۔ چوں کہ میں پنجابی ہوں تو اصولی طور پر ان تمام باتوں کے لیے شرمندہ ہوں جو میں نے کبھی کیں، نہ کبھی سوچیں۔

میں جب کسی گورے چٹے اونچے لمبے انسان کو واسکٹ اور پشاوری چپل پہنے دیکھتا ہوں تو مجھے قصہ خوانی بازار کی گلیاں یاد آ جاتی ہیں۔ مجھے ماموں کے تمام دوست یاد آتے ہیں۔ مجھے پشاور کی ایک ایک گلی یاد آتی ہے، وہاں کی خوشبوئیں، وہاں کے ذائقے، وہاں کے قہوے کا رنگ، وہاں کی گلیوں کی مخصوص مہک، وہ سب کچھ مجھے یاد آ جاتا ہے۔ مجھے یہ بھی یاد آتا ہے کہ وہاں میں ایسے اکیلے گھومتے پھرتے ہوئے ڈرتا بھی تھا، کیوں کہ بہرحال میں ایک ڈھگا تھا اور مجھے پشتو نہیں آتی تھی، تو ٹہلتے ٹہلتے اگر میں گم ہو جاتا تو مجھے واپس نہ پہنچ سکنے کا خوف بھی ہوتا تھا، لیکن ٹول پنجابیان کے لیے وہ علاقہ کبھی غیر نہیں تھا اس لیے میں آرام سے گھومتا تھا۔ اس کا حل میں نے ویسے بھی تلاش کر لیا تھا، پشتو کا ایک جملہ رد بلا کے طور پر سیکھ لیا تھا۔ “ماتا پختو نہ رازی، اردو خبرے کوا” مجھے پشتو نہیں آتی اردو میں بات کرو، تو گزارہ مزارہ چلتا تھا۔ لیکن میں شرمندہ ہوں کہ میں اس وقت پنجابی کیوں نہیں تھا، یا آج یہ سب کیوں یاد کر رہا ہوں۔ چوں کہ میں یہاں پیدا ہوا، اس لیے یہ طوق اس غلام زادے کے گلے میں بہرحال لٹکا رہے گا۔

میں پنجابی ہوں لیکن اردو بولتا ہوں۔ پیدا ملتان میں ہوا تھا، دادا سرائیکی بولتے تھے، صوبے کی زبان پنجابی ہے، دادی اردو والی تھیں، تو چوں کہ میں دونوں میں سے کوئی بھی ماں بولی جان بوجھ کر نہیں بولتا، دونوں بول سکتا ہوں، سمجھ سکتا ہوں، لکھ سکتا ہوں، لیکن پھر بھی نہیں بولتا تو اس لیے بھی شرمندہ ہوں۔ اب میں پنجابی ہوں لیکن میں پنجاب سے شرمندہ ہوں اور سرحد سے تو بہرحال ہوں کہ اور کچھ نہیں تو ہندکو ہی بول لیتا جو میری ماں بولتی ہے۔

میں اردو بولنے والوں کو بھی برا نہیں سمجھتا، نہ انہیں بھئیے کا خطاب دیتا ہوں نہ ہندوستوڑا کہتا ہوں۔ وہ مجھے اپنے جیسے لگتے ہیں۔ میں وہاں جاؤں تو وہ مجھے کہتے ہیں کہ تمہاری اردو میں پنجاب کی لٹک ہے، تو میں ان سے بھی شرمندہ ہوں۔ کل ملا کر میں پنجابی، سرائیکی، پشتون، اور اردو بولنے والوں سے اب تک شرمندہ ہوں۔

میں سائیں سچل سرمست کے دربار پر جاؤں، سیہون شریف جاؤں یا ریہڑکی شریف کے کسی مندر میں جھانک لوں۔ وہ لوگ مجھے اردو بولتے دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں یہ کراچی والا یہاں کیا کرنے آ گیا۔ وہ ذرا فاصلے پر ہو جاتے ہیں۔ جب انہیں میں بتاتا ہوں کہ بھائی میں ملتان کا ہوں تو وہ مجھے ریاستی کہتے ہیں۔ مجھے ریاستی ہونا پسند نہیں ہے۔ یہ سینتالیس سے پہلے کی باتیں تھیں۔ لیکن چونکہ میں پنجابی ہوں، اردو بولتا ہوں اور ریاستی بھی ہوں، اور ریاستیوں کے بارے میں سندھی بھائی اچھا گمان نہیں رکھتے اس لیے میں سندھی بھائیوں سے بھی شرمندہ ہوں۔ ایسی محبت کرنے والی دھرتی میں بھی بطور ایک ایلین پایا جانا میری شرمندگی بڑھا دیتا ہے۔ لیکن ہوں، میں اپنے اس قصور پر شرمندہ ہوں جس کے ہونے یا نہ ہونے کا اختیار میرے پاس نہیں تھا۔

میں کبھی کوئٹے نہیں گیا۔ سارنگ میرا دوست ہے۔ وہ کوئٹے کا رہنے والا ہے۔ وہ میرے لیے ہر دو چار ماہ بعد بہت سا کرت بھیجتا ہے۔ یہ سوکھے ہوئے پنیر کی ایک قسم ہے جو ذرا ترش اور نمکین ہوتی ہے۔ پھر جب ہم کبھی کسی اور شہر میں اکٹھے ہوتے ہیں تو سارنگ کا خلوص بس میری آنکھیں نہیں بھگوتا، باقی سارنگ سر سے پیر تک محبت ہے۔ کوئٹے سے تعلق میرے عثمان قاضی کا ہے۔ ایسا عالم انسان، اس قدر فاضل، اتنی ڈھیر ساری کتابیں رکھنے والا کہ جو پانچ کمروں میں سمائی نہ جائیں، وہ عثمان قاضی میرا دوست ہے۔ میں اسلام آباد جاتا ہوں، عثمان قاضی کے یہاں قہوہ نوشی فرض ہو جاتی ہے، اس کی اردو سنتا ہوں اور اپنی اردو پر افسوس کرتا ہوں، بہت دیر بیٹھ کر اٹھ جاتا ہوں لیکن عثمان قاضی دل پر قابض رہتا ہے۔ پشین میرے ظفر اللہ خان کا ہے۔ جس نے لکھا ہوا پڑھا، اس نے ظفر اللہ کو کیا خاک جانا، اسے جاننا ہے تو گلے لگاؤ اس سے بات کرو اور بتاؤ کہ ظفر اللہ خان کیا آدمی ہے۔ تو پشین کا ظفر اللہ اسلام آباد میں ملتا ہے اور ایسی ظالم مہمان نوازی کرتا ہے کہ انسان کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں۔ یا خدا، یہ انسان کیا چاہتا ہے؟ باتیں اس قدر محبت سے کرے گا کہ اختلاف بھی موتی چور کے لڈو میں لپیٹ کر سامنے رکھے گا۔ اسے ید بیضا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ تو بلوچستان میں میرا ایک نمائندہ یدبیضا بھی ہے۔ لیکن اب میں ان سب سے بھی شرمندہ ہوں کہ میں ایک پنجابی ہوں، اور جو کچھ میں نے نہیں بھی کیا، میں اس سب کے لیے بھی شرمندہ ہوں۔

فاٹا، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر میں کوئی ایسا جاننے والا نہیں کہ جس سے میں باقاعدہ معافی مانگ سکوں۔ لیکن یار میں ان سب سے بھی دست بستہ شرمندہ ہوں۔ جو کچھ میں نے کبھی سوچا نہ کبھی اچھا سمجھا نہ کبھی حمایت کی اس سب کے لیے بھی میں ان سب سے شرمندہ ہوں، کہ بہرحال مجھے بڑے بھائی کا لقب دیا گیا تھا۔ دینے والے مر کھپ گئے اور میں چوں کہ زندہ ہوں تو شرمندہ ہوں۔

میں کچھ لوگوں سے شرمندہ بالکل نہیں ہوں۔ سنو راجن پور، جام پور، ڈی جی خان، فورٹ منرو، خانیوال، پاک پتن، اوکاڑہ، مظفر گڑھ، کوٹ ادو، لیہ، شور کوٹ، لودھراں، بہاولپور، ڈیرہ نواب، رحیم یار خان وغیرہ کے رہنے والو، میں تم سے شرمندہ نہیں ہوں۔ تمہاری سڑکیں بنیں نہ بنیں، تمہیں ہسپتالوں کے لیے بھاگ بھاگ کر ملتان یا لاہور جانا پڑے، تمہیں اعلی عدالتوں کے چکر لاہور میں کاٹنے پڑیں، تمہیں معمولی سرکاری پروانوں کی منظوری کے لیے صوبے کے دارالحکومت آنا پڑے، تمہاری گلیوں میں کوڑے کے ڈھیر پڑے رہیں، تمہاری سڑکوں پر پھول یا درخت تو کیا فٹ پاتھ تک نہ ہوں، تمہارے سکول کھلے اور بند برابر ہوں، تمہارے اسٹیشن اجاڑ پڑے رہیں، تمہارے فنڈ جاری ہوں نہ ہوں، تمہارے بلدیاتی نمائندے کھوہ کھاتے درج کرنے کے لیے ہوں، تمہیں اپنے شہر میں نوکریاں نہ ملتی ہوں، تمہارے بچے پڑھنے کے لیے تم سے دور بھاگ جاتے ہوں، تمہارے یہاں لائبریریاں، اچھے تعلیمی ادارے، میڈیکل کالج، یونیورسٹیاں، نہ ہوں یا ایک آدھ ہوں مجھے کوئی پرواہ نہیں، چاہے تم ایک اعلی ترین “ادارہ زرعی تحقیقات برائے آلو” کے مالک ہی کیوں نہ بن جاؤ، میں تم سے شرمندہ نہیں ہوں۔ نہ ہی کبھی تم سے شرمندہ ہونے کو میرا دل چاہے گا۔ تم پنجابی ہو۔ اور میں بھی پنجابی ہوں۔ تو میں تم سے شرمندہ کیوں ہوں گا؟ مجھے ہر صوبے کے دکھ نظر آئیں گے، وہ میرے سر آنکھوں پر ہوں گے، لیکن تم تو اپنے ہو بھئی، مرتے رہو، کھپتے رہو، لڑتے رہو، تم رہو گے پنجابی۔ اور تمہیں تو کوئی دو بول افسوس کے بھی نہیں کہے گا۔ تو غریب پنجابیو، میں تم سے شرمندہ نہیں ہوں۔ میں اپنے باقی سب بھائیوں سے دست بستہ معافی کا طلب گار ہوں۔ وہ مجھے معاف کر دیں تو میں تمہاری فکر پھر بھی نہیں کروں گا۔ تم اگلے ہزار سال موہنجو ڈرو جیسی گلیوں اور گھروں کے ساتھ موجود رہو گے۔ اور وہ گھر گلیاں غائب ہوں گے۔ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوں گے۔

میں موجود ہوں۔ ہر اس چیز کا افسوس کروں گا جو مجھے نظر آئے گی۔ جو نظر نہیں آتی میں اس کے لیے شرمندہ نہیں ہو سکتا۔ تو اے مہربانو، قدردانو، عزیزو، بھائی جانو ۔۔۔ میں شرمندہ ہوں!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments