سیکس ایجوکیشن: بے حیائی یا وقت کی ضرورت


\"rashidزندگی وہی اچھی جو افراط وتفریط سے پاک اور متوازن ہو۔کسی بھی چیز میں افراط یا تفریط اس چیز کے حسن کو گہنا دیتی ہے۔ خواہ کوئی کھانا کتنا ہی لذیذ کیوں نہ ہو اگر اس کو بار بار اور کثرت سے کھایا جائے تو وہی کھانا زہر لگنے لگے گا کیونکہ یہ کھانے کے ساتھ افراط یعنی زیادتی ہے، اسی طرح اگر شدید پیاس میں چند گھونٹ پانی پی کر یہ سمجھا جائے کہ انسان سیراب ہوجائے گا تو یہ تفریط یعنی کمی ہے۔ہمارا معاشرہ اس وقت جن چند بڑے مسائل کا شکار ہے ان میں سے ایک بڑا مسئلہ ہے افراط وتفریط، اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہم زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں اسی بیماری کا شکار ہیں۔

یورپ اور امریکہ میں جہاں چھوٹی عمر میں ہی سیکس ایجوکیشن دے کر بچوں کے اخلاق بگاڑنے کی بنیاد رکھی جاتی ہے وہیں ہمارے معاشرے میں اس چیز کو باالکل ہی نظر انداز کردینا بھی سنگین مسائل پیدا کررہا ہے۔  امریکہ میں عام طور پر چھٹی کلاس سے بارہویں جماعت تک یہ تعلیم دی جاتی ہے، لیکن بعض اسکولوں میں یہ تعلیم چوتھی اور پانچویں کلاس تک میں دینی شروع کر دی جاتی ہے۔ اس عمر میں جب ابھی شعورناپید ہوتا ہے یہ تعلیم بگاڑ کا سبب بنتی ہے، لیکن ہمارے ہاں سیکس ایجوکیشن نامی چیز سرے سے ہی نہیں۔ ہاں البتہ حکیموں کے اشتہارات اور ”کمزوری“ دور کرنے کی ادویات سے ہماری دیواریں اٹی پڑی ہیں، حالانکہ جس طرح بچوں کی دوسرے معاملات میں تربیت کی جاتی ہے کہ بیٹا جھوٹ نہ بولو، گالی نہ دو، چوری نہ کرو، چغلی مت کھاو، اسی طرح عمر کے ایک خاص حصہ میں یہ باتیں بھی بچوں کو بتانی چاہئیں۔ نوجوان نسل جہاں مناسب تعلیم نہ ہونے کی بنا پر کجروی کا شکار ہورہی ہے وہیں اس سے سنگین ازدواجی مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔ طلاق اور خلع کی شرح میں ہوش ربا اضافے کی ایک وجہ بنیادی ازدواجی تعلیم کا نہ ہونا بھی ہے۔ بچیوں کو تو مائیں کسی طور کچھ نہ کچھ بتا ہی دیتی ہیں لیکن لڑکوں کا مبلغ علم یاروں دوستوں سے سنی سنائی باتیں ہی ہوتی ہیں۔

لاہور کے مشہور ماہر نفسیات اور سیکس ایجوکیشن کے متعلق کئی کتب کے مصنف پروفیسر ارشد جاوید اپنی کتاب ”ازدواجی خوشیاں“ میں لکھتے ہیں کہ میرے پاس ایک ایسا جوڑا آیا جن کی شادی کو ڈیڑھ سال ہوگیا تھا مگر ابھی ان دونوں کا ازدواجی تعلق ہی قائم نہیں ہوا تھا جس کی بنیادی وجہ دونوں کی بے خبری اور کم علمی تھی۔ اس سے ملتی جلتی اور بھی کئی کیسز ہیں جن کا اظہار ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب میں باالتفصیل کیا ہے۔ اگر ایک خاص عمر میں جا کر والدین بچوں کو احسن طریق پر یہ ساری باتیں سمجھا دیں تو اس طرح کے مسائل سے باآسانی بچا جا سکتا ہے، مگر ہم ہیں کہ اس طرف توجہ دینے کو ہی فضول سمجھتے ہیں۔

اپنے کام کی وجہ سے اس عاجز کاواسطہ نوجوان نسل سے پڑتا رہتا ہے اور ان کے نظریات وافکار کااندازہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ان کی طرف سے کئے جانے والے سوالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے میں ناکام ہورہے ہیں۔ والدین کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو عمر کے لحاظ سے ایسی باتوں کے بارے میں بتائیں اور غیر ضروری شرم وحیا کو اس راہ میں حائل نہ ہونے دیں وگرنہ بچوں نے کہیں اور سے تو یہ سب کچھ سیکھنا ہی ہے تو وہ یا تو غلط راہ پر چل پڑی گی یا غلط معلومات حاصل کرکے اپنا نقصان کرے گی۔

میری ایک کلاس فیلو کی شادی ہوئی تو شادی کی پہلی رات ہی ایسے مسائل پیدا ہوگئے جن کا انجام اس بچی کی موت پر ہوا۔لڑکا جو غلط رویوں اور تعلیم کا شکار تھا، نام نہاد جعلی حکیموں کے پہلی رات ہی ’قلعہ فتح‘ کرنے کے جاہلانہ مشورہ پر عمل پیرا ہوکر لڑکی کے ساتھ وہ سلوک کرتا رہا کہ اسے پہلی رات ہی ہسپتال میں داخل کرانا پڑا جہاں ڈاکٹروں کا تبصرہ یہ تھا کہ کیا اس بچی کی شادی کسی جانور سے ہوئی ہے؟ اس بچی کے ساتھ یہ مسائل چند سال چلتے رہے اور اس دوران اس کے لگاتار چار بچے بھی پیدا ہوئے،لیکن چند روز قبل بالآخر اس بچی نے ان مظالم کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار دی۔

اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، ایسے واقعات آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں، لیکن ہم ناجائز شرم کا بہانہ بنا کر اپنی ذمہ داریوں سے غفلت کا کوئی نہ کوئی چور دروازہ تلاش کر ہی لیتے ہیں اور مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ غلط کام کرتے ہوئے شرم اور حیا ہمارے راستے میں حائل نہیں ہوتے لیکن جائز کام کرتے ہوئے ہمیں سو بہانے مل جاتے ہیں۔ والدین اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کو تیار نہیں، منبر و محراب کے وارثین کو جنہوں نے فکری رہنمائی کرنی تھی کو بے حیائی کا لالی پاپ بیچنے سے فرصت نہیں، کہ لوگوں کو ان کی ضرورت کے مطابق تعلیم دے سکیں، نتیجہ معاشرہ غلط رویوں کا شکار ہورہا ہے۔ یہ لوگ ویلنٹائین ڈے پر بکنے والے کنڈومز کی تعداد کے متعلق تو تحقیق کرلیتے ہیں مگر ان کی نظرایسے مسائل کی طرف اٹھنے سے قاصر ہے۔ نان ایشوز میں پڑ کر اپنی توانائیاں ضائع کرنے میں ہم روئے زمین پر پہلی پوزیشن پر ہیں۔ ضرورت اس بات کی بات ہے کہ افراط وتفریط کی راہوں سے بچتے ہوئے ایک متوازن زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے جہاں جائز ضروریات کو پورا کرنے کے لئے معذرت خواہانہ رویہ اپنانے سے گریز کرنا چاہئے۔ جب ناجائز شرم کی اآڑ میں ہم اپنی زمہ داریاں ادا نہیں کرتے تو جب عفت وحیا کی چادریں تار تار ہوتی ہیں تو ہمیں اس وقت بھی پھر شکوہ کا حق نہیں ہونا چاہئے۔ہمیں معاشرہ کا بگاڑ تو نظر آتا ہے ،مگر اسباب سے ہم نظریں چراتے ہوئے چین ہی چین کی بانسری بجاتے رہتے ہیں۔

راشد احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

راشد احمد

راشداحمد بیک وقت طالب علم بھی ہیں اور استاد بھی۔ تعلق صحرا کی دھرتی تھرپارکر سے ہے۔ اچھے لکھاریوں پر پہلے رشک کرتے ہیں پھر باقاعدہ ان سے حسد کرتے ہیں۔یہ سوچ کرحیران ہوتے رہتے ہیں کہ آخر لوگ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں۔

rashid-ahmad has 27 posts and counting.See all posts by rashid-ahmad

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments