کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے ….


\"asafمیں اپنے آپ کو بے حد خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی صحافتی زندگی کا سفر روزنامہ امروز کراچی سے شروع کیا جس کے چیف ایڈیٹر فیض احمد فیض تھے۔ جنوری 1953میں جب میں نے امروز میں کام شروع کیا تو اس وقت فیض صاحب راولپنڈی سازش کیس میں حیدر آباد سندھ کی جیل میں قید تھے ۔ انہیں 1951کے اوائل میں پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ سجاد ظہیر ، جنرل اکبر خان اور دوسرے فوجی افسرون کے ساتھ لیاقت علی خاں کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیاتھا۔ ۵ جنوری 1953کو اس کیس کا فیصلہ سنایا گیا تھا اور فیض صاحب کو چار سال قید کی سزا دی گئی تھے۔

1955ءمیں رہائی کے بعد جب فیض صاحب نے امروز اور پاکستان ٹایمز کے چیف ایڈیٹر کا عہدہ دوبارہ سنبھالا تو چند ماہ بعد کراچی آئے اور انہوں نے امروز کے عملہ سے ملاقات کی اور ان کے مسائل کے بارے میں تفصیل سے بات کی ۔ عملہ نے پہلے سے کچھ مطالبات تحریر کر رکھے تھے جو فیض صاحب کو پیش کئے گئے۔ عجیب انداز تھا ان کا۔ وہ مطالبات کی فہرست پر ایک ایک مطالبہ کو دہراتے اور قلم سے صحیح کا نشان لگا کر کہتے کہ ہاں یہ ہوجائے گا اور جن مطالبات وہ سجھتے کہ یہ پورے نہیں ہوسکتے اس پر کراس کا نشان لگا کر کہتے یہ مشکل ہے۔ انہوں نے نہ مطالبات پر لمبی بحث کی اور نہ عملہ کو اپنے مطالبات کے حق میں کچھ کہنے کی ضرورت پیش آئی۔

میں پچھلی صف میں بیٹھا تھا۔ فیض صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے ۔ کہنے لگے کہا آپ اخبار کے واحد رپورٹر ہیں اور آ پ کے ذمہ پولیس سے لے کر پارلیمنٹ تک کی کوریج کی ذمے داریاں ہیں لیکن میں نے دیکھا ہے کہ آپ کو کوئی کنوینس الاونس نہیں ملتا۔ آخر اتنی جگہ رپورٹنگ کے سلسلہ میں آنے جانے پر آپ کا کافی خرچ ہوتا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو پچاس روپے ماہانہ کا کنوینس الاونس ملنا چاہئے ۔ اس زمانے میں روز نامہ امروز میں دوسرے اردو اخبارات کے برعکس باقاعدہ تنخواہ کا اسکیل مقرر تھا اور ایک سب ایڈیٹر اور رپورٹرکی تنخواہ کا اسکیل دو سو دس روپے ماہانہ سے شروع ہوتا تھا۔ یہ کنوینس الاونس اس اسکیل کے لحاظ سے اچھا خاصہ تھا۔ مجھے ایسا لگا کہ یہ میری زبردست ترقی ہے۔فیض صاحب سے یہ میرے پہلی روبرو ملاقات تھی۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ انہوں نے میرے کچھ کہے بغیر میرے دل کی بات بھانپ لی ہے۔

جیسے ہی دفتری مسائل نبٹ گئے ، عملہ نے فیض صاحب سے فرمایش کی کہ وہ اپنا تازہ کلام عنایت فرمائیں ۔ فیض صاحب نے یوم آزادی کے موقع پر جو تازہ نظم کہی تھی وہ سنائی۔

چاند دیکھا تری آنکھوں میں نہ ہونٹوں پہ شفق
ملتی جاتی ہے شب غم سے تری دید اب کے
پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی
لا کے رکھو سر محفل کوئی خورشید اب کے

اس کے بعد یہ دفتری میٹنگ شعری محفل میں بدل گئی اور جب بھی فیض صاحب امروز کے دفتر آتے، عملہ سے ملاقات کا یہی انداز رہتا۔

پھر اکتوبر 1958 میں ملک میں پہلا مارشل لاء لگا اور ایوب خان کی فوجی حکومت نے پاکستان ٹایمز اور امروز پر قبضہ کر لیا۔ میاں افتخار الدین اپنے ادارہ کی ملکیت سے محروم ہوگئے، عوام آزاد اور ترقی پسند اخبارات سے تہی دامن ہوگئے اور فیض صاحب اپنی چیف ایڈیٹری سے ہاتھ دھو بیٹھے اور پابندزندان ہوگئے۔

\"faiz\"سات سال بعد فیض صاحب سے لندن میں تجدید ملاقات ہوئی ۔ میں ان دنوں شمالی لندن کے علاقہ مسول ہل میں رہتا تھا۔ فیض صاحب کے راولپنڈی سازش کے ساتھی افضل صاحب بھی اسی علاقے میں رہتے تھے ۔ ان ہی کے ہاں فیض صاحب سے اتنے دنوں بعد ملاقات ہوئی۔مسول ہل کے قریب الگزانڈر ا پیلس کا خوش نما پارک انہیں بہت دلکش لگتا تھا۔ یہ ایک پہاڑی پر پرانا شاہی محل ہے جہاں سے دوسری عالمگیر جنگ سے ذرا پہلے بی بی سی کی ٹیلی وژن نشریات شروع ہوئی تھیں ۔ اسی پارک میں خوبصورت جھیل کے کنارے ایک طویل ملاقات میں فیض صاحب سے وہ سوالات پوچھنے کا موقع ملا جو ایک عرصہ سے میرے ذہن میں تڑپ رہے تھے۔میں نے ان سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ عجیب بات ہے کہ اشرفیہ کے عیش وعشرت میں پلے بڑھے فیض صاحب مفلس و نادار افراد، غریب کسانوں اور ظلم و ستم کے ستائے ہوئے مزدوروں کے بارے میں نظمیں لکھتے ہیں ۔ خاصی دیر تک خاموشی کے بعد اپنے خاص انداز سے مسکراتے ہوئے اور سگریٹ کا لمبا کش لگا کر فیض صاحب نے کہا کہ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ ہمارے والد سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گاﺅں کے بے زمین نادار کسان خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ اتنے غریب تھے کہ زمین داروں کے مویشی چرا کر گزارہ کرتے تھے۔ اس دوران ایک دن انہیں گاﺅں کے قریب ایک اسکول نظر آیا ۔ اس میں انہوں نے پڑھنا شروع کیا ۔ اسکول میں پڑھائی کے دوران وہ اپنے مویشی جنگل میں چرنے کے لئے چھوڑ دیتے تھے ۔ ابتدائی اسکول کی تعلیم کے بعد گاوں کے آس پاس کوئی ثانوی اسکو ل نہیں تھا چنانچہ مزید تعلیم کے لئے گھر سے بھاگ کر لاہور چلے گئے اور ایک مسجد میں رہنے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دن میں اسکول میں پڑھتے تھے اور رات کو ریلوے اسٹیشن پر قلی کا کام کرتے تھے۔ اس زمانے میں مسجد میں رہنے والوں کو محلہ والوں کی طرف سے کھانا مل جاتا تھا۔ فیض صاحب کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ایک سردار اسی مسجد میں نماز پڑھنے آتے تھے ۔ انہوں نے ہمارے والد کو دیکھا کہ یہ پڑھا لکھا لڑکا مسجد میں رہ رہا ہے۔ افغان سردار نے ایک روز ہمارے والد سے پوچھا کہ افغانستان چلو گے؟ والد صاحب نے کہا کیوں نہیں۔ اس زمانے میں افغانستان کے بادشہ امیر عبدالرحمان تھے جو انگریزوں سے ڈیورنڈ لائین کے بارے میں مذاکرات کر رہے تھے ۔ ہمارے والد نے پہلے انگریزی مترجم کی حیثیت سے کام کیا اور ڈیورنڈ لائین کے مذاکرات میں حصہ لیا۔ پھر بادشاہ نے اپنا چیف سیکریٹری اور بعد میں وزیر بنالیا۔ لیکن چونکہ وہ غیر افغان تھے اس لئے ان کے خلاف سازشیں ہوتی رہتی تھیں ۔کئی بار ان پر انگریزوں کی جاسوسی کا الزام لگا اور ایک بار انہیں سزائے موت سنائی گئی۔ لیکن بادشاہ کے بیچ بچاو کی وجہ سے وہ بچ گئے اور ایک دن ایک فقیر کا بھیس بدل کر افغانستان سے فرار ہو کر لاہور آگئے لیکن یہاں انہیں افغان جاسوس ہونے کے الزا م میں گرفتار کر لیا گیا۔ بعد میں وہ رہا کر دئے گئے ۔ فیض صاحب کا کہنا تھا کہ ہمارے والد جب افغانستان میں تھے تو ان کی ایک انگریز خاتون ڈاکٹر ہملٹن سے دوستی ہوگئی تھی جنہوں نے افغانستان میں اچھا خاصا سرمایہ جمع کر کے برطانیہ میں بڑی جائیداد بنا لی تھی ۔انہیں جب ہمارے والد کی پریشانی کا پتہ چلا تو انہوں نے انگلستان آنے کی دعوت دی ۔ فیض صاحب کہہ رہے تھے کہ ان خاتوں کی مدد سے ہمارے والد نے کیمبرج یونیورسٹی میں وکالت پڑھنے کے لئے بار میں داخلہ لیا۔ امیر عبد الرحمان کو جب پتہ چلا کہ ہمارے والد لندن میں ہیں تو ان سے کہا کہ وہ افغانستان کے سفیر بن جائیں۔ وکالت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہوں ے سفیر کے بھی فرایض انجام دیے۔ آخر کار وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ افغانستان جانے کے بجائے سیالکوٹ چلے آئے اور یہیں شادی کر کے مسقتل طور پر بس گئے۔

فیض صاحب کا کہنا تھا کہ والد صاحب جب تک بقید حیات تھے ہم نے نہایت عیش و عشرت کی زندگی گذاری لیکن جب ہم نے بی اے کیا تو والد صاحب انتقال کر گئے۔ ان کے بعد ان کے قرضوں کی وجہ سے ہماری مالی حالت ابتر ہوگئی ۔ ویسے بھی یہ دور سنگین اقتصادی بد حالی کاتھا ۔ تو یہ کہنا صحیح نہیں کہ ہم نے غربت کے دن نہیں دیکھے ۔ مجھے معلوم ہے کہ بے روزگاری کتنا بڑا عذاب ہے۔ پھر خود کہنے لگے کہ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ ہم نے عربی میں ایم اے کیوں کیا؟ بات دراصل یہ تھی کہ ہمارے پاس ایم اے انگریزی میں داخلہ کے لئے پیسے نہیں تھے ۔ چنانچہ ہم نے عربی ایم اے میں داخلہ لیا کیونکہ اس مضمون میں داخلہ چند روپوں میں ہو جاتا تھا ۔ عربی میں ایم اے کرنے کے بعد ہم نے انگریزی میں ایم اے کیا۔ تو یہ حال تھا ہماری غربت کا۔ بہت سے لوگ فخریہ کہتے ہیں کہ پدرم سلطان بود۔ فیض صاحب نے مسکرا کر کہا کہ ہم بھی یہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے والد کا نام سلطان محمد خان تھا اور والدہ کا نام سلطان فاطمہ تھا ۔ لیکن ہمارا ہمیشہ غریبوں اور ناداروں سے گہرا تعلق رہا ہے اور ہم نے ان کے مسائل قریب سے دیکھے ہیں۔

سورج غروب ہو رہا تھا اور تاریکی کے سائے بڑھ رہے تھے ۔ یہ ملاقات اس وعدہ پر ختم ہوئی کہ اگلے دن یہیں ملاقات ہوگی۔ اور شاعری کے میدان میں آنے کے محرکات اور ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے عوامل پر تفصیل سے بات ہوگی ۔ لیکن دوسرے دن انہیں اچانک لندن سے باہر جانا پڑااور پھر ایک عرصہ تک ملاقات نہ ہوسکی۔ایک سال کے بعد وہ جب بیروت سے لندن آئے تو وہیں الیگزانڈرا پیلس کے پارک میں ملاقات ہوئی ۔ میں نے سب سے پہلے یہ پوچھا کہ انہیں شاعری سے لگاوکب اور کیسے شروع ہوا۔ کہنے لگے کہ ویسے تو ہم نے اسکول کے دوسرے سال سے شعر کہنے شروع کر دئے تھے اور شاعری کا شوق اس وجہ سے بھی بڑھ گیا تھاکہ ہمارے گھر کے قریب اسکول میں بڑی باقاعدگی سے مشاعرے ہوتے تھے ۔لیکن ایک واردات نے مجھے شاعری کے سمندر میں دھکیل دیا۔

میں صبر نہ کر سکا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا واردات تھی؟۔ کہنے لگے کہ جب میں سترہ اٹھارہ برس کا تھا تو میں ایک افغان لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوگیا۔ اس کا خاندان ہمارے والد کے ساتھ افغانستان سے آیا تھا اور ہم بچپن میں ساتھ کھیلے ہوئے تھے۔ بچپن ہی میں یہ خاندان فیصل آباد کے ایک گاوں میں منتقل ہوگیا تھا۔ میری ہمشیرہ کی شادی اسی گاوں میں ہوئی تھی ۔ جب میں اپنی ہمشیرہ سے ملنے گیاتو اس افغان لڑکی سے ملاقات ہوئی ۔ یہ اتنی حسین تھی کہ میں اسے دیکھتے ہی اس کے عشق میں گرفتار ہوگیا ۔ لیکن مجھے اس وقت سخت صدمہ ہوا جب دوسرے ہی دن اس کی ایک امیر زمیندار سے شادی ہو گئی ۔اس وقت اس کی عمر یہی بارہ تیرہ برس کی ہوگی۔ غم کا پہاڑ تھا جو ہم پر ٹوٹ پڑا ۔ پھر ہم نے سہاراشاعری کاہی لیا۔

مجھ سے نہ رہا گیا ، میں نے پوچھا کہ بیگم ایلس سے ملاقات کب اور کیسے ہوئی؟ کہنے لگے یہ لمبی داستان ہے۔ تاثیر صاحب کیمرج سے ڈاکٹریٹ کر کے واپس آئے تھے ۔ ان کے ساتھ ان کی انگریز بیگم تھیں۔ اس زمانے میں ہم افغان لڑکی کی جدائی میں سخت غمزدہ تھے۔ بیگم تاثیر نے بھانپ لیا ۔ کہنے لگیں تم پر عشق کا بخار طاری ہے۔ یہ چند کتابیں پڑھو ۔ ان سے دھیان بٹے گا۔ اور پھر کہا کہ یہ تمھارا چھوٹا سا غم ہے۔ دیکھو ہندوستان کے عوام کتنے بڑے دکھوں میں مبتلا ہے ۔ ان کے بھوک ، افلاس اور بے روزگاری کے ،مصایب کتنے سنگین ہیں ۔ ان کے بے پناہ مصایب کے سامنے تمھارا غم تو کچھ بھی نہیں…. بس اس کے بعد ہم نے عشق وشق چھوڑا اور انسانیت کے مصایب کو اپنا لیا۔ کہنے لگے کہ اسی زمانے میں ہم نے اپنی پہلی نظم لکھی۔

مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

فیض صاحب نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا۔ کھنگارے اور ایک وقفہ کے بعد کہا کہ کچھ عرصہ کے بعد بیگم تاثیر کی ہمشیرہ ایلس ان سے ملنے ہندوستان آئیں ۔ اسی دوران جنگ چھڑ گئی اور وہ واپس نہ جا سکیں۔ ہمارا ارادہ کیمبرج یونیورسٹی جا کر تعلیم حاصل کرنے کا تھا ۔ ہم بھی برطانیہ نہ جا سکے ۔ اسی دوران ہماری ایلس سے دوستی شروع ہوگئی اور پھر سری نگر میں جہاں تاثیر صاحب ایک کالج کے پرنسپل تھے ہماری شادی ہوئی۔ نکاح ہمارا شیخ عبداللہ نے پڑھایا۔ تین زبانوںمیں ۔ انگریزی ، کشمیری اور اردو میں،۔

میں نے فیض صاحب سے پوچھا کہ اشتراکیت سے آپ کا تعلق کیسے شروع ہوا؟ کہنے لگے یہ دور بر صغیر میں انگریزوں کے خلاف پہلی مسلح انقلابی تحریک کا تھا۔بہت سے انقلابی ہمارے گورنمنٹ کالج میں در آئے تھے۔ ان میں سے ایک ہمارے قریبی دوست تھے جو بعد میں ممتاز موسیقار بن کر ابھرے ۔ یہ تھے خواجہ خورشید انور۔ انہیں بم بنانے کے لئے کالج کی تجربہ گاہ سے ایسڈ چرانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن چونکہ ان کے والد با اثر تھے اس لئے انہیں کچھ عرصہ کے بعد رہا کردیا گیا۔ خواجہ خورشید انور ممنوعہ لٹریچر ہمارے ہاں چھوڑ جاتے تھے وہی پڑھ کر انقلابی خیالات کا ہم پر اثر ہوا۔ فیض صاحب نے سگریٹ کا لمبا کش لگایا اور دور افق پر ایسے دیکھا جیسے پارینہ یادو ں کو ڈھونڈھ رہے ہوں۔ کہنے لگے بنے بھائی سجاد ظہیر ، محمود الظفر اور رشید جہاں نے مارکسزم سے متعارف کرایا ۔ اس زمانہ میں یورپ اور امریکا کے ادیبوں میں اینٹی فاشسٹ تحریک بہت زوروں پر تھی جس نے ہم سب کو بہت متاثر کیا۔ اسی زمانہ میں ہندوستان میں ترقی پسند مصنفین کی تنظیم کی داغ بیل پڑی۔

میں نے پوچھا کہ ایک طرف آپ پر انقلابیوں کا اثر اور دوسری جانب اشتراکیت سے وابستگی ، انگریز سامراجی فوج انڈین آرمی میں آپ نے کیسے شمولیت اختیار کی۔ کہنے لگے کہ 1941میں جب جاپانی دوسری عالم گیر جنگ میں کودے اور ان کی فوجیں ہندوستان کی سرحدوں کی طرف بڑھیں تو ہم نے محسوس کیا کہ اب اپنے وطن کے دفاع کے لئے لڑنے کا وقت آگیا ہے چنانچہ ہم نے فوج میں بھرتی ہونے کا فیصلہ کیا۔ہم بندوق اٹھا کر تو لڑ سکتے نہیں تھے چنانچہ ہم نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ میں بھرتی ہونے کا فیصلہ کیا۔ ہمیں یاد ہے کہ بھرتی کے وقت اس شعبہ کے سربراہ جو فوجی نہیں تھے بلکہ لندن ٹایمز کے صحافی تھے انہوں نے ہم سے کہا کہ تمھارے بارے میں پولس رپورٹ ہے کہ تم ایڈوانسڈ کمیونسٹ ہو ۔ ہم نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ایک بیک ورڈ کمیونسٹ کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا کہ بھلے تم فاشسٹ ہو لیکن تم ہمیں قبول ہو اگر تم ہمیں دغا نہ دو ،ہم نے کہا نہیں ہم دغا نہیں دیں گے ۔ فوج میں ہم نے ایسے ایسے مشورے دئے کہ تین سال میں انہوں نے ہمیں کرنل کے عہدہ پر ترقی دے دی اور دراصل صحافت ہم نے فوج ہی میں سیکھی کیونکہ ہم اس وقت پوری انڈین آرمی کی پبلسٹی کے انچارج تھے۔

فیض صاحب کہہ رہے تھے کہ جنگ کے خاتمہ کے بعد ہمارا ارادہ فارن سروس یا سول سروس میں جانے کا تھا ۔ اس دوران ہمارے ایک بڑے اچھے دوست میاں افتخار الدین نے جو پنجاب کانگریس پارٹی کی صدارت چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے ہم سے کہا کہ چھوڑو فارن اور سول سروس کو ۔ میرا ارادہ لاہور سے ایک روز نامہ نکالنے کا ہے تم ہمارے ساتھ آﺅ اور اس کی ایڈیٹری سنبھالو۔ چنانچہ جنوری 1947 میں ہم لاہور آئے اور پاکستان ٹایمز نکالا۔

میں نے فیض صاحب سے پوچھا کہ ایک عرصے سے یہ تجسس تھا کہ راولپنڈی سازش کیا تھی اور آیا تھی بھی کوئی سازش یا یہ محض جھوٹا الزام تھا۔ کہنے لگے ، بات اصل میں یہ ہے کہ 1950کے آخر میں مری میں اتفاقاً فوج کے زمانہ کے ایک پرانے دوست جنرل اکبر خان سے ہماری ملاقات ہوئی ۔ اس وقت وہ فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف تھے وہ ملک کے حالات سے بہت بدظن تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج میں وہ لوگ جنہوں نے کشمیر میں لڑائی لڑی تھی بہت مایوس اور دل برداشتہ ہیں۔ پاکستان کوقایم ہوئے چار سال گزر گئے اور ابھی تک آئین منظور نہیں ہو سکا ہے۔ کوئی انتخاب نہیں ہوا ہے۔ ملک میں بدعنوانی کا مرض بڑھتا جارہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کچھ کیا جائے۔ ہم نے پوچھا کیا کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا تختہ الٹ کر ایک ایسی حکومت بنانا چاہتے ہیں جس میں کوئی سیاسی پارٹی شامل نہ ہو۔ اس کے بعد آئین مرتب کر کے عام انتخابات کرائے جائیں ۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ اس پر جنرل اکبر خان نے کہا ہمیں آپ کا مشورہ درکار ہے۔ ہم نے کہا کہ یہ معاملہ تو فوج کا ہے ہم بھلا کیا مشورہ دے سکتے ہیں۔ جنرل اکبر خان نے کہا کہ بہر حال آپ ہماری میٹنگ میں آئیں اور سنیں کہ ہمارا منصوبہ کیا ہے ۔ فیض صاحب نے کہا کہ ہماری بے وقوفی کہ ہم دو اور سویلین دوستوں کے ساتھ یہ منصوبہ سننے میٹنگ میں چلے گئے۔

میں نے پوچھا کہ فیض صاحب منصوبہ کیا تھا؟ کہنے لگے کہ منصوبہ گورنر جنرل ہاوس اور ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کرنے کا تھا۔ اس زمانے میں ٹی وی تو تھا نہیں ۔ صرف ریڈیو پر اعلان کرنے کا پلان تھا کہ حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ہے ۔ نان پارٹی حکومت تشکیل دی گئی ہے اور چھ ماہ کے اندر اندر نیا آئین نافذ کر دیا جائے گاجس کے بعد عام انتخابات ہوں گے اور سماجی اصلاحات نافذ کی جائیں گی۔

میں نے پوچھا اس میٹنگ میں کتنے فوجی تھے؟ کہنے لگے کہ کوئی چودہ یا پندرہ فوجی افسر تھے اس میٹنگ میں جو کوئی چھ گھنٹے تک جاری رہی۔ آخرکار یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ منصوبہ قابل عمل نہیں ہے۔ ایک تو ملک کے سامنے کوئی ایسا مسئلہ نہیںکہ عوام کو منظم کیا جاسکے دوسرے اس منصوبہ پر عمل درآمد کے سلسلہ میں بہت خطرات ہیں۔ سو یہ طے کیا گیا کہ یہ منصوبہ ترک کردیا جائے لیکن میٹنگ میں شامل کسی نے حکومت کو خبر کر دی لیکن پوری خبر نہیں دی اور یہ نہیں بتایا کہ منصوبہ ترک کردیا گیا ہے ۔ اس زمانہ میں لیاقت علی خان کی حکومت تھی وہ اس منصوبہ کی خبر سے سخت گھبرا گئے اور اس نے سب کو گرفتار کر نا شروع کردیا جو اس میٹنگ میں شامل تھے۔ ہمیں چار ماہ تک قید تنہائی میں رکھا گیا ۔ اس دوران ہمیں کچھ معلوم نہ ہوسکا کہ کیا ہوا۔ چار ماہ بعد پتہ چلا کہ دستور ساز اسمبلی میں ایک خاص قانون منظور کیا گیا ہے جو راولپنڈی سازش ایکٹ کہلاتا ہے ۔ اس قانون کے تحت ہمارے خلاف خفیہ مقدمہ چلایا گیا جس کی ڈیڑھ سال تک سماعت ہوئی ۔ جنرل اکبر خان کو آٹھ سال کی قید کی سزا اور ہمیں چار سال قید کی سزا سنائی گئی ۔ بقیہ فوجیوں کو ان کے رتبہ کے حساب سے سزائیں دی گئیں۔

فیض صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ قید کا زمانہ ہمارے لئے بڑا اچھا ثابت ہوا ۔ کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا اور نہ کوئی تفریح تھی۔ ہمیں پڑھنے کو خوب موقع ملا اور لکھنے کا بھی۔ ہم نے اس دوران شاعری کی دو کتابیں مکمل کیں۔

میں نے پوچھا کہ 1958میں بھی آپ کو مارشل لاءکے زمانہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت کیا الزام تھا۔ کہنے لگے اس زمانہ میں ہر اس شخص کو گرفتار کرلیا گیا تھا جس کا نام 1920ءکے بعد سے پولس کی فائلوں میں تھا۔ چنانچہ اسی نوے سال کے لوگ جیل میں قید تھے ۔ اس دوران ہم چار ماہ قید رہے اور پہلی بار ڈیڑھ ماہ کے لئے لاہور کے قلعہ میں بند رہے ۔ رہائی کے تین روز بعد جب ہم اپنے اخبار کے دفتر گئے تو دیکھا کہ پولس نے دفتر کو گھیر رکھا ہے ۔ معلوم ہوا کہ میاں صاحب کے تمام اخبارات کو فوجی حکومت نے اپنے قبضہ میں ے لیا ہے ۔ کہنے گے بس اسی روز ہماری صحافت ختم ہو گئی۔ ان کے چہرے پر دکھ کی لکیر شام کے دھندلکے میں اور گہری ہو گئی۔

پھر ایک طویل عرص کے بعد فیض صاحب سے فنچلے سینٹرل میں اس مکان میں ملاقات ہوئی جو انہوں نے لینن پرائز کی رقم سے خریدا تھابعد میں جب وہ پاکستان منتقل ہونے لگے تو یہ مکان بی بی سی میں ہمارے ساتھی تقی احمد سید نے خرید لیا تھا اور جب بھی وہ لندن آتے تھے ان کے اعزاز میں اسی مکان میں محفلیں سجتی تھیں۔

لندن میں قیام کے دوران فیض صاحب وقتا فوقتا سوویت یونین آتے جاتے رہتے تھے ۔ گو انہوں نے کبھی کہا نہیں لیکن اس دوران ان کی نظموں سے سوویت نظام سے ناخوشی کی رو تہہ آب نظر آتی تھی ۔ وہ دور بریزنیف کا استبدادی دور تھا جب سوویت یونین نے افغانستان میں در اندازی کی تھی اور مزاحمت کی آگ بھڑکا دی تھی۔ سوویت نظام کے بارے میں ان کی مایوسی ان کی اس نظم میں جھلکتی ہے۔

اس وقت تو لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب، نہ سورج، نہ اندھیرا، نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوںمیں کسی درد کا ڈیرا۔

ابھی فیض صاحب ستر برس ہی کے تھے کہ لندن کے اردو مرکز کو نہ جانے کیا سوجھی کہ ان کے کلام کی کلیات\”سارے سخن ہمارے\”کے نام سے شایع کی اور فیض صاحب کو اسی تقریب رونمائی میں مدعو کیاگیا ۔ ستم ظریفی یہ کہ اس تقریب کی صدارت ان ہی موصوف الطاف گوہر نے کی جنہوں نے ایوب خان کو پاکستان ٹایمز ، امروز، لیل ونہار پر قبضہ کرنے کا مشورہ دیا تھا اور ان اخبارات کو تہس نہس کرنے میں پیش پیش تھے جس کے نتیجہ میں عوام معیاری اخبارات سے محروم ہوگئے تھے اور فیض صاحب چیف ایڈیٹری سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور اس کے بعد انہیں صحافت کو خیرباد کہنا پڑا۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ اردو مرکز فیض صاحب کے کلام کی کلیات شایع کر کے غالباً یہ اعلان کر رہا ہے کہ فیض صاحب کو جو کچھ کہنا تھا وہ انہوں نے کہہ دیا ہے اور اس کے بعد اب وہ کچھ نہیں کہیں گے ۔ بس یہ کلیات ہی ہے۔ اور بقول فیض\” اب کوئی اور کرے پرورش گلشن غم\”

اسی کلیات میں پہلی بار فیض صاحب کا پنجابی کلام شامل کیا گیا ہے۔

کدھرے نہ پیندیاں دساں
وے پردیسیا تیریاں
کاگ اڈاواں شگن مناواں
وگدی وادے ترلے پاواں
تری یاد پوے تے روواں
ترا ذکر کراں تا ہساں
کدھر ے نہ پیندیاں دساں

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments