محبت کسے کہتے ہیں ؟


\"ramish\"کوچہ ملامت یعنی فیس بک کے ان باکس میں تازہ سوالوں میں سے ایک ہی ہے ذرا کم غیر پارلیمانی ہے ورنہ باقی زبان و بیان کا سہارا لے کر جو ہماری تعریف کی گئی اور ہمیں عمیرہ احمد ، نسیم جہازی میرا مطلب نسیم حجازی کو پڑھنے کی ترغیب دلائی گئی تو یاد آیا ایک زمانہ تھا کہ پسندیدہ لکھاریوں کی فہرست یہیں سے شروع ہوتی تھی لیکن پھر شعور اور آگہی کہ آگ میں جلنا پڑا تو سب سے پہلے اس فہرست کو آگ لگی۔

خیر سوال پہ آتے ہیں جو کچھ یوں تھا کہ ویلینٹائن اگر محبت کرنے والوں کا دن ہے تو بتاو تم لوگ محبت کہتے کسے ہو؟ کیا تعریف ہے محبت کی؟ میں نے ہنس کے جواب دیا کہ یار تعریف محبوب کی ہوتی ہے جو ساری دنیا کو بے شک ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی زیادہ چول دکھتا ہو مگر آپ کی ساری دنیا وہی ہوتا ہے۔ لگے ہاتھ چول کا تذکرہ آیا تو خالد مسعود کا قولِ مبارک یاد آ گیا کہ چول سمجھایا نہیں جا سکتا صرف دکھایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح محبت کو سمجھانے کی لاحاصل بحث سے اچھا ہے کہ آپ میرا محبوب دیکھ لیں یا یہ روگ آپ کو لگنے کی خواہش کروں پھر آپ کے پاس بھی یہی جواب ہو گا کہ دکھا تو دیں پر سمجھائیں کیسے۔

یہاں پہنچی تھی کی اصغر ندیم سید کی آدھے چاند کی رات کی کچھ لائنیں یاد آ گئیں جس میں فیصل نے ماہ رخ کے سوال محبت کا مطلب تو آپ سمجھتے ہونگے پہ جواب دیا ’میں محبت کا مطلب کسی کتاب یا کسی علم سے نہیں جانتا۔ مجھے آج اس کا مطلب سمجھ آیا ہے۔ یہ تو خود کو پوری کائنات میں تحلیل ہوتے ہوئے محسوس کرنے کا نام ہے۔ اپنے آپ سے دور ہونے اور اپنے آپ سے انتہائی قریب ہونے کا نام ہے۔یا پتہ نہیں کیا ہے۔ بس یہی کچھ ہے کہ جو بیان نہیں کیا جا سکتا۔‘

غالباً سمجھنے سمجھانے کی اسی مشکل کے باعث لوگ محبت کرنے والوں کے دشمن ہو جاتے ہیں اور پھر محبت کے ساتھ وصل کی خواہش جڑ جائے تو اس معاشرے اور مذہب کے دائرے میں رہتے ہوئے شادی کے لفظ پہ نئے مسائل جنم لیتے ہیں۔ ماں باپ پریشان ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے کے لئے چاند کا ٹکڑا لانا تھا اور یہ نافرمان گیندے کے پھول سے دل لگائے بیٹھا ہے۔ یا پھر شہزادی کی طرح جسے پالا وہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگانے کی ضد کرے اور ایسے جوان کا ہاتھ تھامنے کی خواہش کرے جس کے دامن میں آپ کو کانٹوں کے سوا کچھ دکھائی نہ دے۔

آپ شب برات کے مخالف ہوں اور بیٹا شامِ غریباں منانے کو تیار ہو، آپ گیارہوں کا ختم نہیں دلواتے اور بیٹی مزار پہ منت مان آئے، ابا کو پنجابیوں سے نفرت ہے اور بیٹا گنڈے کھانے کو تیار ہے یا ماں پخیر راغلے کہے تو بیٹا جی آیاں نوں سننے کی خواہش پال لے۔یہی انوکھے لاڈلے کا مسئلہ ہے کہ وہ کھیلن کو چاند کیوں مانگ بیٹھتا ہے۔

یہ مسائل ان لوگوں کے ہیں جنہوں نے رسم و رواج کا یہ دریا پار کرنے کی قسم کھائی ہوتی ہے اور پھر کہیں پیروں میں خاندان کی زنجیریں ہوتی ہیں تو کہیں معاشی مجبوریاں۔کچھ لوگ لسانی، مذہبی اور سماجی مسائل کی آگ کا یہ دریا پار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور بہت سے زندگی بھر کی کسک دل میں لیے جہاں امی کی مرضی ہو شادی کر لیتے ہیں۔

آپ کو اگر انکار کرنا بھی ہے تو لٹھ لے کر پیچھے پڑنے سے اچھا ہے کچھ عرصے کیلئے ٹال دیں۔ کیا خبر آپ کو معاملہ ختم ہونے جیسی خوشخبری سننے کو مل جائے۔یہ اور بات ہے کہ شادی بعض اوقات واقعی محبت کے تابوت کا پہلا کیل ثابت ہوتی ہے۔

اچھی یا بری گزر سب کی جاتی ہے مگر کسی کتاب میں رکھا گلاب کا سوکھا پھول، تحفے میں ملی کچھ چوڑیاں جو ٹوٹ جانے پہ بھی سنبھال کے رکھی ہوں، کسی ریسٹورنٹ کے بِل کی پشت پہ لکھے دو نام ہوں یا پھر وہ ای میل جو آپ کبھی ڈیلیٹ نہ کر سکیں ایسی چیزیں ہیں جو آپ کو وقت آنے پہ اتنا مجبور کر دیں کہ آپ اپنے بچوں کی راہ میں وہ دیوار نہ بنیں جو آپ کے راستے میں حائل رہی۔

کیا فرق پڑتا ہے شادی بھی ہو ہی جانی ہے اور ویسی ہی گزرنی ہے جیسی سب کی گزرتی ہے تو چلیں ان کو اس امید پہ اپنی مرضی کر لینے دیں کہ وہ جو نیاجہاں بسانا چاہتے ہیں ان ہی کا حق ہے اپنی زندگی کے اس فیصلے پر۔پرانے لوگ شاید اسی لیے نئے آدمی سے ڈرتے ہیں کہ جو بھی نیا آتا ہے وہ اپنا ایک نیا جہاں ہی بسانا چاہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments