گاؤں میں ویلنٹائن ڈے نہیں ہوتا


\"rashidہمارا اسکول گاوں سے تقریباً سات کلومیٹر کے فاسلے پر واقع تھا۔اس علاقہ میں یہ واحد اسکول تھا اس لئے باوجود دیہی سرکاری اسکول ہونے کے یہ کو ایجوکیشن اسکول تھا جہاں آس پاس کے گاؤں دیہاتوں سے لڑکے لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ ہمیں بھی ہر صبح سات کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے اسکول پہنچنا ہوتا تھا۔یہ فاصلہ پیدل،کبھی کبھار خوش قسمتی سے ،بس مل جاتی تو بس پر جو ہماری سائیکلوں سے بھی کھٹارا قسم کی بس تھی جو صبح شہر جاتی اوررات گئے واپس گاوں پہنچتی تھی۔ گاوں والے اسی پر شہرجاتے اوردس روپے کا سودا خریدنے کے لئے پورا دن شہر میں گزارکر واپس آتے اور کھانا نہ ملنے پر بیویوں کی تواضع کرتے،

یا پھر کھٹارا قسم کی بائیسکل پر طے ہوتا تھا۔جن چند ایک ”صاحب حیثیت“ طلبہ کے پاس اچھی سائیکلیں تھیں وہ راستے میں انہیں خود پنکچر کرکے واپسی کی راہ لیتے اور گھر جاکر نعرہ مستانہ بلند کرتے کہ سائیکل پنکچر ہونے کی وجہ سے ہم اسکول نہیں جاسکے۔ الغرض روزانہ ایک معرکہ ”حق وباطل“ طے کرکے ہم اسکول پہنچتے تو پی ٹی ماسٹر’مولا بخش‘ سمیت ہمارے منتظر ہوتے۔لیٹ ہونے کی وجہ سے ہاتھوں پر لاٹھیوں کی بارش کر دی جاتی۔ ہاتھ سوج کر کپا ہوجاتے۔ٹھنڈ میں ہاتھوں پر سوٹیاں کھاتے منہ میں خون جمتا محسوس ہوتا۔ لڑکیاں تو چپ چاپ کلاسوں میں جابیٹھتیں مگر لڑکوں کے ہاتھ سجانے کے بعد ان کی تشریف بھی سجا دی جاتی۔

شاہدہ ہماری کلاس فیلو تھی، جو روزانہ کسی نہ کسی کے ساتھ بہرحال اسکول پہنچ جاتی، خواہ کسی کے ترلے ہی کیوں نہ کرنے پڑیں۔ جو بھی شاہدہ کو اپنی کھٹارا سائیکل پر بٹھا کر اسکول لے جاتا وہ اس دن شاہدہ کا ہیرو ہوتا۔ ”ہیرو“ بننے کے لئے ہمارا دل بھی روز للچاتا مگر ہماری سائیکل کی ناگفتہ بہ حالت اس بات کی اجازت دینے سے دست بستہ معذرت کرلیتی۔ پڑھائی میں ہوشیار ہونے کے ساتھ ساتھ شاہدہ خوش شکل بھی تھی۔ گو شاہدہ کا حسن حسنِ جہاں سوز تو ہرگزنہیں تھا مگر اس کے چہرے میں کوئی ایسی کشش بہرحال تھی کہ جو بھی اسے دیکھتا دوبارہ دیکھنے کی خواہش ضرورکرتا، مگر ہم سب بشمول شاہدہ اس وقت عمر کے اس حصہ میں تھے جہاں ابھی دل ونظر کے معاملات اس قدر واضح نہیں ہوتے کہ کسی کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوا جائے۔ سو عمر کا یہ حصہ انہی فکروں میں گزرا کہ سائیکل کس طرح پنکچر کی جائے تا اسکول جانے کے بجائے صحرا میں جاکر بکریاں چرائی جائیں۔

کچھ عرصہ بعد ہی شاہدہ بوجوہ آٹھویں کلاس میں پڑھائی چھوڑ کر گھر بیٹھ گئی جب کہ ہم نے یہ جہاد جاری رکھا۔ چونکہ سارا دن ہی اسکول کی نذرہوجاتا اور شام بکریاں چراتے گزرتی اس لئے ہم شاہدہ کی خیر خبر سے محروم رہے۔ دنوں پر دن گزرتے رہے اور ہم اسکول سے نکل کر کالج جا پہنچے۔

انہی دنوں جب ہم پڑھائی کے سلسلے میں شہر مقیم تھے اورہوسٹل لائف کے مزے لے رہے تھے شاہدہ کے’معاشقے‘ کی خبریں زبان زدعام ہونے لگیں۔ خیر یہ تو کچھ بڑی بات نہ تھی کہ عمر کا تقاضا تھا لیکن اصل حیرت ناک بات شاہدہ کے مبینہ’عاشق‘ کے متعلق تھی۔یہ عاشق صاحب ایک ’حکیم‘ تھے اور عمر میں شاہدہ سے دوگنا بڑے تھے۔ مگر دل چونکہ بچہ ہے اس لئے عمر کی کہاں پرواہ کرتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ معاشقہ گاوں کے ہر فرد کی زبان پر تھا،مگر سب حیران بھی تھے کہ یہ الہڑ مٹیار کسی خوبرو جوان پر عاشق ہوتی تو کوئی بات بھی تھی ،مگر اس نے تو ریٹ ہی خراب کر دیئے، جو بجا طورپر نوجوانوں کے لئے الارمنگ صورتحال تھی۔

دیکھتے ہی دیکھتے گاوں میں اچھا خاصہ ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ شاہدہ کے گھر والے پہلے تو حکیم صاحب سے بچی کا بیاہ کرنے کے حق میں تھے، کہ حکیم صاحب کی مالی حالت گھر والوں کے لئے حوصلہ افزا تھی، مگرگاﺅں والوں کا دباﺅ برداشت نہ کرتے ہوئے عاشق ومعشوق کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔

حکیم صاحب تودھلائی سے بچنے کے لئے پہلی ہی فرصت میں پتلی گلی سے نکل کر شہر اپنے ’دارالحکمت‘ میں جا جلوہ افروز ہوئے۔ شاہدہ نے جب حالات کا رخ پلٹتا دیکھا تو بد دل ہوکرگھر میں موجود زائد المیعاد کیڑے مار زہر دوائی پی لی، مگر وائے رے قسمت آج کل دوائیاں بھی کونسا اصلی ملتی ہیں چنانچہ یہ خودکشی ناکام ہوئی اورجیسے ہی شاہدہ کی حالت سنبھلی پہلی ہی فرصت میں موصوفہ کی شادی ایک موصوف سے کر دی گئی جوموصوفہ کے فرسٹ کزن تھے۔ شاہدہ آج کل اپنا تیسرا بچہ سنبھال رہی ہے اور حکیم صاحب نے بھی چار بچوں کی ایک طلاق یافتہ ماں سے دوسری شادی رچالی ہے۔

آج کل حکیم صاحب اور شاہدہ کے شوہر کی گاڑھی چھنتی ہے۔ حکیم صاحب کے’نسخوں ‘سے شاہدہ کا شوہر بھی استفادہ کررہا ہے اوریوں ہینگ اور پھٹکڑی لگے بغیر رنگ چوکھا آرہا ہے۔

ویلینٹائن ڈے منانے والوں کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ہر گز ضروری نہیں۔ اگر کسی قاری کی ’کہانی‘ بھی اس داستان سے ملتی ہے تو یہ قطعاً اتفاق نہیں۔ اس مرد دانا کا قول یاد کریں جو فرماتے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ جہاں بھی ہورہا ہے وہ اس سے پہلے بھی ہوچکا ہوتا ہے۔ اس لئے دل چھوٹا نہ کریں۔ ہیں جی!

راشد احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

راشد احمد

راشداحمد بیک وقت طالب علم بھی ہیں اور استاد بھی۔ تعلق صحرا کی دھرتی تھرپارکر سے ہے۔ اچھے لکھاریوں پر پہلے رشک کرتے ہیں پھر باقاعدہ ان سے حسد کرتے ہیں۔یہ سوچ کرحیران ہوتے رہتے ہیں کہ آخر لوگ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں۔

rashid-ahmad has 27 posts and counting.See all posts by rashid-ahmad

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments