لاہور سے جہلم تک…. راوی کنارے سے جہلم پتن تک


لاہور سے جہلم تک بذریعہ ٹرین کئی بار سفر کیا۔ کبھی اکیلے تو کبھی ساتھیوں کے ہمراہ۔ ہر بارسفر خوب رہا۔اس بار تو شاید میری کوئی حس جاگ اُٹھی تھی۔ معلوم کیا گیا کہ مریدکے اور سادھوکے کے لہلہاتے کھیت کی خوبصورتی تبھی نکھر کر سامنے آتی ہے جب صبح صادق سورج کی کرنیں پھیلتی ہیں۔ اور ہلکے رنگ پھیلتے ہیں تو چاروں طرف ہری گھاس پر پیلا رنگ وین گاف کی بنائی راتوں اور ٹمٹماتے تاروں کا سرور پیش کرتے ہیں۔ کہیں تو اپنی جگہ پر مضبوطی سے جڑے درخت، یوں محسوس ہوتا ہے کئی جن اور دیو جمع ہوں اور کوئی خاص میٹنگ چل رہی ہو۔ اور میٹنگ میں بہت سارے چٹکلے سنائے جا رہے ہوں۔ اور یہ بھی معلوم کیا گیا کہ کھاریاں کینٹ سے دی گرینڈ سٹی سرائے عالمگیر تک خزاں جیکسن پلاک کے رنگوں سے خاص مناسبت رکھتی ہے۔ چناب کا پانی اب بھی سرخ ہے۔ شاہد سوہنی کا خون اب بھی اس میں شامل ہے۔
سفر کے دوران غالباً وزیر آباد اسٹیشن سے میرے ساتھ سی ایس پی آفیسر بیٹھے تھے۔ اچھی بچیوں کی طرح میں نے بالکل سیدھے منہ بات نہیں کی۔ کیا ہے کہ جب تصاویر لے رہی تھی تو صاحب نے سلام دعا کے بغیر یہی پوچھا ،©’کیا کر رہی ہیںآپ؟‘ میرا تو جواب یہی ہونا تھا: ’صاحب! جو آپ نہیں کر سکتے۔‘ کچھ مختصر گفتگو کے بعد سیدھا کہہ دیا:’ این سی اے کے سبھی لوگ بہت نک چڑھے ہوتے ہیں۔ نہ ہی منہ لگیں تو بہتر ہیں۔ ‘سمجھدار کو اشارہ کافی ہے۔ بس صاحب کھسک لیے۔ مڑ دیکھا نہیں۔ اب ایسی بھی بات نہیں۔ این سی اے نک چڑھا ہونا تو نہیں سکھاتا لیکن تصاویر لیتے ہوئے صاحب جب فری ہونے کی پوری کوشش کر رہے تھے ۔اور پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ محترم سی ایس پی آفیسر نے سوال پوچھ لیا ’ این سی اے سے فوٹوگرافی کر رہی ہیں؟‘ نہ کہتے تو نہ سنتے۔اور پھرہوا یوں کہ میں بھی اُتر گئی۔ اپنا اسٹیشن آ گیا تھا۔ سفر میں سی ایس پی آفیسر کے سوا سب یاد ہے۔ گھوڑوں کا ہنہنانا، گدھے کا بھاگنا، لوگوں کا منہ اندھیرے صبح سویرے کھیتوں میں ہل چلانا، کئی عورتوں کا سر پر گوبر اُٹھائے اُپلے بنانے کی تیاری کرنا اور کئی کو اُپلے تھاپتے دیکھا، بچوں کا صبح سویرے اسکول بھاگنا، موٹر سائیکلوں کی بھرمار، ایک انکل نے تو ریڑھے پر ضرورت اور سٹاک سے زیادہ جوتوں کے ڈبے لاد رکھے تھے۔ بہت سے لوگوں کو کارر چلاتے ہوئے فون ا ستعمال کرتے بھی دیکھا۔ کئی جھونپڑیاں دیکھیں، کئی عورتیں اسکول جاتے بچوں کے ساتھ خود بھی بھاگ رہی تھیں۔ خصوصاً دادیاں اور دیگر بوڑھی عورتیں۔ حیرت تو ہونی تھی۔ یہ اب بھی اتنی مضبوط ہیں کہ بھاگ سکتی ہیں۔
راستے میں ایمن آباد اور راہوالی بھی آیا۔ پھر گوجرانوالہ۔ گوجرانوالہ سے مجھے خاص نسبت ہے۔ میرا وہ ننھیال یہاں بستا ہے جس کو دیکھنے کی چاہ ہے۔ مگر جب فیملی ڈرامہ سنتی ہوں تو اپنا ہر منصوبہ رد کر دیتی ہوں۔ میں اتنی پاگل نہیں ہوئی کہ خاندانی لڑائی جھگڑوں میں پڑ کر وقت ضائع کروں۔ ویسے بھی ہے ہی کتنا۔ جب سے مال روڈ کا بلاسٹ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے میرا جھگڑا کرنے کو بالکل دل نہیں کرتا۔ غصہ آیا بھی تو فوراً ختم…. دھیان لگا لیتے ہیں اپنے کام میں۔ کام ہی تو زندگی ہے۔ اور جب کام سے کچھ آرام چاہیے ہو تو نئی زندگی بخشنے کو محبت ہے نہ۔
نہیں نہیں، شاہ جہاں والی محبت نہیں اپنی سادہ سی محبت۔ کچھ بس آرام سے بیٹھ گئے ، چائے پی لی، ماضی کرید لیا، اچھی یادوں سے مسکرا دیے اور بچوں کو محبت سے دیکھ لیا۔ بچے تو سب کے پاس ہوتے ہیں۔ کھیلتے ہوئے بچے دیکھنا بھی سورج کی پہلی کرنوں کو دیکھنے جیسا ہے۔ قدرتی رنگ تو تبھی کھلتے دکھائی دیتے ہیں جب ساگ مکھن کے تڑکے سے بنا ہو ساتھ میں مکئی کی روٹی اور کچھ میٹھا۔واہ !سواد آ جاتا ہے۔ سفر کرتے ہوئے بھی جب ساگ اور مکئی کی روٹی سوچوں میں کھائی جا رہی تھی تو یوں لگ رہا تھا میںپراٹھوں کے ساتھ آلو انڈے نہیں واقعی میں مکھن یا دیسی گھی سے لگے لہسن کے ہلکے تڑکے میں بناساگ اورمکھن یا دیسی گھی میں چپڑی مکئی کی روٹی کھا رہی ہوں۔ یہی میری محبت ہے۔ قدرت سے محبت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments