بیروزگاری کا خاتمہ…. نئی سوچ کی ضرورت ہے


پاکستان میں بیروزگاری کی شرح سات فیصد کے قریب ہے۔ دنیا کے نوے کے قریب ممالک ایسے ہیں جن میں دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت سے کم بیروزگاری ہے۔ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک جیسے تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، بنگلہ دیش ،مالدیپ ،نیپال اور سری لنکا وغیرہ میں بھی بیروزگاری پاکستان سے کم ہے۔شرمندگی کا مقام تو یہ ہے کہ کچھ افریقی ممالک جن کا نام سن کر ہی ہمارے دلوں میں ہمدردی کے جذبات مچل اٹھتے ہیں وہاں بھی پاکستان سے کم بیروزگاری ہے۔ پاکستان میں سات فیصد تو ایسے لوگ ہیں جن کے پاس روزگار ہی نہیں جب کہ ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو ایسی ملازمت کرنے پر مجبور ہے جو ان کی تعلیم سے مطابقت نہیں رکھتی اور ان سے انہیں ایک مزدور سے زیادہ رقم بھی حاصل نہیں ہوتی۔ بہت سے ایم بی اے حضرات جن کو یونیورسٹی میں اے۔سی کمروں میں بیٹھ کر اہم امور کے فیصلے کرنے کی تربیت دی جاتی ہے وہ بے چارے سیلز مین اور بہت سے انجینئر حضرات جن کو زمانہ طالب علمی میں مشینیں بنانے کے خواب دکھائے جاتے ہیں عام ٹکنیشن والی ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔
حکومت پاکستان بیروزگاری کم کرنے کے لیے آج بھی وہی طریقے استعمال کر رہی ہے جو قیام پاکستان کے وقت استعمال ہوتے تھے۔۔یعنی سرمایہ کاری، سرمایہ کاری اور سرمایہ کاری۔ہم بیروزگاری کی جب بھی وجوہات تلاش کرنے نکلتے ہیں تو ہماری ریسرچ سرمایہ کاری سے شروع ہو کر سرمایہ کاری پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔سرمایہ کاری نے ہم پر ایسا سحر طاری کیا ہے کہ ہم اس سے آگے سوچ ہی نہیں پاتے۔اصل وجوہات پر ہم نے کبھی غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔
پاکستان میں بہت سے ایسے شعبہ جات ہیں جن میں لوگوں کی ضرورت ہے مگر لوگ مہیا ہی نہیں۔ ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کی ہی مثال لے لیں۔اکثر یونیوسٹیوں میں پی ایچ ڈی کرانے کے لیے فیکلٹی ہی میسر نہیں ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو جب بھی ریسرچر چاہیے ہو تو مغرب سے ریسرچر منگواتے ہیں۔بائیو ٹیکنالوجی اورسافٹ ویئر انجینئرنگ میں بھی پاکستان میں لوگ مہیا نہیں ہیں۔دوسری طرف کچھ ایسے شعبے ہیں جن میں مواقع نہیں ہیں مگر ہر شخص ادھر ہی جانے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے جیسے کہ بزنس ایڈمنسٹریشن ،انجینئرنگ اور میڈیکل وغیرہ۔تعلیم اور مواقعوں کے درمیاں بیلنس نہ ہونا بیروزگاری کی ایک بڑی وجہ ہے۔
بیرون ملک پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کام کرتی ہے مگر اکثریت کو گاڑی چلانے، گٹر صاف کرنے،پودوں کا خیال رکھنے اور ہوٹلز میں ویٹر کے علاوہ کام ہی نہیں ملتا۔ اچھی ملازمتوں کے بہت سے انٹرنیشنل مواقع پاکستانی حاصل نہیں کر پاتے۔ پاکستان میں بھی بڑی تعداد میں ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جن میں بھاری تعداد میں غیر ملکی کام کرتے ہیں۔ ان کمپنیوں کے ان غیر ملکی افراد کو پاکستان میں محصور کرنے پر بھاری اخراجات صرف ہوتے ہیں مگر وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ انہیں پاکستان میں با مہارت لوگ میسر ہی نہیں ہیں۔ اس کی وجہ تدریس کے پرانے طریقے اور ٹیکنالوجی کا نہ ہونا سمجھا جاتا ہے مگر درحقیقت اس کی وجہ طالب علموں کا اس شعبہ کی طرف رجحان نہ ہونا ہے۔طالب علموں کو عام طور پر ان شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جن میں ان کا رجحان نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں کلاس ان کا بیڈروم،کینٹین ڈرائنگ روم اور لیپ ٹاپ ویڈیو پلیئر بن جاتا ہے۔چیٹنگ کر کے اور رٹے لگا کر بطور روبوٹ امتحان تو پاس کر لیتے ہیں مگر ان میں وہ مہارت اور علم پروان ہی نہیں چڑھ پاتا جس کی انٹرنیشنل دنیا کوضرورت ہوتی ہے۔بیروزگاری کی تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اکثر کمپنیوں میں ملازمین کو ضرورت سے زیادہ عزت دیتے ہوے سپرمین سمجھ لیا جاتا ہے اور اس سے دو یا تین لوگوں کا کام کرایا جاتا ہے جبکہ تنخواہ کے وقت ٹارگٹس اور کارکردگی کے نام پر بھاری کٹوتی کے بعد ایک مزدور جتنی تنخواہ ملتی ہے۔جس وجہ سے کمپنیوں کے اخراجات تو کم ہو جاتے ہیں مگر ملازمتوں کے بہت سے مواقع پیدا ہی نہیں ہو پاتے۔یہ غیر قانونی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی۔
بیروزگاری کم کرنے کے لیے حکومت کو سب سے پہلے ایک با اثرکیریئر کونسلنگ ڈیپارٹمنٹ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس ڈیپارٹمنٹ کی پہلی ذمہ داری یہ ہو کہ یہ ایسا ٹیسٹ بنائے جس سے طالب علم کے رجحان کا اندازہ لگایا جاے اور یہ ٹیسٹ ہر طالب علم کی زندگی میں کم از کم دو مرحلوں پر ضرور لیا جائے۔پہلی بار نرسری میں اور دوسری بارجب یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہو۔ہر طالب علم کو اس کے رجحان سے مطابقت رکھنے والے شعبہ میں داخلہ دیا جاے۔یہ ڈیپارٹمنٹ حکومت کو رپورٹ دے کہ اگلے پندرہ سال بعد کس کس شعبے میں کتنی ملازمتوں کی ضرورت پڑے گی اور پھر حکومت اس کے مطابق ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کرے۔جن شعبوں میں رجحان زیادہ ہو ان شعبوں کو ڈویلپ کرنے کے لیے خاص پیکجز کا اعلان کیا جائے۔
کچھ شعبہ جات ایسے ہوتے ہیں جن میں زیادہ کام کرنا ملک کے لیے مفید ہوتا ہے خاص کر جن شعبہ جات کا قدرتی ریسورس اس ملک میں موجود ہو جیسا کہ پاکستان میں زراعت وغیرہ۔ کچھ ایسے شعبہ جات میں کام کرنا بھی ضروری ہوتا ہے جن میں کام کیے بغیر انٹرنیشنل دنیا میں مقابلہ نہ کیا جا سکے جیسا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی وغیرہ۔ لوگوں کا ان شعبوں کی طرف رجحان ڈویلپ کرنے کی ضرورت ہے۔اس ڈیپارٹمنٹ کی یہ بھی ذمہ داری ہو کہ وہ تمام تعلیمی اداروں کو بتائے کہ مستقبل میں کن شعبہ جات میں ملازمت کے زیادہ مواقع موجود ہوں گے اور انہیں پابند کرے کہ وہ ان شعبہ جات میں اسی تناسب سے داخلے کرے جس تناسب سے ملازمت کے مواقع پیدا ہونے کا امکان ہے۔ اگر کسی طالب علم کا میڈیکل میں رجحان ہے تو یونیورسٹی اسے میڈیکل کے اس شعبہ میں داخلہ دے جس میں مستقبل میں لوگوں کی زیادہ ضرورت ہو گی۔ اس طرح طالب علم اپنے رجحان کے شعبہ میں ہی تعلیم بھی حاصل کریں گے اور تعلیم اور ڈیمانڈ میں بیلنس بھی برقرار رہے گا۔اس کے علاوہ ملازمین کے ورکنگ آوٹ پٹ میں بھی ڈرامائی اضافہ ہو گا۔
اوپر جن دو طریقوں کو بیان کیا گیا ہے وہ دونوں طویل مدتی یعنی لانگ ٹرم علاج ہے۔مختصر وقت میں زیادہ سے زیادہ جابز پیدا کرنے کے لیے حکومت کو ایک ایسا ڈیپارٹمنٹ بناے کی ضروت ہے جو انٹرنیشنل معیار کو سامنے رکھتے ہوئے ایک شخص سے کام لینے کی حدود واضح کر ے اور تمام کمپنیوں کو پابند کرے کہ ملازمین سے ان حدود کے اندر ہی کام کروایا جائے گا۔ یہ ڈیپارٹمنٹ تمام انڈسٹری کو مانیٹر کرے اور جس کمپنی میں ایک ملازم سے دو لوگوں کا کام کروایا جار ہا ہو اسے بھاری جرمانے کرے۔اس قدم سے لاکھوں جابز پیدا ہوں گی اور بیروزگاری کی شرح دو فیصد سے بھی کم ہو جاے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments