ڈاکٹر کا لالچ جان بھی لے لیتا ہے


غم اور پریشانیاں زندگی کا حصہ ہیں وقت کے ساتھ انسانی زندگی میں مختلف حالات و واقعات اور تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اور انسان ہر بدلتے وقت اور لمحے کے ساتھ کچھ نہ کچھ سیکھ لیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ واقعات اور سانحات آکر چند لمحے کے بعد واپس چلے جا تے ہیں مگر جاتے جا تے انسان کی زندگی میں کچھ تبدیلیاں چھوڑ جاتے ہیں ۔ غم کے واقعات انسانی جسم اور روح پر کچھ نا خوشگوار اثرات چھوڑ جاتے ہیں جو انسانی دماغ کو کا فی گہرائی تک چھوجاتے ہیں۔ایسا ہی ایک واقعہ 31 جنوری 2017ء کی شب میرے ساتھ رونما ہوا جو کا فی دنوں تک میرے جسم میں خون کی طرح گردش کرتا رہا ۔شاید آپ نے بھی کسی ایسے واقعے کا سامنا کیا ہواور آپ کے جسم میں ایک تھر ۔۔۔تھراہٹ پیدا ہوئی ہو۔

۔31 جنوری کو بیلہ میں لیڈی ڈاکٹر کی غفلت اور جھوٹی تسلیوں کی وجہ سے میری شریک حیات موت کی وادی سے ہوکر گزری ہے۔ لسبیلہ کے مختلف ہسپیتالوں میں لیڈی ڈاکٹرز کی عدم موجودگی کے باعث خواتین کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔صوبائی حکومت تبدیلی کے دعوے تو بہت کرتی رہتی ہے اور اخبارار کی ہیڈلائنز انہی بلند وبانگ دعوﺅں کی زینت بنی رہتی ہیں مگر حقیقت اس سے کا فی مختلف ہے ۔نامناسب بندوبست کی وجہ سے دوران ڈلیوری اکثر خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں مگر پھر بھی حکومت دعوے کرتے ہوئے تھکنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔ لسبیلہ کے ہسپتالوں میں طبی سہولیات کی عدم فراہمی اور لیڈی ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے غریب عوام پرائیویٹ کلینکس اور عطائی ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ صاحب استطاعت افراد علاج کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں اور جن کے پاس پیسے نہیں ہو تے وہ مقامی خواتین (دایہ) سے علاج کراتے ہیں۔

اکثر غیرتجربہ کا ر دایہ کے ہاتھوں دوران ڈلیوری ما ں اور بچے دم توڑ جاتے ہیں۔نارمل ڈیلیوری کا جھانسہ دے کر پیسے بٹورنے کا سلسلہ کا فی پرانا ہے جو لسبیلہ کی دھرتی پر کئی ماﺅں کو مو ت کی وادی میں دھکیل چکا ہے۔ جب کیس ہاتھ سے نکل جائے تو دیہات سے آنے والی خواتین کو کراچی لے جانے کا کہہ دیا جاتا ہے۔ غریب خواتین اس دھوکے اور غفلت سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔مجھے ان حالات کا اندازہ اس وقت ہوا جب اس واقعے سے مجھے خود گزرنا پڑا ۔لیڈی ڈاکٹر نے بیوی کو سارا دن یہ کہہ کر روکے رکھا کہ حوصلہ رکھیں، درمیانی شب بچہ نارمل ہوگا ۔جب کیس ہاتھوں سے نکلتے دیکھا تو کراچی رات کے 11 بجے ریفر کرنے کو کہاگیا ۔اس دوران کرائے کی گاڑی کا انتظام کرنا ،اتنا لمبا راستہ طے کرنا ،کراچی کی ٹریفک کا سامنا اور بیوی کی درد سے کراہتے ہوئے آوازیں دماغ میں ایک زوردار ہتھوڑے کی طر ح لگنے لگیں۔ لمبے سفر اور ٹریفک کے ہجوم سے نکل کر ہسپتال پہنچے اور اگلے دن اللہ نے مجھے ایک پیاری سی بیٹی سے نوازا ۔ میرے ذہن میں ابھی تک یہ سوالات گھوم رہے ہیں کہ ان ماﺅں اور بہنوں کا کیا ہوتا ہو گا جو ان لیڈی ڈاکٹروں کے رحم وکرم پر ہوتی ہیں ۔

میں نہیں چاہتا جو مجھ پر گزری ہے وہ آپ پر بھی گزرے۔ ہسپتالوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے لیکن شاید صحت کے لیے مخصوص فنڈز اس ناتجربہ کا ر لیڈی ڈاکٹر کی طرح کسی اور کے ہتھے لگ جاتے ہیں اور ہسپتالوں میں پہنچنے سے پہلے دم توڑ دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments