بھیا ڈھکن فسادی نے یوم حیا منایا


بھیا ڈھکن فسادی حسب روایت نہایت غصے میں تھے۔ آتے ہی اپنے جذبات ہمارے دماغ میں منتقل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔

بھیا ڈھکن فسادی: دیکھے تم نے اپنے کرتوت؟ قوم کس طرح تباہ ہوئی جا رہی ہے۔
ہم: بھیا اس مرتبہ ہم نے قوم کو کیسے تباہ کر دیا ہے؟

بھیا ڈھکن فسادی: سارا میڈیا ویلنٹائن ڈے منا رہا ہے۔ حالانکہ ہماری روایات کہتی ہیں کہ یوم حیا منایا جائے۔

ہم: میڈیا وہی دکھاتا ہے جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر عوام صوم و صلوة اور راہ حق کے پروگرام زیادہ دیکھیں گے، تو میڈیا کو ان سے زیادہ پیسہ ملے گا، اور میڈیا وہی دکھائے گا۔ لیکن اگر میڈیا کو ویلنٹائن ڈے سے زیادہ ویور شپ اور نتیجے میں زیادہ پیسہ ملتا ہے، تو میڈیا ویلنٹائن ڈے کے پروگرام دکھائے گا۔ قصوروار میڈیا نہیں، عوام ہیں۔ سو شکوہ عوام سے کریں، اور پابندی عوام پر لگائیں۔

بھیا ڈھکن فسادی: تم تو ہمیشہ اس دجالی میڈیا کی حمایت ہی کرو گے۔ ویلنٹائن نامی یہ فاسق شخص کرسٹان کافر تھا۔ ہم ایک کرسٹان کافر کا دن کیوں منائیں؟

ہم: بھیا کیا ہمارا عقیدہ یہ نہیں ہے کہ حضرت آدم سے لے کر رسول پاکﷺ تک تمام پیغمبر مسلمان تھے۔

بھیا ڈھکن فسادی: یہی ہے۔ لیکن اس کا سینٹ ویلنٹائن سے کیا تعلق ہے؟

ہم: کیا اسلام ساتویں صدی عیسوی میں نہیں آیا تھا؟

بھیا ڈھکن فسادی: ایسا ہی ہے۔ لیکن اس کا ویلنٹائن نامی اس فاسق سے کیا تعلق ہے؟

ہم: کیا حضرت عیسی سے لے کر نزول اسلام تک، مسیحی ہی مسلمان نہیں کہے جائیں گے؟ آپ کو یاد ہے کہ جب ایرانی اور رومی جنگ ہوئی تھی تو مسلمان رومیوں کے ساتھ تھے اور کفار مکہ ایرانیوں کے ساتھ؟ سورہ روم کا سیاق و سباق کیا آپ کو یاد ہے؟

بھیا ڈھکن فسادی: تم کہنا کیا چاہتے ہو؟

ہم: ہمارے عقیدے کے مطابق تو نزول اسلام سے پہلے حضرت عیسی کے امتی ہی اس زمین کے مسلمان تھے۔ پھر تیسری صدی عیسوی کے اس مسیحی بزرگ، یعنی مسلمان بزرگ سینٹ ویلنٹائن کو آپ کیوں برا کہتے ہیں؟ وہ تو نزول اسلام سے چار سو سال سے بھی پہلے رومی بت پرستوں کے ہاتھوں آنجہانی کر دیا گیا تھا۔ آپ کو سینٹ ویلنٹائن کی کہانی پتہ ہے کہ کیا تھی؟

بھیا ڈھکن فسادی: تم یہ تاویلیں کسی اور کو سنانا۔ مجھے کفار کی کہانیوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

ہم: بھیا آپ مان چکے ہیں کہ اسلام سے پہلے یہودی اور ان کے بعد مسیحی ہی مسلمان تھے۔ تو چلیں پھر ان بابا جی کی کہانی دیکھ لیتے ہیں۔ بہت سی روایات ہیں۔ ایک یہ ہے کہ تیسری صدی میں مسیحیت ابھر رہی تھی اور بت پرست رومی بادشاہ خدا پرستی کو روکنے کے لئے ظلم و ستم کے پہاڑ مسیحیوں پر توڑے ہوئے تھے۔ ایسے میں بت پرستی سے انکار کرنے، اور توحید کی تعلیم دینے پر سینٹ ویلنٹائن کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہاں انہوں نے جیلر پر تبلیغ کر دی۔ جیلر نے کہا کہ اگر تمہارا خدا واقعی سچا ہے تو میری اندھی بیٹی کو ٹھیک کر دو۔ ویلنٹائن نے معجزہ دکھا کر یہ کر دیا اور جیلر اپنے اہل خانہ سمیت مسلمان ہو گیا۔ اس کے بعد سینٹ ویلنٹائن کو بت پرست رومی شہنشاہ کلاڈیس کے دربار میں بھیجا گیا۔ وہاں انہوں نے بتوں کی عبادت کرنے سے انکار کیا اور بادشاہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ اس پر بادشاہ نے سینٹ ویلنٹائن کو سزائے موت دے دی۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس دور میں مسیحی مسلمانوں پر ہر طرح کی حکومتی پابندی تھی۔ لیکن سینٹ ویلنٹائن مسیحی سپاہیوں کی شادی کرا دیتے تھے جبکہ اس زمانے میں رومی فوج میں سپاہیوں کی قلت تھی۔ اس جرم پر سزائے موت دی گئی۔ کئی روایات ہیں۔ اب اسلام کی تبلیغ کرنے کے جرم پر جان گنوانے والے کو آپ بھی برا کہنے لگیں تو بری بات ہے۔

بھیا ڈھکن فسادی: لیکن چودہ فروری کو کون سی اسلام کی تبلیغ کی جاتی ہے؟ یہ تو فسق پھیلاتے ہیں کہ جس لڑکی کو دیکھو، اسے پھول پکڑا کر خود اسے بھی پکڑ لو۔

ہم: یہ رومانیت چودہویں صدی سے سینٹ ویلنٹائن ڈے سے جوڑی گئی۔ ویسے ہمیشہ سے ہی سردی ختم ہونے اور بہار کا آغاز ہونے پر تمام قومیں ایسے جشن مناتی رہی ہیں۔ ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا میں آج بھی نوروز کا تہوار اہم ترین گردانا جاتا ہے۔

بھیا ڈھکن فسادی: لیکن ہمیں تو یوم حیا منانا چاہیے۔

ہم: آپ یہ منائیں، کون آپ کو روکتا ہے؟ جابر ترین حکومت بھی جذبوں پر پابندی لگانے کی اہل نہیں ہوتی ہے۔ حکومت زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی ہے کہ کوئی نوجوان اگر کسی لڑکی کو تنگ کرے تو اس کو اندر کر دے۔ لیکن یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ عوام کو روکا جا سکے۔ ان چیزوں کو قوانین نہیں، معاشرہ روکتا ہے۔ اگر ہمارے معاشرے میں سرعام محبت کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے، تو یہ معاشرتی ناپسندیدگی ہی ایسے مظاہر کو روک سکتی ہے۔ آپ حکومت پر زور دینے کی بجائے عوام کو سمجھائیں۔

بھیا ڈھکن فسادی: میں تمہاری طرف آنے سے پہلے یہی کر رہا تھا۔ اکٹھے گھومنے والے دو تین نابکار اور بے حیا جوڑوں کو پکڑ کر گھر واپس بھیجنے کرنے کی کوشش کی تھی کہ پولیس نے پکڑ لیا۔ وہ جعلی شناختی کارڈ جیب میں رکھے ہوئے تھے جن کی رو سے وہ میاں بیوی تھے۔

ہم: بھیا اگر کوئی اپنی منکوحہ سے محبت کر لے تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟ اور سال میں ایک دن اس بچاری کے لئے مختص کر دیا جائے تو کیا برا ہے؟ بچاری باقی تین سو چونسٹھ دن کنیز بنی شوہر اور بچے پالتی ہے، ایک دن کے لئے ہی سہی، اگر وہ ملکہ بن جائے اور جی خوش کر لے تو کیا برا ہے۔

بھیا ڈھکن فسادی: اسی طرح برائی معاشرے میں پھیلے گی۔ آغاز ہی نہ کرنے دیا جائے تو اچھا ہے۔ یہ سارا فسق ایک سازش کے تحت یہود و ہنود ہمیں بھیج رہے ہیں۔

ہم: بھیا اگر ہماری مقامی ثقافت ختم کی جائے گی، تو خلا پر کرنے کو پھر باہر سے ہی ثقافت آئے گی۔ جب پاکستانی ڈراموں اور فلموں سے آپ کے نظریات کے مطابق بے حیائی ختم کی گئی تھی تو ان کی جگہ بھارت نے ہماری پوری مارکیٹ پر قبضہ کر لیا۔ ہماری فلمیں ڈرامے تو پھر بھی ہماری تہذیب کا خیال رکھتے تھے، اب تو کھلی چھوٹ ہے۔ اسی طرح ہم نے بیساکھی اور بسنت وغیرہ کے موسم بہار کے جشن ختم کئے ہیں تو اب فروری میں بسنت کی بجائے ویلنٹائن ڈے منایا جانے لگا ہے۔

بھیا ڈھکن فسادی: بسنت تو ہندو تہوار تھا۔ اور اس کی وجہ سے جانیں جاتی تھیں۔ اچھا ہوا پابندی لگ گئی۔

ہم: تو بس پھر اب فروری میں نوجوان بسنت کی بجائے ویلنٹائن منائیں گے اور آپ ہاتھ ملیں گے۔ ویسے یہ بسنت نامی ہندو تہوار بھارت میں کہاں کہاں منایا جاتا ہے؟ جب لاہور میں بسنت نے ایک بین الاقوامی شہرت اختیار کی تو پھر ہی ہمیں علم ہوا تھا کہ امرتسر میں بھی یہ منایا جانے لگا ہے۔ اب لاہور میں پابندی ہے، لیکن پنجاب کے باقی سارے شہروں میں بسنت منائی جاتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ مسئلہ کیمیکل اور دھاتی ڈور سے گلے کٹنے کا تھا۔ کیا حکومت کو بسنت پر پابندی لگانی چاہیے تھی یا ایسی ڈور پر؟ یہ حکومت کی نااہلی ہے کہ وہ ایسی ڈور کی تیاری اور فروخت روک نہیں پاتی ہے، اور سزا وہ ملی ہے کہ لاہور اب بسنت سے محروم ہو کر ویلنٹائن منانے لگا ہے۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے، تو فروری میں میڈیا کا سارا زور بسنت پر ہوتا تھا اور وہ اپنا سودا بیچ لیتا تھا۔ اب وہ اپنا سودا بیچنے کے لئے ویلنٹائن ڈے پر زور دینے لگا ہے۔ غالباً حکومت کے مشیر وہ والے ڈاکٹر صاحب ہیں جو کھانسی کا علاج کرنے کی بجائے مریض کو خوب آئس کریمیں اور برف کھلا کر اسے نمونیہ کرواتے تھے، کیونکہ وہ نمونیے کے ماہر تھے۔ تو ہمیں بھی بسنت کی بجائے ویلنٹائن ڈے نصیب ہو چکا ہے۔ اب اسی پر راضی رہیں اور اپنی سوچ پر حیا کرتے رہیں۔

عدنان خان کاکڑ
اس سیریز کے دیگر حصےبھیا ڈھکن فسادی کی موٹر کاربھیا ڈھکن فسادی کہتے ہیں کہ بھٹو اسلام دشمن تھا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments