ردالفساد کے لیے اختلاف کا احترام ضروری ہے


 دہشت گردی کی آکاس بیل باغ کی ہر شاخ کو اپنی لپیٹ میں لینے کی فکر میں ہے۔ دہشت گردی کی نقصان دہ اور قاتل ٹہنیوں کو اکھاڑنے کا حقیقی نصب العین یہ ہے کہ ہمارے باغ میں رنگ رنگ کے پھول اپنی بہار دکھا سکیں۔ تمام پودے نشوونما سے بہرہ ور ہو سکیں۔ رواداری کی شبنم موتیوں کی طرح ہری گھاس پر بہار دے۔ امن کی ہوا کے جھونکے ہمیں نصیب ہوں۔ ہمارے بچوں کو محبت کی خوشبوملے، وہ رنگوں کی تتلیوں کا تعاقب کریں اور روشنی کے جگنو ان کے راستے منور کریں۔ دہشت گردی خوف کی حکمرانی ہے، تشدد کی دھمکی ہے اور نفرت کی اذیت ہے۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے مثبت اقدار کا چراغ جلانا ضروری ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ہماری اجتماعی جدوجہد کا نیا مرحلہ آپریشن ردالفساد ہے۔ ابھی اس کی تفصیلات کھلنا باقی ہیں۔ ریاستی اقدامات کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لینا ہماری روایت نہیں رہا۔ اس ضمن میں اب بھی زیادہ توقعات نہیں۔ دہشت گردی کے عذرخواہوں نے البتہ اپنے آئندہ آلات کار کے کچھ اشارے دئیے ہیں۔ ان پر بات کرنی چاہئے۔

لاہور کی مال روڈ سے آگ اور خون کا کھیل سہون شریف کی گلیوں تک پہنچا تو معلوم ہوا کہ دہشت گردی کو ایک خاص فرقے سے منسوب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں تمام مذاہب اور فرقوں کے ماننے والے پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات کو کسی مسلک، فرقے یا مذہبی گروہ سے منسوب کرنا ہرگز مناسب نہیں۔ کوئی مذہبی مسلک دہشت گردی کو درست قرار نہیں دیتا۔ دہشت گردی انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ دہشت گردی کی مخالفت کرنے والوں پر فرض ہے کہ کسی مذہبی گروہ یا فرقے کے خلاف نفرت پھیلانے سے باز رہیں۔ دہشت گرد چاہتا ہے کہ انسانوں کو عقیدے کے نام پر ایک دوسرے سے لڑایا جائے۔ دہشت گردی کی حقیقی مخالفت کے لئے ضروری ہے کہ دہشت گردی کو مذہبی شناخت سے الگ کر کے انسانیت کے خلاف جرم سمجھا جائے۔عقیدے کی آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ دہشت گردی دوسروں کے عقیدے پر حکم لگانے اور ان کی جائز آزادیوں کو کچلنے کا نام ہے۔ دہشت گردی کی مخالفت کے لئے ضروری ہے کہ عقیدے کی آزادی اور عقیدے کی آڑ میں نفرت پھیلانے کے درمیان واضح لکیر کھینچی جائے۔ تمام مدرسوں کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دینا ہرگز مناسب نہیں۔ تاہم کسی بھی مدرسے، عبادت گاہ یا تعلیمی ادارے سے تفرقے کے پیغام کی بیخ کنی کرنی چاہئے۔ اپنے عقیدے کی پیروی کرنا ہر شہری کا حق ہے۔ دوسرے کے عقیدے کو برا کہنا اس حق کا غلط استعمال ہے۔ ہمیں دوسروں کے عقیدوں کو برا کہنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔ اس لئے کہ ہم کسی فرد یا گروہ کو سیاسی شرکت ، معاشی مقابلے اور سماجی مساوات کی دوڑ سے باہر کرنا چاہتے ہیں۔ ریاست کا بنیادی فرض ہے کہ ہر عقیدے کے ماننے والوں کو ایک جیسا تحفظ دے۔ دوسری طرف عقیدے کے نام پر کسی کے خلاف نفرت پھیلانے کی بیخ کنی کرے۔ دہشت گرد یہی چاہتا ہے کہ عقیدے کی بنیاد پر فساد پھیلایا جائے۔ عقیدے کی آزادی ایک قابل احترام انسانی قدر ہے اور اسے فساد سے الگ کر کے دیکھنا چاہئے۔

کسی معاملے پر ریاست کا موقف ایک سوچا سمجھا نقطہ نظر ہوتا ہے جسے قومی مفاد کے گوناگوں زاویوں سے پرکھ کر اختیار کیا جاتا ہے۔ شہری کی حیثیت سے ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اپنی ریاست کو بے وقعت نہ کریں۔ دوسری طرف ہمیں یہ حق بھی حاصل ہے کہ ہم کسی ریاستی موقف کےلئے بارے میں اپنی معلومات ، سوجھ بوجھ اور تجزیے کی روشنی میں سوال اٹھا سکیں۔ ریاست ایک پیچیدہ بندوبست ہے۔ اس میں فرد اور ادارے کی سطح پر ان گنت عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ ہماری ریاست نے کہا کہ افغانستان میں سوویت افواج کی موجودگی پاکستان کے لئے براہ راست خطرہ ہے اور یہ کہ پاکستان سوویت قبضے کی مزاحمت کرنے والے مجاہدین کی صرف اخلاقی مدد کر رہا ہے۔ پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لئے روس کے جہاز بار بار ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے تھے۔ پاکستان کے شہروں میں خوفناک دھماکے ہوتے تھے۔ تب ہم تخریب کاری کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ فروری 1989ء کے بعد ہماری ریاست نے افغانستان کے بارے میں ایک نیا موقف اختیار کیا۔ 1996ء میں طالبان کے ظہور کے بعد اس موقف میں تبدیلی آئی۔ ستمبر 2001ء کے بعد ہمارا ریاستی موقف پھر تبدیل ہوا۔ فروری 2009ء میں اے این پی کی صوبائی حکومت نے سوات میں امن معاہدہ کیا تھا۔ پھر ہم نے آپریشن راہ نجات شروع کیا۔ 2014ء کے ابتدائی مہینوں میں ہماری حکومت طالبان سے مذاکرات کرنا چاہتی تھی۔ پھر ہم نے آپریشن ضرب عضب شروع کیا۔ ہماری ریاست کا دہشت گردی کے بارے میں موقف بدلتا رہا ہے اور دہشت گردوں کے عذرخواہ بھی قتل و غارت کے واقعات کی تعبیر بدلتے رہے ہیں۔ اب ہمیں بلیک واٹر اور ڈرون حملوں کا ذکر سنائی نہیں دیتا۔ نیٹو کی سپلائی اب ٹکسال باہر ہو چکی ہے۔ پنجاب میں رینجرز کو کارروائی کے اختیارات دئیے جا چکے ہیں۔ یاد فرمائیے کہ پنجاب کی اسی حکومت کے وزرا “پنجابی طالبان” کی اصطلاح استعمال کرنے پر بھڑک اٹھتے تھے۔ اب کچھ مہربان دہشت گردی کو پختون شناخت سے منسلک کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا کرنے سے نسل پرستی کو فروغ ملے گا۔ نسل پرستی سے دہشت گردوں کا بیانیہ مضبوط ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا پاکستان کی مساوی اور قابل احترام وفاقی اکائی ہے۔ اس صوبے کے رہنے والوں کا تحفظ ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ حسب نسب کی بنیاد پر مفروضہ معاشرتی شناخت کو قابل قبول آئینی درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ زبان، ثقافتی شناخت یا تاریخی تجربات کے اختلاف سے قطع نظر پاکستان کے تمام گروہ ہمارے آئینی بندوبست کا قابل احترام حصہ ہیں۔ دہشت گردی کو کسی گروہی شناخت سے منسوب کرنا دہشت گردی کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ دہشت گردی ایک جرم ہے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا چاہئے۔ زبان یا نسل کی بنیاد پر الزام تراشی یا انگشت نمائی سے فائدہ نہیں، نقصان ہو گا۔

 (بشکریہ روز نامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments