خبردار یہاں خوشیاں منانا منع ہے!


یہ ہے سرزمین پاکستان یہاں آزادی ہے مسائل میں جینے کی ،قانون توڑنے کی، جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پہ ہر چیز قبول کرنے کی، کہیں بھی کسی بھی جگہ کسی بم دھماکے میں مرنے کی، مذمتی بیانات وصولنے کی ،اور تو اور یہاں سہولت میسر ہے یہ جاننے کی کب کون سی جگہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والی ہے۔ یہاں ریاست شہریوں کی حفاظت کی ذمہ دار نہیں ہے ،ہاں شہری خود ذمہ دار ہیں اپنی زندگی اور موت کے۔ وہ چاہیں تو اپنے طور پہ خود کو کسی حادثے سے بچا لیں ریاست مصروف ہے دہشت گردی سے جنگ میں۔ اس کو یہ فرصت میسر نہیں کہ وہ گھر سے جانے والے افراد کی ماﺅں کو حوصلہ دے کہ سب ٹھیک ہے سب خیریت سے لوٹیں گے کیونکہ یہاں رہنا ہے تو آپ اپنی ذمہ داری پہ رہ سکتے ہیں کسی نے آپ کو مجبور نہیں کیا یہاں رہنے اور اس ملک کا حصہ بننے پر۔
آپ کو اعتراض ہے کہ ریاست دلچسپی نہیں لیتی آپ کی کسی سرگرمی میں۔ تو بالکل غلط ہے آپ کا مذہب،عقیدہ، تہذیب ،کلچر، خوشیاں اور غم منانے کا انداز یہ سب انتہائی دلچسپی کے معاملات ہیں۔ آپ خوش ہوں اور اس خوشی کو اپنے انداز سے منائیں ایسا نہیں چلے گا آپ بسنت منائیں بالکل نہیں یہ آپ کا کلچر نہیں ہے (ویسے سوچئے آپ کا کلچر ہے کون سا؟) کوئی بھی نہیں ہے، نہ وہ تہذیب آپ کی جس میں آپ نے آنکھ کھولی اور سانس لی ، جس کے ارتقا کا حصہ آپ کے آباو¿ و اجداد بنے ۔تو پھر کون سی تہذیب آپ کی ہے۔ سوچئے سر پھوڑیے ۔زیادہ بہتر یہ ہے کہ اسے اپنی تہذیب مان لیجیے جو آپ پہ زبردستی تھوپی جا رہی ہے ۔شرط یہ ہے کہ وہ واقعی ہی تہذیب ہو جسے سمجھایا جا سکے؟ جس کی واضح انداز میں تعریف کی جا سکے ،تو ضروری نہیں ہے کہ آپ کو اختیار کس نے دیا سوال پوچھنے کا ؟حد ادب !سوال پوچھنا منع ہے۔
آپ مجبور ہو جاتے ہیں ،مذہب میں سکون ڈھونڈنے چل پڑتے ہیں، کہیں مزاروں پہ، کہیں مساجد میں ،کہیں امام بارگاہوں میں، لیکن یہ کس نے کہا اس میں آزادی ہے ۔ آپ کو کب کیا سوچنا ہے ،کون سا عقیدہ اپنانا ہے، کون سا انداز عبادت درست ہے اس کا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں نہیں ان کے ہاتھ میں ہے جو آپ کو آپ کے پیاروں کو اڑا کے یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ غلط ہے اور غلطی کی سزا تو ملتی ہی ہے چاہے وہ موت کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ جو خود کو اپنی مرضی سے اڑائے وہ جنتی جو اس کے ساتھ اڑجائیں وہ جہنمی ،کیوں کہ وہ اپنے انداز سے جیتے ہیں ،اپنے انداز سے سکون تلاشتے ہیں۔ یہ کہاں سے آتے ہیں جو موت اور زندگی کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ تربیت ہے عدم برداشت کی۔کیا ایسا نہیں کہ وہ تربیت زیادہ طاقت ور ہے جو جان لینے پہ اور ساتھ خود اپنی جان دینے پہ بھی آمادہ کر دیتی ہے با نسبت اس تربیت کہ جو ایک معاشرہ تعمیر کرنے کے لیے مکالمے کی فضا کو ابھارے۔اور یہ اپنے عمل سے اس نسل کی پرورش کر رہی ہے جو اپنے پیاروں کو کھونے کے بعد کوئی وضاحت بھی ڈھونڈ نہیں پاتے۔جو نہیں جانتے کہ انہیں کس جرم کی سزا دی گئی ہے وہ اس ہجوم کو معاشرہ کیا بنائیں گے؟ اور کیونکر اس کی بہتری کے لیے کام کر سکیں گے۔
جب معاملات زیادہ بگڑ جاتے ہیں تو برداشت جواب دینے لگتی ہے ۔سر پھرے سوال اٹھانے لگتے ہیں۔ مظلوم درد کا نوحہ لکھتے ہیں ،حبس بڑھتا ہے تو بغاوت سر اٹھانے لگتی ہے، انقلاب کی صورت پیدا ہونے لگتی ہے۔تو ایسے میں وہ ذہین لوگ موجود ہیں جو اس بغاوت کا رخ آسانی سے بدل سکتے ہیں یہ بتا کر کہ ایک خاص نسل اور قومیت سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی اس بد امنی کا سبب ہیں ،وہی سب خرابیوں کا باعث ہیں۔ہجوم رخ بدلتا ہے اور آسانی سے بدلتا ہے کیونکہ اسے کوئی راستہ چننے کے لیے کسی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے نہ ہی حتمی نتیجے پہ نظر رکھنے کی۔ اپنی صفائیوں اور احتجاج کا شور و غوغا بلند ہونے لگتا ہے ۔ ایک بار پھر کامیابی انہی کے ہاتھ آتی ہے جو انسانوں کے اس ریوڑ کو کسی مناسب ٹریک پہ نہیں رکھنا چاہتے۔ایک بار پھر مرنے والے انسان نہیں بلکہ بنجابی ،بلوچ ،پشتون ،سندھی ،شیعہ،سنی اور بریلوی ہو جاتے ہیں۔مارنے والے دہشت گرد نہیں رہتے۔ انہی گروہوں میں بٹے ا فراد ہو جاتے ہیں۔کاروبار ایک بار پھر چل نکلتا ہے۔ ایک امن کا مختصر وقفہ اور پھر پریشانی کا دور۔ الجھنوں اور پریشانیوں میں الجھے لوگ سب واضح نظر آتے ہوئے بھی اندھوں کی طرح وجوہات ٹٹولتے ہیں۔ایک بار پھر بھول جاتے ہیں کہ زندگی پہ ان کا بھی حق ہے۔ انہیں جینے کے لیے راستہ تلاشنا ہے ،خود جینا ہے اور دوسروں کو بھی جینے دینا ہے۔نہ جانے کب تک یہ الجھن رہے گی اور نجانے کب تک لوگ مرتے اور مارتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments