ٹھرک : منٹو کی ایک نامکمل تحریر


سن پچاس کے عشرے کا ذکر ہے۔ لاہور کے ماہوار فلمی میگزین ’ ڈائریکٹر‘ کے مدیر شباب کیرانوی کی دلی خواہش تھی کہ ایک فلم پروڈیوس کی جائے۔ 1954 ءمیں انہوں نے کچھ دوستوں سے قرض لے کر ایک فلم شروع کر دی جو چند ماہ میں تیار ہو گئی۔ فلم کا نام تھا ’جلن‘ اور مزاحیہ اداکار نذر پر اس میں ایک گانا پکچرائز ہوا جس کے بول تھے ’میں بھی ٹھرکی، تو بھی ٹھرکی…. سارا زمانہ ٹھرکی ہے ‘۔

نمائش کے دن قریب آئے تو دشمنوں نے افواہ اڑا دی کہ گانے کے بول فحش ہیں جس کے باعث فلم پر پابندی لگ جائے گی۔ شباب کیرانوی کو فکر دامن گیر ہوئی کہ ان کی پہلی ہی فلم سنسر کی نذر ہو گئی تو ان کا فلمی مستقبل تباہ ہو جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے لفظ ’ٹھرک‘ پر غور کرنا شروع کر دیا۔ دفتر کے چپراسی نے انہیں پریشان دیکھا تو خوش خبری کے انداز میں اطلاع دی کہ سڑک پر منٹو صاحب کی جھلک دکھائی دی ہے۔ یقیناً اسی طرف آ رہے ہوں گے۔ آپ ان سے مشورہ کر لیں، ضرور کوئی حل نکل آئے گا ۔ شباب صاحب کی جان میں جان آئی۔ اور وہ بے چینی سے منٹو صاحب کا انتظار کرنے لگے۔ جس بلڈنگ کی دوسری منزل پر فلمی میگزین کا دفتر تھا، اسی کے گراﺅنڈ فلور پر ایڈل جی شراب فروش کی دکان تھی۔ منٹو صاحب اکثر ہال روڈ سے سالم تانگہ لے کر وہاں آتے اور مطلوبہ مال لے کر گھر چلے جاتے۔ کبھی کبھی جب جیب میں کچھ نہ ہوتا توپہلے اوپر کی منزل میں آ کر ’ڈائریکٹر‘ کے لئے ایک فی البدیہہ افسانہ لکھتے اور معاوضے کے تیس روپے لے کر ایڈل جی کی دکان پر چلے جاتے جہاں سالم تانگہ ان کا منتظر ہوتا ۔ اس روز بھی منٹو کی جیب خالی تھی۔ وہ ایک کہانی کا تانا بانا ذہن میں مرتب کرتے ہوئے دفتر میں داخل ہوئے اور آ کر دین محمد چپراسی سے کاغذ طلب کئے جن پر وہ افسانہ رقم کر سکیں۔ شباب کیرانوی نے ان سے پوچھا کہ لفظ ٹھرک کا مطلب کیا ہےاور کیا کسی شخص کو ٹھرکی کہنا گالی دینے کے مترادف ہے۔ منٹو صاحب نے جو تشریح کی اسے سن کر شباب کیرانوی بولے ’منٹو صاحب ، آج آپ افسانہ لکھنے کی بجائے ایک مضمون لکھ دیجئے اسی موضوع پر۔اگر فلم پر پابندی لگ گئی تو میں آپ کا مضمون عدالت میں ثبوت کے طور پہ پیش کر دوں گا‘۔ منٹو صاحب چونکہ راستے میں کہانی سوچتے ہوئے آئے تھے اور پلاٹ بالکل تیار تھا، اس لئے مضمون کا مطالبہ سن کے خاصے بدمزہ ہوئے لیکن بھی دل کڑا کر کے بیٹھ گئے اور ’ٹھرک‘ کے موضوع پر مضمون لکھنا شروع کر دیا ۔ کوئی آدھا صفحہ لکھا اور بے زار ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ شباب سے بولے، ’مجھے پیسے دے دو۔ باقی مضمون کل آ کر لکھ دوں گا‘۔ شباب صاحب نے تیس روپے کا انتظام کر دیا۔، منٹو صاحب پیسے لے کر نیچے ایڈل جی کی دکان پر گئے۔اور منتظر  تانگے میں بیٹھ کر گھر کی راہ لی۔

یہ وسط جنوری 1955ء کی بات ہے۔ اگلے روز شباب کیرانوی انتظار کرتے رہے لیکن منٹو صاحب نہیں آئے۔ اس سے اگلے روز بھی نہیں آئے۔ مزید دو روز گزر گئے…. اور منٹو صاحب کے انتقال کی خبر ہی آئی۔ ان کا لکھا ہوا آدھا صفحہ دفتر کی الماری میں پرانے شماروں کے درمیان پڑا رہا۔ یہ تمام روداد مجھے بارہ برس بعد دین محمد چپراسی نے سنائی ۔ راقم الحروف کی عمر اس وقت بیس برس کے قریب تھی۔ وہ بی اے کا طالب علم تھا اور اسے ’ ماہنامہ ڈائریکٹر ‘ میں ایک اپرنٹس ایڈیٹر کے طور پر ملازمت مل گئی تھی۔ دین محمد نے جب پرانے رسالوں کے انبار میں سے منٹو صاحب کی لکھی ہوئی وہ سلپ نکالی تو میرے خون کی گردش یکایک تیز ہو گئی۔ خیال آیاکہ شاید اس کے علاوہ بھی منٹو صاحب نے کچھ لکھا ہو چنانچہ پرانے ریکارڈ والی ساری الماری چھان ماری…. کوئی نیا مسودہ تو ہاتھ نہ آیا لیکن ڈائریکٹر کے پرانے شماروں میں کچھ ایسے افسانے دیکھے جو منٹو کے کسی مجموعے میں شامل نہیں تھے۔ ان افسانوں کی ادبی حیثیت پر تو سوالیہ نشان نظر آ رہا تھا لیکن بہر حال وہ ایک بڑے ادیب کے قلم سے ایک اسے وقت میں برآمد ہوئے تھے جب باہر سڑک پر سالم تانگہ اس کا منتظر تھااور وہ تیزی سے کہانی گھسیٹ کے اور تیس روپے جیب میں ڈال کر ایڈل جی کی دکان پر پہنچنا چاہتا تھا…. اور ہاں وہ آدھی لکھی سلپ جس پر منٹو نے ٹھرک کی تشریح کی تھی…. کاش دین محمد کی نظر بچا کر میں نے اڑا لی ہوتی۔

منٹو نے ان چند سطروں میں عشق اور ٹھرک کا موازنہ کرتے ہوئے عشق کو ایک بھڑ بھڑ جلتے ہوئے لکڑی کے خشک ٹکڑے سے تشبیہ دی تھی جب کہ ٹھرک کو ایک ایسی گیلی لکڑی قرار دیا تھا جو اندر ہی اندر سلگتی رہتی ہے لیکن کبھی پوری طرح شعلہ نہیں پکڑتی۔ منٹو کی اس نامکمل تحریر کو کبھی عدالت تک پہنچنے کا موقع نہ ملا کیونکہ سنسر بورڈ نے فلم ’جلن‘کو ہنسی خوشی پاس کر دیا تھا۔ بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں یونیورسٹی چلا گیا اور عرصہ دراز تک اس فلمی رسالے کے دفتر جانے کا موقع نہ ملا۔ پھر وہ رسالہ بند ہو گیا۔ مالک کے بیٹوں نے پرانے رسالوں اور کاغذوں کا سارا انبار ردی میں اٹھوا دیا اور دفتر خالی کر کے ایک وکیل کو کرائے پر دے دیا۔

اب بھی مال روڈ پر کمرشل بلڈنگ کے سامنے سے گزرتے ہوئے سوچتا ہوں کہ اس عمارت کے ایک کمرے کی گرد آلود الماری میں برسوں تک اردو کی ایک نامکمل مگر نایاب تحریر پڑی رہی ۔ کاغذ کا وہ پرزہ آج کسی ادبی میوزیم میں شوکیس کی زینت ہونا چاہیے تھا جسے منٹو نے اپنی موت سے تین روز قبل لکھا تھا ۔ اور اردو ادب میں ایک ہی منٹو گزرا ہے …. سعادت حسن منٹو ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments