بابا منشی، چنے کی فصل اور ایک باپ کی فریاد!


ہمارے ایک بابا ہیں جن کو ہم بابا منشی کہتے ہیں۔ نام محمد امین زاہد ہے اوررشتے میں ہمار ی نانی کے بھائی بھی ہیں اور آٹھویں جماعت تک ہمارے استاد بھی رہے۔ چالیس سال سے زائد عرصہ تک گاؤں کے اسکول میں پڑھاتے رہے۔ فارسی اور اردو میں کمال حاصل ہے۔ دو شعری مجموعے ‘باران رحمت’اور ‘پس دیوار غم ‘ چھپ چکے ہیں۔ تیسرا مجموعہ زیر طباعت ہے۔ روانی اور سہولت سے شعر کہتے چلے جاتے ہیں یعنی بقول فیض ‘اچھی طرح سے گھاس کاٹتے ہیں’

اصل واقعہ کی جانب جانے سے پہلے ان کے کچھ شعر یاد آ گئے تو ان کو بھی پڑھتے چلیے۔۔

کہتے ہیں کیا اسی کو زمانے کا انقلاب

پھولوں سے قدر میں ہیں فزوں خار ان دنوں

اور۔۔

جب سے دیکھا ارتکاب قتل ہے جرم و گناہ

اس بت کافر کو بھی آنسو بہانا آ گیا

اور۔۔

پڑی تھی دھوپ کڑی ‘ گلاب جلتے رہے

کرن کرن میں تھے شعلے حباب جلتے رہے

کچھ ایسی یادوں کے ساتھ سو گئے تھے ہم

کہ جسم سلگتا رہا رات ‘ خواب جلتے رہے

بجھی نہ قطرہ شبنم سے پیاس صحرا کی

ازل سے آگ میں اپنی سراب جلتے رہے

ان کے رخسار پہ تھا یوں وفور جلووں کا

روشنی چھن چھن کے جو نکلی ‘نقاب جلتے رہے

میرے اشعار میں ہےوہ تاثیر کہ جس کے سبب

شدت سوز سے ۔ تار رباب جلتے رہے

محمد امین زاہد ۔۔۔ مجھے اجازت دیجئے کہ میں ان کوبابا منشی ہی لکھوں۔ بابا منشی علاقے میں قدرو منزلت سے دیکھے جاتے ہیں ۔جب تعلیم عام نہیں تھی تو ایسا بندہ ویسے بھی کسی سیارے کی مخلوق لگتا تھا اور نہلے پہ دہلا یہ کہ شعر بھی کہتا ہو۔

دیہی دانش پر بات ہوئی تو فرمانے لگے کہ تعلیم کی اہمیت تو اپنی جگہ لیکن تجربہ بھی تعلیم کے مترادف اور شخصیت کو کمال اجالا دیتا ہے۔ میں ایک دن سائیکل پر گاؤں سے ڈھوک پر چارہ لینے جا رہا تھا۔ گاؤں میں لوہے کا یہ گھوڑا لینےکا اعزاز سب سے پہلے مجھے ہی لینے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ سائیکل چلاتے ہوئے کچے راستے پر اگلے ٹائر سے بیلیں بنانے میں مصروف اپنی ہی دھن میں جا رہا تھا کہ بابا زمرد (نام بدل کر فرضی کر دیا ہے)جو پیشے کے اعتبار سے نائی اور سند یافتہ ان پڑھ تھا ‘ نے آواز دی۔ “منشی ۔۔او منشی گل سن “

بابا زمرد نے اپنے پورے دور میں گاؤ ں سے باہر کبھی قدم بھی نہ رکھا تھا اور کم گو تھا۔

میں نے سائیکل روکی اور حال چال پوچھا۔ بابے نے درانتی زمین پر ہی رکھی اور کھڑے ہو کر چند ثانیے کمر سیدھی کی۔

پھر میری طرف آتے ہوئے کہنے لگا، ” منشی دو فریادیں آسمان کی جانب گئی ہیں۔ ایک کا جواب آ گیا ہے اور دوسری فریاد کے جواب کا انتظار ہے”

میں نے تجسس سے پوچھا ۔ کونسی دو فریادیں بابا؟ کس کا جواب آ گیا ہے اور کس کا نہیں؟

بابا زمرد نے راستے کے پاس درخت کے نیچے رکھے گھڑے کے پاس آیا۔ مجھے اشارے سے انتظار کرنے کو کہا اور ٹھنڈا پانی پینے لگا۔ پھر کھڑا ہوا اور مونچھوں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہنے لگا، ” منشی ایک فریاد تو چنوں نے کی تھی ۔ چنوں نے کہاتھا کہ کہ ہماری فصل زمین سے سر نکالتی ہی ہے کہ سختی آ جاتی ہے۔ سر زمین تلہ گنگ کے باسی پہلے ہمارے پتوں سے چٹنی بناتے ہیں ۔ پھر ہم کچھ بڑا ہوتے ہیں تو ساگ کی صور ت لذت دہن کا سبب بنتے ہیں۔ ہم پرکچے چنے آتے ہیں تو ان کی چٹنی بنتی ہے ۔ انہی کچے چنوں(گھاڑاں) کا سالن بنایا جاتا ہے۔ پھر ہم میں بچے کھچوں کا منڈی میں فروخت کا وقت آ جاتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔تو اے آسمان ہم اتنا ظلم سہتے ہیں لیکن ہماری منڈی میں کوئی قدروقیمت نہیں (چنے سستے بکتے تھے)

آج صبح تلہ گنگ سے آنے والی ایک لاری کے ذریعے خبر آئی ہے کہ چنوں کی قیمت پہلی دفعہ منڈی میں چڑھ گئی ہے۔

بابا زمرد نے بات ختم کی تو میں نے تائید کی کہ ہاں مجھے یہ خبر مل چلی ہے ؛ لیکن وہ دوسری فریاد کیا تھی؟

بابا زمرد تھوڑا آگے ہوا اور ہاتھ میں پکڑی چھڑی سے راستے کی ریت پر لکیریں کھینچنے لگا۔ مجھے اس کی یہ ‘دانشورانہ خاموشی ‘بری لگ رہی تھی

منشی دوسری فریاد ایک باپ کی گئی ہے۔ ایک باپ نے فریاد کی ہے کہ میرے گھر بیٹی پیدا ہوئی۔ میں نے اسے پالا پوسا ۔ شہزادیوں کی طرح رکھا اچھی تربیت دی۔پھر ایک وقت آیا جب مجھ سے کچھ لوگ بیٹی کا ہاتھ مانگنے آئے۔ میں نے بیٹی ان کو دے دی۔ مجھے لگا کہ جن کو بیٹی دی ہے وہ پوری زندگی میرے احسان کے نیچے دبے رہیں گے۔مجھ سے آنکھ ملا کر بات نہیں کر سکیں گے لیکن منشی ۔۔یہ کیا ہوا؟ سب کچھ الٹ ہو گیا۔ دوسری فریاد باپ کی گئی منشی ۔۔۔جس نے کہا کہ بیٹی دے کر بھی میرے سر کے بال بیٹی لینے والوں کے پاؤں کے نیچے کیوں ہیں؟

میں نے تجسس سے پوچھا۔۔ پھر؟

پھر کیا منشی ۔۔ کہا تو ہے دوسری فریاد کا جواب نہیں آیا۔

یہ کہہ کر بابا زمرد واپس کھیت کی جانب چل دیا۔ گرمی زور کی پڑ رہی تھی ۔ میں بابا زمرد کی بات سن کر سائیکل چلانا بھول گیا تھا۔ سائیکل کے ساتھ ساتھ پیدل چلتا گیا۔ دورکھیتوں میں ایک ننھا بگولہ چلا آتا تھا جس کے راستے میں آنے والی پوہلی اس کے گرد رقص درویشاں میں مصروف ہو کر بلندی کی جانب جاتی تھی۔ ننھا بگولا اور ناقابل ذکر پوہلی بھی شاید کوئی فریادیں آسمان کو پہنچانا چاہتے تھے۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments