مون لائٹ، آسکر ایوارڈ اور مہرشالا علی


مہر شالا علی ایک افریقی النسل امریکی اداکار ہیں۔ گزشتہ عشرے میں کئی معروف فلموں اور ڈراموں میں جاندار کردار ادا کرکے معروف ہوئے ہیں۔ خوش شکل اور منکسرالمزاج ہیں۔ پیدائشی نام مہرشالا الہشباز گلمور تھا۔ نوجوانی میں اسلام قبول کر لیا۔ ان کی والدہ راسخ العقیدہ مسیحی ہیں بلکہ اپنے گرجے کی مبلغ بھی ہیں۔ مہرشالا علی نے 2001ء میں جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی اور تا حال اس سے وابستہ ہیں۔ ان کی اہلیہ بھی احمدی ہیں۔
اس تعارف کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کیونکہ ان کو فلم مون لائٹ میں اعلیٰ کارکردگی پر آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اس طرح وہ یہ انعام پانے والے پہلے مسلمان اداکار ٹھہرے۔ لیکن سوشل میڈیا پر حسب روایت مذہبی نفرت کے اظہار اور کچھ احمدیوں کی طرف سے ان کے ذاتی عقیدے کا جا بجا ذکر دیکھ کر ضروری سمجھا کہ وضاحت کر دی جائے۔
آسکر ایوارڈ کی وقعت ہالی وڈ کے حلقوں میں بہت ہے اور عام شائقین بھی اس کو معیاری اداکاری اور فلمسازی کی کسوٹی سمجھتے ہیں لیکن راقم کے نزدیک ان چونچلوں کی ضرورت نرگسیت کے مارے فنکاروں کو اپنی نفسیاتی تسکین کے لئے درپیش ہوتی ہے۔ تھیٹر اور فلم کے فنکار عرصہ دراز سے پذیرائی کی پیاس میں در بدر ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ پیٹر او ٹول، المعروف لارنس آف عریبیہ نے ایک دفعہ اپنے فن کے بارے میں کہا تھا کہ اداکاری کیا ہے، طرح طرح کے سوانگ بنا کر اٹھکیلیاں کرنا۔ لیکن کئی اداکار خود کو میتھڈ ایکٹربتاتے ہیں۔ اپنے کردار کی نفسیات میں خود کو غوطہ زن کر کے اس کو سٹیج اور فلم کے پردے پر زندگی بخشتے ہیں۔
مہرشالا علی بھی ایسے ہی فنکارمعلوم ہوتے ہیں۔ اپنے کردار کی بھرپور سٹڈی کر کے اس سے انصاف کرتے ہیں۔ مون لائٹ میں ان کا کردار 80 کی دہائی کے میامی شہر کا ایک منشیات فروش ہے۔ اس کو ایک یتیم بچے کی تنہائی اور بھوک میں اپنا ماضی دکھائی دیتا ہے۔ اور یہ اس کی سرپرستی کا ذمہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ فلم کی کہانی اس بچے کی ذاتی شناخت کے گرد گھومتی ہے جو ہم جنس پرست رحجان رکھتا ہے۔ مہرشالا کا کردار اس کے بچپن کے دور کا ساتھی اور محسن ہے۔ اس کردار کی انسانیت اور ہمدردی جس خوبی سے ان صاحب نے پیش کی ہے، تحسین کے لائق ہے۔ پوری فلم میں مہرشالا کا اثر ایک مہربان سائے کی طرح جھلکتا ہے حالانکہ فلم میں ان کا حصہ شاید ایک چوتھائی بھی نہ ہو۔
ہم جنس پرستی ایک مشکل عنوان ہے۔ بطور ایک مسلمان اس مسئلہ پر مغربی لبرل رائے کی حمایت کرنا ااچنبھے کی بات ہے۔ مہرشالا علی معتدل عقیدہ کے حامل ہیں اورانسان کی ذاتی کمزوریوں کی پردہ پوشی اور معاشرے میں شرافت کی ترویج کے لئے تربیت اور تبلیغ کے قائل ہیں۔ اس کردار کی ادائیگی میں انہوں نے اپنی ذات کی حد تک اپنی مذہبی اقدار کو فراموش نہیں کیا لیکن فلم کا اصل پیغام مغربی لبرل سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سوچ سے راقم کو اختلاف ہے۔
ہم جنسیت کی خرابی انسانی نفسیات میں قدیم سے نظر آتی رہی ہے۔ اور ہر معاشرے نے اس کو غلط قرار دیا ہے۔ موجودہ دور میں اس خرابی کو ایک فلسفہ حیات کا درجہ دے کر معاشرے کو ازسرنوتشکیل دینے کی مہم کے مضمرات تو رفتہ رفتہ سامنے آ رہے ہیں۔
دراصل مسیحی عقائد نے جنس کے معاملہ کو ازلی گناہ سے متصل کر کے مغربی معاشرے کو افراط و تفریط میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ مغربی معاشرے میں شادی کوایک شوقیہ مشغلہ سمجھ کر کئی نسلیں جنسی کنفیوژن کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہیں۔ سنگل مدر خاندان عام ہیں اور ان میں پروان چڑھنے والے بچے پدری شفقت سے محروم۔ مون لائٹ کی کہانی بھی ایسے ہی بچے کی کہانی ہے۔ اس کے مصنف البتہ ہم جنس رحجان کو ایک فطری معاملہ ہی قرار دیں گے۔ لیکن اصل بحث فطری غیر فطری اعمال کی نہیں، انسان کی عزت نفس کی ہے۔ جو ہے، جیسا ہے، اس کا استحصال اور اس پر تشدد قابل نفرین فعل ہے۔ اس فلم کا ایک سبق یہ بھی ہے۔
مہرشالا علی، بطور ایک فنکار اپنے کرداروں سے انصاف کرتے ہیں۔ جہاں گالی گلوچ، مار پیٹ کا موقع ہو تووہ بھی کر دکھاتے ہیں۔ لوک کیج نامی ڈرامہ میں ان کا کردار کاٹن ماوتھ نیویارک ہارلم کے ایک نائٹ کلب کے مالک کا ہے جو بے رحمی سے قتل کا مرتکب ہوتا ہے۔ ریمی ڈینٹن، جو نیٹ فلکس کے ہاوس آف کارڈز کا معروف کردار ہے کچھ موقعوں پر ایسی حرکتیں کرتا ہے جو ایک باعمل مسلمان کے لئے ناپسندیدہ ہیں۔ مہرشالا علی کہتے ہیں کہ وہ ایسے سین فلمانے میں کئی شرطیں رکھتے ہیں کہ ان کے کردار سے انصاف بھی ہو اور ان کی مذہبی روایات بھی قائم رہیں۔ یہ کس حد تک کارآمد ہے، وہی جانتے ہوں گے۔
راقم کے نزدیک ایسے مناظر کے بغیر بھی کہانی چلائی جا سکتی ہے۔ فن کو فن کے مقام پر رکھنا اور اخلاقی اور مذہبی اقدار کو اس پر حاوی نہ ہونے دینا بھی ایک مغربی اختراع ہے۔ یورپی نشاةثانیہ کے دور کی پینٹنگز اور مجسمے دیکھ لیں۔ فن کو خالص رکھا اور برہنگی کو آرٹ کا اٹوٹ حصہ بنا دیا۔ مجھے اعتراض بھی ہے لیکن ڈیوڈ کا مجسمہ دیکھ کر عش عش بھی کر اٹھتا ہوں۔ البتہ آج کل کی فلموں اور ڈراموں کا ایسے اعلیٰ معیار کے آرٹ سے موازنہ کرنا مناسب نہ ہوگا۔
بات آرٹ کے مقصد پر ختم ہوتی ہے۔ اگر آرٹ کا مقصد انسانی تجربے کی عکاسی کر کے اس کے ناظرین کو بہتر انسان بنانا ہے تو سو بسم اللہ۔ روس کا کلاسیکی بیلے رقص، پاووراٹی کا اوپیرا، موزارٹ کی روح موہ لینے والی دھنیں، ڈاونچی کی پینٹنگز اور سٹائن بیک کے ناول سب جائز ہیں۔ انسانی حالت کی غمازی کرتے ہیں اور منفی جذبات کی ترویج نہیں کرتے۔ یہی معاملہ ہم نے منٹو میں پایا۔ اور تھیٹر اور فلم کیوں اس سے باہر ہوں؟ اگر مہرشالا علی اپنے فن سے انصاف کرتے رہیں اور شہرت اور دولت کی خاطر اپنی مذہبی روایات کو قربان نہ کریں توکیا خوب ہو۔ بقول میاں محمد بخش، ایک پھسلن والا رستہ ہے۔ اس شعبہ میں اخلاق باختگی عام ہے اور اس سے بچنا محال۔
مہرشالا علی کا عقیدہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ ان کا ایوارڈ وصول کرنا اس عقیدے کی بدولت نہیں بلکہ ان کے ہنر اور محنت سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن ان کا عقیدہ آج کل کے سیاسی منظر نامے میں ایک درجہ اہمیت کا حامل ہے۔اور ان کا احمدی ہونا پاکستانی قوم کے لئے ایک اور قابل توجہ موقع ہے کہ پاکستان کے آئین میں غیرمسلم ٹھہرایا گیا انسان ساری دنیا میں مسلمان کے طور پر جانا اور پہچانا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments