کھوتی کا کھرا…. وہاڑی تک


\"tahirبہاولنگر کے ایک زمیندار کے ڈیرے سے کھوتی (گدھی) چوری ہو گئی جو تقریباً ہر ڈیرے پر چارہ ڈھونے کے لئے بندھی ہوتی ہے۔ اس زمانے میں یہ جانور تین چار سو روپے میں دستیاب تھا کہ ابھی کھال سمگل ہونی اور گوشت بازار میں بکنا نہیں شروع ہوا تھا۔ موصوف نے کھوجی منگوائے اور کھوتی کا سراغ لگانے کے لئے کھرا چل پڑا۔ کھرے کے ساتھ عام طور پر چالیس پچاس لوگ ہوتے ہیں اور ان کے قیام و طعام کا خرچ اسی کے ذمے ہوتا ہے جس نے کھرا روانہ کیا ہو۔ یہ کھرا کئی دنوں تک تلاش کرتا ہوا دو سو میل کی مسافت طے کر گیا اور بہاولپور، ملتان کو کھنگالتا وہاڑی تک جا نکلا۔ سستے زمانے میں بھی ہزاروں کا خرچ ہو چکا تو کسی نے کہا کہ، چوہدری صاحب کھوتی اور خرید لینی تھی۔ اتنا خرچ آپ نے کھرے پہ کر دیا ہے۔ آخر کیا وجہ ؟

زمیندار کا دور اندیشی سے بھر پور جواب یہ تھا کہ میں کھوتی نہیں تلاش کروا رہا بلکہ دور و نزدیک کے چوروں کو یہ پیغام دے رہا ہوں کہ کھوتی کا کھرا وہاڑی تک آگیا ہے ۔ تو اگر میرے ڈیرے سے بھینس چوری ہوئی تو میں پورا پنجاب چھان ماروں گا مگر مال نہیں چھوڑوں گا۔ ورنہ اگر میں آج سمجھوتہ کر لوں تو میرے ڈیرے پہ کچھ بھی محفوظ نہیں رہے گا۔

پاکستان ایک بہت بڑا ڈیرہ تھا جسے آباد کرنے والوں اور اس کے استحکام کے ذمہ داروں کے سوتے ہوئے ایک کھوتی سنہ 49 میں کھل گئی اور ان کو اس نقصان کا اندازہ ہی نہ ہوا۔ پھر 1953ء میں باقاعدہ ہلہ بول کر ڈیرہ لوٹا گیا مگر اہل اقتدار، اہل فراست نہیں تھے۔

پھر 1971 ءمیں ان کی زمین کے ایک حصے پہ قبضہ ہو گیا اور اہل اقتدار کو فالج ہو گیا۔ 1974ء میں ان کو ایسی کمر توڑ زک پہنچی کہ پارلیمنٹ ہی یرغمال بن گئی لیکن اس وقت یہ مفلوج کے علاوہ مجبور بھی ہو گئے تھے۔ آئین کے پشتے میں سوراخ ہو چکا تھا لیکن ان کی کم نظری نعرے بازی میں مصروف رہی۔ نظام مصطفی اور قومی اتحاد کے نعرے ان پر ضیا مسلط کر گئے اور اس نے اسلامائزیشن کی ایسی گولی دی کہ گھر سلگتا چھوڑ کے افغانستان کے دفاع پہ نکل لئے۔ اس کے بعد کی تاریخ وہ گھٹا ٹوپ تاریکی ہے جس نے جھوٹ اور منافقت کے بچے دئے اور اب کوئی دھاگا نہیں ملتا جس سے سوت کات سکیں۔ کھوتی کے کھرے پر سمجھوتہ کیا تھا اب آپ کے مال لوٹے گئے۔ عزتیں تاراج ہوئیں اور گھر میں آ کر بچے مارے جا رہے ہیں اور ہمیں اہل اختیار ہر روز اقتدار کی حکمت عملیاں پڑھا رہے ہیں۔

لیکن ادنیٰ سے تدبر سے نظر آ جاتا ہے کہ یہ آکٹوپس کے پنجوں کے اسیر ہیں۔ ہر دفعہ ہم پہ وار کریں گے اور ہمیں تمیز سکھائیں گے مگر آکٹوپس کے عفریت ہشت پا بلکہ پیر تسمہ پا کو کچھ نہیں کہیں گے جس کو یہ اپنی حماقت خاص سے اپنی گردن پہ سوار کر بیٹھے ہیں۔

اس پہ ستم یہ کہ اہل علم و دانش بھی انھی کے ڈھنگ سیکھے ہیں۔ اور گفتگو کو علمی، ادبی اور سیاسی و سماجی رکھنے کا ارشاد فرماتے ہیں، حقیقی نہیں۔ صاحب ایک بات بتائیے؟

لوگ مر رہے ہیں، دم گھٹ رہا ہے اور آنے والا کل تاریک تر ہونے جا رہا ہے اور آپ ہم سے اسرار کر رہے ہیں کہ اقبال اور حفیظ جالندھری کے کلام کے شعری محاسن یا عصمت کے افسانوں پہ تنقیدی اور تحقیقی مضمون لکھیں۔ تو بھائی کیوں؟ اور کیسے؟

مجھے ویلنٹائن ڈے پہ چوہدری نثار صاحب کی پابندی پہ بات کرنی ہے۔ کیوں کہ یہ پابندی مولوی کو خوش کرنے اور غیر مولوی کو زیر نگیں کرنے کے لئے لگائی گئی ہے۔ اس کی حیثیت وہی ہے جو ضیاالحق کی جبری نماز کمیٹیوں کی تھی۔ اور جو بھٹو کی جمعے کی چھٹی کی تھی۔

دونوں کا مقصد خدا کو خوش کرنا نہیں بلکہ مولوی کی خوشنودی کا حصول تھا۔ میں نے ذاتی طور پر تو کبھی سالگرہ تک نہیں منائی مگر ایک پیغام کے طور پر ایک طبقے کو کہنا کہ تم کچھ نہ کرنا، میں پابندی لگا دیتا ہوں۔ پاکستان نہ تو جغرافیائی طور پر ان کے باوا کی جاگیر ہے اور نہ نظریاتی طور پر۔

پاکستان سب کا ہے اور سب کے لئے ہے۔

مجھے اور قارئین کو اس بات کے جواب میں دلچسپی ہے کہ ابھی آپ کو اور کیا اختیار درکار ہے۔ ووٹ آپ کو عام آدمی دیتا ہے اور خوشنودی آپ کسی نان سٹیٹ ایکٹر کی ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں۔ کیوں ؟

نان سٹیٹ ایکٹر کو ایک بندوق یا بم ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لئے سمگل اور چوری کرنا پڑتا ہے۔ آپ چاہیں تو موٹر وے پر ٹریفک روک کر توپیں ٹرانسپورٹ کریں۔ کسی کو اعتراض نہیں تو پھر آپ بتائیں کہ آپ کو ڈر کس چیز کا ہے؟؟

آپ اور پرائم منسٹر صاحب دونوں کلین شیوڈ ہیں۔ سوٹ ٹائی پہنتے ہیں اور ظاہر میں پورے لبرل ہیں اور چھوٹے میاں صاحب تو گانے وانے کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ تو بتائیں تو سہی کہ آپ مولوی کے ایجنٹ ہیں یا اس سے خوفزدہ ہیں اور حکمت عملی سے کام لے رہے ہیں؟

دوسرا یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ آپ ایک قسم کی ملائیت کے زہریلے اثر پر جھاڑو پھیرتے جاتے ہیں اور ساتھ ایک اور برانڈ کو پالتے جاتے ہیں۔ پاکستان کو ایک ریاست کے طور پر اس میوزیکل چیئر کے کھیل سے باہر کیوں نہیں نکلنے دے رہے۔ اگر یہ ہمارا اثاثہ ہیں تو اس کو کھلے عام بڑھائیں۔ پھر تامل کیسا؟ اور اگر یہ مستقل عذاب ہیں تو جان چھڑائیں۔ تو بھی تامل کیسا؟

آج کل خالص دینی ماخذ کی بجائے بلھے شاہ سے سند لی جائے تو تحریر کو سیکولر سمجھا جاتا ہے اس لئے عرض ہے کہ….

میں قربان انھاں تھیں بلھیا جیہڑے گلیں دین پرچا۔
سوئی لبھے تے دے دیون تے آہرن لین لکا۔

(بھلیا میں قربان ان پہ جو باتوں ہی سے خوش کر دیتے ہیں اور سوئی ملے تو واپس کر دیتے ہیں لیکن لوہے کا بڑا باٹ چھپا کر پی جاتے ہیں۔)

تو آپ ہمیں پریس کانفرنسوں میں سوئیاں بتا بلکہ چبھو کر آہرن چھپا لیتے ہیں۔ اس طرح حکومتیں تو کچھ وقت گھسیٹ کر چل جاتی ہوں گی لیکن ملک نہیں چلتے۔

آپ کے مسائل ہمیں تو کچھ دکھائی دیتے ہیں مگر ہمارے مسائل کون دیکھے۔آپ کو شاید اندازہ نہ ہو لیکن آپ کے نیشنل ایکشن پلان کی گولی سے آپ سب تو ایک پیج پہ آگئے لیکن اب لوگ اس پیج پہ نہیں ہیں۔ منہ تک رہے ہیں، دور کھڑے ہوئے آپ کا اور آپ کے پیج کا۔ اور سادہ سی حقیقت ہے اگر آپ پہ رب راضی ہو تو آپ کو سمجھ بھی آ جائے گی کہ جو مولوی توہین مذہب کی پرائیوٹ طور پر سزا دینے، ایک منظم پڑھے لکھے اور پر امن طبقے کو کافر قرار دلوانے، جماعت اسلامی کے انواع و اقسام کے فلسفوں کو رائج کرنے، منتخب وزیر اعظم کو پھانسی چڑھوانے اور بہت سے نابغہ روزگار افراد پر عرصہ حیات تنگ کروا کے ملک بدر کروانے کے بعد بھی راضی نہیں ہوا وہ صرف ویلنٹائین ڈے پر پابندی لگانے سے راضی ہو جائے گا اور پاکستان کو پرامن جنت بنانے میںجت جائے گا۔

اس خام خیالی کو حقیقت سمجھنے کے لئے تو ایک اور چوہدری نثار درکار ہیں۔ عام فانی انسان اس بوجھ کا متحمل نہیں ہو سکتا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments