ماڑی پور کے فٹ پاتھ سے آگے کا سفر


خدا جانے رئیس امروہوی مرحوم نے کب چکوال کا دورہ کیا اور اپنا مشاہدہ نوک قلم پر لائے کہ :
یہ شہر ، شہرِ بخیلاں ہے اے دلِ بیمار
یہاں تو زہر بھی ملتا نہیں دوا کے لیے
یا حیرت !گھن سے بچانے کے لیے گندم کے بھڑولوں میں زہریلی گولیاں رکھی تھیں۔ گھن پھر بھی لگ گیا ،زہر جعلی تھا ۔ ہم سے لکڑی کا برادہ ملا اور کیڑے زدہ گندم کا آٹا نہیں کھایا جاتا ۔ ہم کھیتوں اور کھلیانوں میں پسینہ بہا کر اپنے لیے خالص گندم اُگاتے ہیں ۔ اپنی گھن زدہ فصلیں تو ہم دوسروں کے کھانے کے لیے بیچ دیتے ہیں مگر دوسرے ایسے بے حیا ہیں کہ ہمیں ہمارے دانے محفوظ رکھنے کے لیے دو نمبر زہر بیچتے ہیں ۔ ہم خالص دودھ حاصل کرنے کے لیے بھینسیں اور گائیں پالتے ہیں ۔ فالتو دودھ بیچتے بھی ہیں ۔ گزر اوقات کے لیے اس میں تھوڑی بہت ملاوٹ بھی کرنی پڑتی ہے ۔ ہم سے ملاوٹی دودھ حاصل کرنے والے بے ضمیر ہمارے لیے جعلی ادویات اور دو نمبر مصالحہ جات بناتے ہیں ۔ ہماری مثال جعلی کرنسی بنانے والے اس ہنر کار کی ہے، جس نے غلطی سے سات روپے کا نوٹ چھاپ دیا تو بھان میں دکاندار نے اسے ساڑھے تین تین سوروپے کے دو نوٹ تھما دیئے ۔
عجب چلن ہے صاحب ! اگر بے چارے ذخیرہ اندوز کا سرکاری دفتر میں کام پڑ جائے تو رشوت خور اہلکار اس کے آگے دستِ طلب دراز کر دیتا ہے ۔ ادرک میں تیزاب ملا کر بیچنے والے کسی غریب کا مٹن کڑاھی کھانے کو دل کر جائے تو ریسٹورنٹ والا گدھے کا گوشت بھون کر اس کے سامنے رکھ دیتا ہے ۔ چائے کی پتی میں چنے کا بورا ملانے والا شریف مصالحہ لینے جاتا ہے تو دکاندار اسے پسی ہوئی اینٹیں ملی مرچیں پکڑا دیتا ہے ۔ گھٹیا کپڑے بنانے والا چراغ لے کر بھی ڈھونڈتا رہے تو اسے خالص شہد نہیں ملتا اور جعلی موبل آئل بنانے والا شہر شہر گھوم کر بھی گاڑی کے ایک نمبر پرزے سے محروم ہی رہتا ہے ۔ ہماری مثال اس متمول تاجر کی ہے ، جو اپنی خاتون دوست سے شادی کا خواہاں تھا اور اس کاکردار جاننے کے لیے پرائیویٹ سراغ رساں ایجنسی کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں۔ ایجنسی کے سیکرٹ ایجنٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ لڑکی خاصے ڈھیلے کردار کی مالک ہے اور ان دنوں اپنے سے بھی زیادہ مشکوک چال چلن کے ایک تاجر کے ساتھ دیکھی جا رہی ہے ۔
کمال ہے صاحب ! بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے ٹھیکیدار میٹریل میں گھپلا کرتا ہے تو سرکاری افسران اس سے کمیشن مانگتے ہیں۔سرکاری اہلکار اپنی تنخواہ میں اوپر کی کمائی ملاتا ہے تو اینٹی کرپشن والے جھولی پھیلا لیتے ہیں۔چند سال پہلے ایک خبر پڑھی تھی کہ ظالم سماج کے ہاتھوں تنگ کسی دور دراز علاقے کا پریمی جوڑا گھر سے بھاگ کر راولپنڈی میں مقیم ہو گیا۔ لڑکی کے لواحقین نے انہیں ڈھونڈ نکالا اور راضی نامے اور دونوں کی دھو م دھام سے شادی کرنے کا جھانسہ دیا۔ لڑکی والوں کا پلان یہ تھا کہ دورانِ مذاکرات جوڑے کو چائے میں بے ہوشی کی دوا ملا کر پلادی جائے گی اور لڑکی کو خاموشی سے اٹھا کر واپس لے جائیں گے ۔ سب کچھ پلان کے مطابق ہوگیا مگر صد افسوس ! دوا نقلی تھی ، جو جوڑے پر نیم غنودگی ہی طاری کر سکی ۔اٹھانے کی کوشش پر لڑکی نے شور مچا دیا اور پولیس نے آ کر سارا کھیل چوپٹ کر دیا۔ہماری مثال گورنام سنگھ کی ہے ، جو شادی کی پہلی رات ترنگ میں تھا۔ اس نے اپنی دلہن اجیت کور کے سامنے اپنے سابقہ معاشقوں کی داستان دراز کی تو شب ڈھل گئی۔ دلہن نے نہایت حوصلے سے فسانہ ہائے محبت سماعت کیے اور آخرمیں فقط اتنا کہہ کر کوزے میں دریا بند کردیا ” سرتاج ! مجھے یقین تھا کہ اگر ہمارے ستارے مل گئے ہیں تو کرتوت بھی ضرور ملتے ہوں گے “
ہم ایسے عجیب الفطرت بلکہ عجیب الخلقت ماہرین ملاوٹ ہیں جو محبت تک میں ملاوٹ کرتے ہیں ۔ ہم وہ کج ادا ہیں ،جنہوں نے قائداعظم کی رحلت کے بعد ان کے نظریات میں ملاوٹ کر کے خود اپنی منزل کھوٹی کرلی۔ ہم نے اپنے پاﺅں پر کلہاڑی مارتے ہوئے محمد علی جناح کے جمہوری ، مہذب ، روشن خیال اور سماجی انصاف پر مبنی تصورِ پاکستان میں ایسا کھوٹ ملایا کہ اب ” سونے ورگی عمر وے اڑیا ، پِتل مانجھ گزاری “ ….کی مجسم تصویر بنے بیٹھے ہیں ۔ عشروں سے پیتل مانجھتے احساسِ زیاں بھی نہیں کہ :
کوئی بے فیض سفر پاﺅں سے لپٹا ہے کہ ہم
چلتے رہتے بھی ہیں اور نقل مکانی بھی نہیں
نقل مکانی کیا ہونی ہے کہ منزل تو آج بھی قائداعظم کے وسیع النظر پاکستان کے گلے میں بانہیں ڈالے ماڑی پورکے اسی فٹ پاتھ پر بین کر رہی ہے جہاں ان کی ایمبولینس خراب ہوئی تھی ۔ ایمبولینس کیا خراب ہوئی ، ہم نے اپنا خانہ ہی خراب کرلیا۔ تجربات در تجربات اور جمہوریت میں آمریت کی ملاوٹ کر کے ہم نے ایسی معجون تیار کی ، جس نے ہماری رسوائی و تباہی کا ساماں ارزاں کردیا۔ ضیاءالحق نے تو ہمارا حق حکمرانی غصب کرنے کے بعد کمال ہی کردیا ۔ اس نے افغانستان میں امریکہ اور روس کے مفادات کے لیے لڑی جانے والی جنگ کے اندھے کنوئیں میں ہمیں دھکا دیا تو ہماری دنیا ہی بدل گئی۔اس اندھے کنوئیں میں جہالت ، شدت پسندی ، فرقہ واریت ، لاقانونیت ، سفاکیت ، خاک و خون،ہیروئن اور آتشیں اسلحہ کے جن ننگے ناچ رہے تھے ۔ مردِ مومن نے ہمارے نظام میں جہادی کلچر اور ہماری قوم میں افغانیوں کی ملاوٹ کر کے ہمیں نئی شناخت عطا کی۔ہم نفرت کے سوداگروں اور خون آشام بلاﺅں کے ہاتھوںہرغمال بنتے گئے ، حتیٰ کہ دارا لفساد وجود میں آیا۔ ہماری تو وہ مثال ہے کہ ہماری مثال ہی کوئی نہیں۔
داستانِ الم مختصر کر تے ہیں کہ دارالفساد میں حالیہ خونی خود کش بم دھماکوں کے بعد پاک فوج نے آپریشن ردالفساد شروع کیا ہے ۔یقینا اب ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز اور بھرپور آپریشن کر کے ملک کو ان کے وجود سے پاک کردیا جائے گا۔ حرماں نصیبوں کو قوی امید ہے کہ ضرب عضب میں جو کمی رہ گئی تھی ، ہماری بہادر افواج ردالفساد میں وہ ضرور پوری کریں گی ….لیکن اس گھن کا کیا ہو گا جو ہمارے خیالات سے لے کر کردار تک کو لگ چکا ہے ؟ وہ گھن جو انتہا پسندی کی صورت معاشرے کے امن کو کھائے جا رہاہے؟ ہمیں نہیں معلوم کہ اس گھن کے لیے زہر مہیا کرنا کس کس کا فرضِ منصبی ہے ، البتہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ جدید تعلیم اور انصاف کی فراوانی ، بنیادی سہولتوں اور حقوق کی ارزانی ، مضبوط جمہوری بنیادوں کی استواری ،کرپشن کلچر کی سرکوبی اور قانون کی حکمرانی ہی اس گھن کے لیے بہترین ” زہر “ ہے ۔ تاہم اگر یہ زہر ہمارے بھڑولوں کی گولیوں کی مانند دو نمبر ہو گا تو گھن کا کچھ نہیں بگڑے گا ۔ اس گھن کو خالص زہر ہذا سے ختم کیے بغیر نقل مکانی نہیں ہو گی۔ نقل مکانی تو کیا ماڑی پور کے فٹ پاتھ سے آگے کا سفر ہی شروع نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments