دہشت گردی کا ناسور، ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے


خیبر پختونخوا اوربلوچستان میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو بجا طور پر یہ شور اٹھتا ہے کہ یہ اقتصادی راہداری منصوبے پر حملہ ہے ، لاہور میں بم دھماکہ ہوا تو بجا طور پر یہ کہا گیا کہ یہ پاکستان سپر لیگ پر حملہ ہے، کیونکہ یہ کھیل کے میدان میں پاکستان کو عالمی برادری سے کاٹنے کا ایک آسان ہدف تھا۔ لیکن دور اندیشی سے کام کیوں نہیں لیا جاتا ؟ یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ یہ پاکستان پر حملہ ہے ، پاکستان کی ترقی پر حملہ ہے ، پاکستان کی سلامتی پر حملہ ہے ، پاکستان کے بیٹے بیٹیوں پر حملہ ہے۔جب تک ہماری سوچ انفرادی سے اجتماعی نہیں ہوتی ہم اپنے مسائل اور مشکلات کے مکمل خاتمے کی طرف نہیں بڑھ سکتے۔انسانی جان کی جو حرمت لاہور میں ہے وہ پشاور، کوئٹہ، کراچی اور قبائلی علاقوں میں بھی قائم رہتی ہے۔ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں عام شہریوں کے علاوہ پولیس اور فوج کے جوانوں اور افسروں کی قربانیاں بھی دے چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہماری ان قربانیوں کا اب عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا جانے لگا ہے لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ گزشتہ تین برس میں حاصل کی جانے والی کامیابیاں بلاشبہ غیر معمولی ہیں لیکن یہ جنگ کا آخری مرحلہ ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ہمیں پہلے سے زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت ہے کہ دشمن ہماری کامیابیوں کا اثر زائل نہ کر سکے تاآنکہ پاکستانی قوم مکمل امن کی منزل سے ہم کنارہو اور ترقی کی طرف تیز رفتاری سے پیش قدمی کرے۔ ریاست بلاشبہ پوری طاقت سے دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے لیکن ہمیں سوچنا ہوگا کہ اتنی قربانیوں کے باوجود ہم ابھی تک اس لعنت سے چھٹکارا کیوں نہیں پا سکے۔
افغانستان کے ساتھ پاکستانی سرحدی علاقوں میں حالات گزشتہ تین برس میں بہت بہتر ہوئے ہیں لیکن افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پنا ہ گاہوں کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے لیکن افغانستان کو بھی یہ بات باور کرانے کی اشد ضرورت ہے کہ خیر سگالی کی یہ ٹریفک یک طرفہ نہیں چل سکتی۔ بدھ کے دن افغان ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کر کے بجا طور پر اس بات پر احتجاج کیا گیاہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے بعد پاکستان کو دہشت گردوں کو فوری اور بے رحم جواب دینے کے ساتھ ساتھ اپنی سفارتی کوششوں میں بھی مزید تیزی اور پختگی پیدا کرنی ہوگی اور اقوام عالم کوبھی یہ بات اچھی طرح باور کرانی ہوگی کہ خطے میں امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک افغانستان سلگ رہا ہے۔ افغان سرزمین پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی مکمل تباہی کے بغیر پاکستان اور خطے میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اس سے بھی زیادہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں امن کا راستہ پاکستان سے ہوکر جاتا ہے۔ پاکستان خطے کا ایک اہم ملک ہے جس کے منفرد جغرافیے کو اس کی طاقت بنانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستان جتنی کاوشیں کر رہا ہے افغانستان کو اس میں معاون بننا ہوگا کہ اس میں اس کا اپنابھی بھلا ہے۔پاکستان میں ترقی و خوشحالی ہو گی تو لازم ہے کہ اس کے اثرات افغانستان پر بھی مرتب ہوںگے کیونکہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات عامہ کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے میں یہ سمجھتا ہوں کہ طالبان حکومت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ امریکی امداد اور بھارتی شہ کے باوجود افغانستان کا پاکستان پر انحصار کچھ زیاد ہ کم نہیں ہوسکا، اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان میں لاکھوں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں افغانستان ابھی تک جن کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوسکا۔ کابل کے حالات میں قدرے بہتری اور عالمی امداد کے باوجود نہ تو افغان ریاست ان مہاجرین کی واپسی کے بندوبست پر تیار ہے اور نہ ہی یہ خود واپس جانے پر رضامند ہیں۔ سب سے پیچیدہ اور مشکل مرحلہ پاک افغان سرحد پر عالمی معیار کے مطابق نظم و ضبط قائم کرنا ہے لیکن گزشتہ چالیس برس میں شتربے مہاروں کی طرح آر پار آنے جانے والے اس نظم و ضبط کو ماننے پر تیار نہیں ہیں۔ یہ وہ جھول ہے جو پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے اسی لئے پاکستان سرحدی نظام کو موثر بنانے کے لئے پر عزم نظر آتا ہے۔ دوسری طرف اگر ہم یہ بات تسلیم کر لیں کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے تو سوال یہ ہے کہ لاہور، کراچی، پشاور یا کوئٹہ اور افغانستان کے درمیان سہولت کاری کی شکل میں ایسا کون سا پل موجود ہے جو دہشت گردوں کے رابطوں اور ان کی سرگرمیوں کو مکمل طو ر پر ختم نہیں کرسکا۔ پاکستانی ریاستی اداروں کو سہولت کاری اور رابطہ کاری کے نیٹ ورک کا یہ پل ہر صورت توڑنا ہوگااور افغانستا ن کو بھی چاہیے کہ وہ اس پل کو توڑنے میں پاکستان کی مدد کرے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان سے ملحقہ افغان سرحدی علاقوں میں ایک بھرپور فوجی آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا جائے۔
سب سے بڑا اور اہم کام معاشی اور تعلیمی شعبوں میں کرنے کا ہے۔ جب تک معیشت کی بہتری کی صورت میں نوجوانوں کے لئے روزگار کے وافر ذرائع میسر نہیں ہوں گے تب تک ان کے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے خطرا ت مکمل طو ر پر ختم نہیں کئے جاسکتے۔ تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہمہ گیر اصلاحات اور ان پر تیز رفتار عمل کے بغیر دہشت گردی کے ناسور کو مکمل طو رپر پائیداری کے ساتھ ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست کے ساتھ جذباتی وابستگی اور غیر متزلزل وفاداری اور بلامذہب وملت ہر دوسرے فرد کے احترام کو یقینی بنانے کے لئے ہمیں اپنے بچوں کو یہ پڑھانا اور سمجھانا ہوگاکہ پاکستان ہمارا گھر ہے اور اس گھر کی حفاظت اور تقدس کو قائم رکھنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
وقت کی انتہائی اہم ضرورت ریاست پاکستان کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کی عوامی پشت پناہی ہے۔ یہ عوام ہی ہوتے ہیں جن کی طاقت کے سبب ایک حکومت اپنے اختیارات بروئے کار لاتی ہے اور یہ عوام ہی ہوتے ہیں جو اپنی حمایت واپس لے لیں تو دنیا کے کسی ملک میں کوئی حکومت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ باوجود اس کے کہ پاکستان میں پولیس کے محکمے کوعوامی سطح پر وہ پذیرائی میسر نہیں جو کسی بھی ترقی یافتہ یا متمد ن ملک میں حاصل ہوتی ہے اور اس کی وجہ پولیس کے محکمے میں موجود بعض کالی بھیڑیں بھی ہیں۔ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پولیس میں سیاسی دخل اندازی کی وجہ سے یہ ادارہ انحطاط کا شکا ر ہوا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس کی قربانیوں سے انکار کیا جائے۔ لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے حالیہ بم دھماکے میں بھی بظاہر نشانہ پولیس ہی نظر آتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر پولیس کی قربانیوں کے اعتراف کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر بھی پاکستانی عوام دہشت گردی کے خلاف پولیس کی قربانیوں کو سراہنے کیلئے عملی طور پر آگے آئیں۔اس سے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کو عوامی ملکیت ملے گی بلکہ پولیس کے ایماندار اور محنتی اہلکاروں اور افسروں کا مورال بھی بلند ہوگا اور پاکستانی قوم یک جا ہو کر دہشت گردی کے خلاف حتمی کامیابی حاصل کر سکے گی۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments